عورت مارچ کا جنسی تشدد کے خاتمے، شادی اور طلاق کے قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
فوٹو: اے ایف پی
عورت مارچ لاہور چیپٹر نے رواں سال کیلئے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا۔
لاہور میں عورت مارچ اور خواتین محاذِ عمل نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا اور ایجرٹن روڈ پر دھرنا دے دیا۔
خواتین محاذِ عمل نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا، جس میں خواتین پر جنسی تشدد ختم کروانے، شادی اور طلاق کے قوانین میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ کام کی جگہوں پر خواتین کو اچھا ماحول دیا جائے، پنجاب ہتکِ عزت ایکٹ 2024 اور دفعہ 144 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
مان لیجیے جو ہم نے عنوان میں کہا کہ مرد و عورت کی جنگ نہیں، سمجھ لیں کہ جنسی تلذذ کی بھی بات نہیں نہ ہی خود ساختہ عزت وغیرت کا قصہ ہے۔۔۔ یہ بھی سمجھ لیں کہ انا کو ٹھیس، غصہ، مایوسی وغیرہ وغیرہ بھی ایک ایسا پردہ ہے جس کی آڑ میں اصل بات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پھر اصل بات کیا ہے؟
جناب عالی، اصل کہانی یہ ہے کہ یہ سب طاقت اور کمزور کا کھیل ہے، زندگی کی بساط پہ کمزور مہرہ محکوم ہے اور اس کی کیا مجال کہ وہ طاقتور کو ٹیڑھی نظر سے دیکھے ۔ پچھلے 50 برس میں یہ پیغام معاشرے کے ہر طبقے اور سطح پر پہنچا ہے اور معاشرے کے ہر فرد نے اسے حصہ بقدر جثہ کے طور پہ قبول کرتے ہوئے اس پہ عمل بھی کیا ہے۔
ہم ماتم کرتے ہیں، نوحے لکھتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں اور ابھی آنسو خشک نہیں ہوئے ہوتے کہ ایک اور خبر آ جاتی ہے۔ ایک اور کمزور پکڑا جاتا ہے چاہے بچہ ہو یا عورت، بوڑھا، مزدور، غریب یا کوئی اور؟
سوال یہ ہے کہ گزرے واقعات طاقتور کو کسی بھی ڈر، سزا کے خوف میں مبتلا کیوں نہیں کرتے؟ ظلم کرتے ہوئے ان کا ہاتھ رکتا کیوں نہیں؟
شاید اس لیے کہ لاشعور انہیں یہ تسلیم کروا چکا ہے کہ اول تو وہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر ایسا بھی ہو گیا تو ان جیسے بے شمار پشت پناہی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہر جگہ خیر خواہ مل جائیں گے چاہے وہ جیل ہو یا عدالت … پھر کیسا ڈر اور کیسا خوف؟
صاحب ، طاقت کا استعمال ایک نشہ ہے انتہائی خوفناک نشہ۔ جب یہ علم ہو کہ سامنے والا کچھ نہیں کر سکتا اورمنہ سے نکلنے والے الفاظ اور ہاتھ پاؤں کی ٹھوکروں کو روکنے والا کوئی نہیں تو طاقتور جنگل میں رہنے والا درندہ بن جاتا ہے جس کے منہ کو انسانی خون کی لت لگ جاتی ہے اور وہ شکار کرنے کے لیے ہر وقت بے تاب رہتا ہے۔
لیکن بربریت کے اس کھیل میں ذرا طاقتور اور کمزور کی جگہ بدل کر دیکھیے :
کیا ہوتا اگر شانتی نے لوہے کی راڈ اپنے شوہر کے مقعد میں گھسائی ہوتی؟
کیا ہوتا اگر بلوچستان کی ہر عورت کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہوتی اور وہ کچھ مردوں کو گھیرے میں لے کر گولیاں برسا رہی ہوتیں؟
