اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 فروری ۔2025 )فری لانسرز اور شعبے کے ماہرین نے کہا ہے کہ بلوچستان کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ مسلسل انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہا ہے پاکستان کا ایک دور افتادہ صوبہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی انڈسٹری میں بھی دوسرے صوبوں سے پیچھے ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں نے بڑی تعداد میں آئی ٹی سیکٹر کی طرف رخ کیا ہے اور وہ گھریلو اور بین الاقوامی گاہکوں کو پورا کر کے فری لانسرز کے طور پر اپنی روزی کما رہے ہیں ہمیں متعدد مسائل کا سامنا ہے کیونکہ صوبہ امن و امان کی خراب صورتحال کا شکار ہے فری لانسنگ ہمارے لیے روزی کمانے کا ایک بہترین آپشن ہے.

(جاری ہے)

فری لانسر آئی ٹی ماہرسعید بشیر نے کہا کہجو فری لانسرز کی ایک چھوٹی فرم چلاتے ہیں ہمارا کوئی دفتر نہیں ہے لیکن ہم آئی ٹی سروسز کے کاموں کو مشترکہ طور پر انجام دینے کے لیے جسمانی طور پر جڑے ہوئے ہیں. انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی حالیہ رکاوٹوں نے بیرون ملک کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ میں صارفین کے ساتھ ان کے رابطوں کو بری طرح متاثر کیا ہے انہوں نے کہا کہ صوبے میں آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کا انحصار مارکیٹ تک رسائی، انفراسٹرکچر کے استحکام، ٹیکسیشن پالیسیوں اور ہنر مند انسانی وسائل کی دستیابی پر ہے انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے کاروبار کو انٹرنیٹ کی مسلسل رکاوٹوں کی وجہ سے سخت نقصان پہنچا ہے جو کہ دیگر صوبوں کے مقابلے بلوچستان میں زیادہ شدید تھے.

آئی ٹی ماہر نوید سہیل نے بتایا کہ 99 فیصد آئی ٹی فرمیں اپنی خدمات میں رکاوٹوں کی اطلاع دیتی ہیں 90 فیصد کو قومی سطح پر مالی نقصانات کا سامنا ہے تاہم بلوچستان کے معاملے میںصورتحال سنگین تھی کیونکہ وہاں انٹرنیٹ میں رکاوٹیں زیادہ ہوتی تھیں انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ مفت وی پی این خدمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیںلیکن اس سے ڈیٹا کی حفاظت کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے.

انہوں نے کہاکہ آئی ٹی کے شعبے میں ہونے والی پیشرفت نے معاشی اور سماجی تبدیلیوں کو آسان بنایا ہے جو کاروبار اور معاشرے کو تبدیل کر رہے ہیں ڈیجیٹل اکانومی کے نام سے ایک نئی قسم کی معیشت ابھر رہی ہے ڈیجیٹل معیشت میں معلومات ایک اہم وسیلہ اور مسابقت کی بنیاد ہے جہاں پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری اور خدمات فراہم کر سکتا ہے حکومت مارکیٹوں کی تشکیل کے لیے ایک زریعہ کے طور پر کام کرتی ہے ڈیجیٹل معیشت کی ترقی مجموعی معیشت کی ترقی کے مترادف ہے ڈیجیٹل مارکیٹوں اور خدمات میں نہ صرف معیشت کو ترقی دینے میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی بے پناہ صلاحیت ہے.

انہوں نے کہاکہ صوبے کی صورتحال اس کے برعکس ہے جس کے لیے دنیا جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی رکاوٹوں، رکاوٹوں اور سست روی نے لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے جو دوسری صورت میں آئی ٹی کی مہارتوں اور خدمات کے ذریعے اچھی کمائی کر رہے تھے انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد سے گریز کرے جو کمپنیوں اور فری لانسرز کو نقل مکانی پر مجبور کر سکیں اور اس کے بجائے اس شعبے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کریں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان پہلے ہی معقول ملازمتوں کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کے پاس کمائی کے لیے جو کچھ تھا وہ انٹرنیٹ کی خرابی سے چھین لیا جا رہا ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ فری لانسرز انٹرنیٹ کی کی وجہ سے کے ساتھ رہے ہیں کے لیے آئی ٹی

پڑھیں:

پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔

طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نینو ٹیکنالوجی سے بنایا گیا دنیا کا سب سے چھوٹا وائلن
  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • بھارتی ریاست منی پور میں کرفیو؛ انٹرنیٹ معطل، مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں جاری
  • بھارتی ریاست منی پور نسلی فسادات کی لپیٹ میں، کرفیو نافذ، انٹرنیٹ سروس معطل
  • گورنر پختونخوا کی صوبائی حکومت پر کڑی تنقید، کرپشن اور بے امنی پر سوالات اٹھا دیے
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا کشمیری قیادت کی مسلسل غیر قانونی نظربندی پر اظہار تشویش
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • جسٹس منصور علی نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا
  • وزیر داخلہ محسن نقوی کا ایف سی ہیڈکوارٹر وانا کا دورہ، جوانوں کے ساتھ عید منائی