امریکا مصنوعی ذہانت میں بھی قیادت کا خواہاں ہے، جے ڈی وینس
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کا غلغلہ ہے۔ امریکا اس شعبے میں بھی اپنی قائدانہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ مصنوعی ذہانت دنیا کو بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ اگر اس حوالے سے خود کو تیار نہ کیا گیا تو پس ماندگی مقدر بنے گی۔
فرانس میں مصنوعی ذہانت کے وسعت پذیر افق اور کردار کے حوالے منعقدہ کانفرنس میں جے ڈی وینس نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ انسان کا نعم البدل کچھ بھی نہیں۔ مصنوعی ذہانت ملازمتیں کھائے گی نہیں بلکہ لوگوں کو نئی ملازمتوں کی چوکھٹ تک لے جائے گی۔
جے ڈی وینس نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے لوگ اپنے ذہن کو وسعت دے سکتے ہیں، قابلیت کا گراف بلند کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی دراصل انسان میں ویلیو ایڈیشن کے لیے ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت بھی انسانوں کو زیادہ صلاحیت و سکت کا حامل بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
امریکی نائب صدر نے کہا کہ جب بھی کوئی نئی اور انقلابی نوعیت کی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں آتی ہے تب لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ابھی لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ جب اِس سے اچھی طرح ہم آہنگ ہوجائیں گے تب لوگ دیکھیں گے کہ یہ تو اُن کی قابلیت کا گراف بلند کر رہی ہے۔ اور وہ وقت زیادہ دور نہیں۔ کاروباری ادارے کسی بھی نئی ٹیکنالوجی سے فوری طور پر کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایسی فضا تیار کرتے ہیں جس میں لوگ خوف کھانے لگتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی سے ڈرنے کے بجائے اُن کی مدد سے اپنی صلاحیت و سکت کا دائرہ وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں مسابقت بڑھ رہی ہے اور مصنوعی ذہانت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
پیرس میں منعقدہ اے آئی ایکشن سَمِٹ میں خطاب کے دوران امریکی نائب صدر نے مزید کہا کہ ابھی لوگوں کی بھرپور ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہے۔ کچھ وقت گزرنے پر وہ محسوس کریں گے کہ دوسری بہت سی ٹیکنالوجیز کی طرح مصنوعی ذہانت بھی انسانوں کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ پہنچارہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت جے ڈی وینس میں بھی کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
چین نے 10 جی براڈبینڈ انٹرنیٹ سروس متعارف کرا کے ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کردیا
چین نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے 10 جی براڈبینڈ انٹرنیٹ سروس متعارف کرادی ہے جو دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار کے نئے معیارات قائم کررہی ہے۔
اس جدید سروس کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 9,934 میگابائٹس فی سیکنڈ جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1,008 میگابائٹس فی سیکنڈ ہے جو صارفین کو بے مثال ڈیٹا ٹرانسفر کی سہولت فراہم کرتی ہے۔اس انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ سروس کی بدولت صارفین صرف 20 سیکنڈ میں 20 گیگابائٹس کی فل لینتھ 4K مووی ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ سروس ویڈیو سٹریمنگ، گیمنگ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور ورچوئل رئیلٹی جیسے جدید ایپلی کیشنز کے لیے بھی غیر معمولی کارکردگی پیش کرتی ہے۔ماہرین کے مطابق چین کا یہ اقدام نہ صرف ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک بڑی پیش رفت ہے بلکہ اس کے اثرات صحت، تعلیم، زراعت اور دیگر اہم شعبوں پر بھی مرتب ہوں گے۔
مثال کے طور پر صحت کے شعبے میں ٹیلی میڈیسن اور ریموٹ سرجری جیسے جدید طریقہ ہائے علاج کو مزید موثر بنایا جاسکے گا، تعلیمی اداروں میں آن لائن لرننگ کے تجربات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ زراعت میں ڈیٹا پر مبنی جدید تکنیکوں کے استعمال کو فروغ ملے گا۔چین کی ٹیلی کام کمپنیوں نے اس سروس کو بڑے شہروں جیسے بیجنگ، شنگھائی اور گوانگژو میں ابتدائی طور پر متعارف کرایا ہے جبکہ اگلے چند برسوں میں اسے ملک بھر میں پھیلانے کا منصوبہ ہے۔