کیا ہوتا اگر سوات کے مدرسے میں شاگردوں نے مل کر استاد کو اسی طرح پیٹا ہوتا اور وہ موت کے گھاٹ اتر جاتا؟
کیا ہوتا اگر ڈاکٹر سدرہ کے پاس پستول ہوتا اور وہ بھی مقابلے پہ اتر آتی؟
کیا ہوتا اگر اپنی بچیوں کو نہر میں پھینک دینے والے مرد کو 4 عورتیں ہاتھ پاؤں باندھ کر اسی نہر میں پھینک دیتیں؟
کیا ہوتا اگر کنزی نے کزن کو زہریلی گولیاں کھلا کر سڑک کے کنارے پھینکا ہوتا؟
یا ہوتا اگر مانانوالہ کی اقری شوہر کو مار مار کے موت کے گھاٹ اتار دیتی؟
کیا ہوتا جو سندھ میں فرزانہ کلہاڑی سے اپنے شوہر علی نواز کے ٹکڑے کرتی؟
کیا ہوتا عورتیں باپ کی وراثت پہ قابض ہوتیں اور بھائیوں کو حصہ دینے سے انکار کر دیتیں؟
کیا ہوتا اگر حمیرااصغر کے بھائی کی لاش ملتی اور گھر کی عورتیں لینے سے انکار کر دیتیں؟
کیا ہوتا اگر سیالکوٹ میں ارم اپنے 3 بچوں کے باپ عمران کو قتل کرتی؟
کیا ہوتا اگر اسلام آباد کی بچی ثنا یوسف لڑکے کے جسم میں گولیاں مارتی؟
کیا ہوتا اگر ماریہ اور اس کی ماں مل کر اپنے بیٹے کا گلا دباتیں اور دوسری بہن وڈیو بناتی؟
کیا ہوتا اگر سارہ انعام شاہنواز کے سر پہ ڈمبل مار کر ہلاک کرتی؟
کیا ہوتا اگر نور مقدم ظاہر جعفر کی گردن اتار دیتی؟
کیا ہوتا اگر عورتیں قبریں کھود کر مردہ مردوں سے کھیلتیں؟
کیا ہوتا اگر جگہ جگہ مرد ریپ ہوتے؟ ( شانتی قتل کیس نے یہ سجھا دیا ہے کہ عورتیں بھی لوہے کی راڈ استعمال کر سکتی ہیں)
کیا ہوتا اگر راولپنڈی کے قاری صاحب کے جنسی اعضا پر ان کی بیوی کرنٹ چھوڑتی اور قاری کو تڑپتے دیکھ کر خوش ہوتی؟
ہمیں لگتا ہے کہ طاقتور کے وحشیانہ پن کو قابو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کمزور مقابلہ کرنا سیکھے کیونکہ طاقتور سے کسی بھی قسم کے رحم کی توقع عبث ہے، اب تک یہ سب نے دیکھ ہی لیا ہے۔
ایک اور اہم بات جو کسی زہر کی طرح معاشرے میں سرایت کر گئی ہے وہ، وہ کلچر ہے جس کی بنا پہ گھریلو اکائی میں طاقتور یہ ماننے پہ تیار نہیں کہ وہ اپنی حدود پار کرتے ہوئے اپنے سے کمزور پہ تشدد کر رہا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ صرف جسمانی طور پہ مضروب ہونا ہی تشدد نہیں، ذہنی، جذباتی، معاشی تشدد بھی انسان کو بری طرح مضروب کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مارے گئے تھپڑ وں کے نتیجے میں نیلو نیل جسم سب کو نظر آ جائے گا مگر نیلو نیل دماغ، روح اور دل کسی کھاتے میں نہیں گنا جاتا۔ جسم کا زخم اگر داغ چھوڑ سکتا ہے تو سوچیے دماغ اور روح پہ لگے گھاؤ کے داغ بھی تو ہوں گے نا ۔۔۔ جو کمزور کو ساری عمر کے لیے نہ کم ہونے والی تکلیف اور درد میں مبتلا رکھیں گے۔
سو صاحب، آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ جہاں بھی کمزور نظر آئے، اس کا ساتھ دینے کی کوشش کریں، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور یہ یاد رکھیے کہ کمزور اور طاقتور کے درمیان فرق صرف جسمانی نہیں بلکہ معاشی، معاشرتی، ذہنی، طبقاتی، مالی فرق بھی اہمیت رکھے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں