واشنگٹن ڈی سی — 

امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے چوہوں کے دماغ پر کی جانے والی تحقیق میں ایسے مخصوص نیوران خلیات دریافت کیے ہیں جو غذا کھانا بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ خلیے موٹاپے کے موثر علاج میں مد د گا ر ہو سکتے ہیں۔

اس سے پہلی کی گئی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ دماغ میں بہت سے ایسے "فیڈنگ سرکٹس” ہیں جو کھانے کی مقدار کی نگرانی کرتے ہیں لیکن ان سرکٹس میں موجود نیوران کھانا کھانے کو روکنے کا حتمی فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔

جریدے "سائنس ڈیلی” کے مطابق، سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کھانے کو روکنے والے ان نیوران کی دریافت موٹاپے کے لیے علاج میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

ریاست کیلی فورنیا میں مقیم "اینڈوکرینولوجی، میٹابولزم اور کلینیکل نیوٹریشن” یعنی انسانی جسم میں ہارمونز، خلیوں اور خوراک کی ماہر ڈاکٹر سنبل بیگ اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نئی ادویات میں ان نیوران کو فعال بنانا شامل ہو سکتا ہے۔

"اگر نئے دریافت کیے گئے نیوران کو تجربات کے بعد ادویات کا ہدف بنایا جاتا ہے تو ادویات زیادہ موثر ہو سکتی ہیں اور مضر اثرات بھی کم ہو سکتے ہیں۔”

ڈاکٹر سنبل بیگ، اینڈوکرائنولوجی میٹابولزم اور کلینیکل نیوٹریشن کی ماہر ہیں جو ریاست کیلی فورنیا میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ریسرچ مزید کیا کہتی ہے؟

یہ نتائج کولمبیا یونیورسٹی کے "ویگیلوس کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز "کے ڈاکٹر الیگزینڈر نیکٹو اور نیکٹو لیب میں ایسوسی ایٹ ریسرچ سائنٹسٹ سری کانت چودھری کے چوہوں کے دماغ پر کی جانے والی تحقیق سے سامنے آئے ہیں۔

ڈاکٹرا لیگزینڈر نیکٹو نے کہا کہ نئے دریافت ہونے والے نیوران پہلے سے معلوم نیوران کے برعکس کام کرتے ہیں کیونکہ یہ خوارک کے تسکین کی حد تک کھانے کے بجائے اس سے قبل کھانے کو روکنے کا کہتے ہیں ۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دماغ کے دوسرے نیوران عام طور پر ہمارے منہ میں ڈالے جانے والے کھانے، یا کھانے سے آنتوں کو بھرنے یا کھانے سے حاصل ہونے والی غذائیت کو محسوس کرنے تک محدود ہوتے ہیں۔ "ہمیں جو نیوران ملے وہ اس لحاظ سے خاص ہیں کہ وہ معلومات کے ان تمام مختلف ٹکڑوں کو(ایک جگہ) مربوط کرتے نظر آتے ہیں۔”




یہ دیکھنے کے لئے کہ نیوران کھانے کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، محققین نے ان نیوران کومصنوی طور پر ایکٹیویٹ کیا جس میں انہیں روشنی کے ساتھ آن اور آف کیا گیا۔

ڈاکٹر چودھری نے کہا، "جب روشنی سے نیوران فعال ہوئے تو چوہوں نے بہت کم کھانا کھایا۔”

اس سرگرمی کی شدت نے اس بات کا تعین کیا کہ جانوروں نے کتنی جلدی کھانا بند کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ "دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیوران صرف فوری طور پر رکنے کا اشارہ نہیں دیتے ہیں۔ وہ چوہوں کو آہستہ آہستہ اپنے کھانے کو سست کرنے میں مدد کرتے ہیں۔”

حالیہ تاریخ میں خوراک کی باآسانی اور وافر مقداد میں دستیابی، لوگوں کے رہن سہن کے سہل انداز، ورزش میں کمی، جدید دنیا میں پریشانی اور دباو کے زیر اثر اور حیاتیاتی منتقلی جیسے عوامل دنیا کے کئی خوشحال ملکوں میں مو ٹاپے کے پھیلانے میں کار فرما ہیں۔




ڈاکٹر سنبل بیگ نےاپنے مقالوں اور لیکچرز کے حوالے سے بتایا کہ موٹاپے سے انسانی جسم میں ہارمونز کا عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس سے بھوک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سمبل بیگ نے کہا، موٹاپے سے لوگوں کو مہلک امراض کا سامنا ہوتا ہے جن میں "دل کا مرض اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ، خون میں کلاٹ بننا، بلڈ پریشر، کولیسٹرول کا بڑھنا ،جگر کا پھیلنا، سانس میں دشواری کمرکا درد، گیس کا جمع ہونا، سوجن، ٹائپ ٹو زیابیطس” بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ریسرچ اس لیے بھی اہم ہے کہ دماغ کا کھانے اور بھوک سے بہت زیادہ تعلق ہے۔

"دماغ کا ریوارڈ سنٹر میٹھی اور چربی والی چیزوں سے بہت متحرک ہو جاتا ہے جس سے زیادہ کھانے کی عادت، اور ہر وقت کھانے کی طلب بڑھ جاتی ہے اور موٹاپے کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔”

ڈاکٹر سنبل کے مطابق کیونکہ دماغ کا بھوک اور کھانے سے بہت زیادہ تعلق ہے اس ضمن میں یہ نئی تحقیق بہت اہم دکھائی دیتی ہے اور اگر تجربات اور نتائج کے بعد ان نیوران کو استعمال کیا جاتا ہے تو یہ موٹاپے کے علاج کی جانب بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔

ریاست ورجنینا کی ہیمٹن میڈیکل سنٹر سے منسلک غذائی ماہر بریانا فروچی کہتی ہیں کہ تجربات کے بعد نیوران کے استعمال سے اگر خوراک کو ایک حد پر روکنے جیسا کام ہو جا ئے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

فروچی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے تجربے کے مطابق موٹا پے کی جینز کے ذریعہ موروثی منتقلی، لوگوں کا چکنائی والی اشیا اور توانائی سے بھر پور چیزوں کو زیادہ مقدار میں کھانا ایسے عوامل ہیں جو لوگوں کو جسمانی اور پھر طبی مسائل میں مبتلا کرتے ہیں۔

بریانا فروچی، جو ورجینیا کے ہیمپٹن میڈیکل سینٹر میں غذائی ماہر

"کچھ لوگ اپنی تسکین کے لیے جی بھر کے کھانا کھاتے ہیں جو کہ اکثر جینیاتی رجحان ہے، جبکہ کچھ لوگ زندہ رہنے کی خاطر کھاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ بہت زیادہ چکنائی اور انرجی سے بھرپور اشیا کھاتے ہیں انہیں اپنے آپ کوروکنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسی کوئی چیز دریافت ہوجائے کہ جو ان کو دماغوں کو کھانا روکنے کا پیغام دے تو یہ ایک زبردست بات ہوگی۔”

دوسری طرف فروچی کہتی ہیں کہ بعض لوگ زندگی میں کسی قسم کے تناؤ یا دباؤ کی کیفیت میں زیادہ خوراک کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ "ان کے لیے بھی یہ نیوران بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔”

جہاں تک ان نیوران خلیوں کو متحرک کرنے کا تعلق ہے وہ کہتی ہیں کہ یہ کسی ایسی دوا کے ذریعہ بھی ممکن ہو سکتا ہے جس کے مضر اثرات نہ ہوں۔

دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے کا شکار ہیں

"ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن” کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں 1990 سے لے کر اب تک بالغ افراد میں موٹاپے کی شرح دوگنا بڑھ گئی ہے اور ہر آٹھویں فرد کو موٹاپا لاحق ہے۔

ادارے کی تحقیق کے مطابق بچوں اور نوعمر افراد، یعنی 5 سے 19 سال کی عمر کے درمیان افراد میں موٹاپا چار گنا بڑھ گیا ہے۔ اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ 2022 میں 43 فیصد بالغوں کا وزن طبی اور صحت کے معیار سے زیادہ تھا۔

اس صورت حال میں ڈاکٹر اور غذائی ماہرین لوگوں کا کئی طریقوں سے علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات ادویات کے منفی اثرات بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کولمبیا یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیق درست ثابت ہوجائے اور کسی صورت میں ان نیوران خلیوں کو ایکٹیویٹ کیا جاسکے تو یہ موٹاپے کے علاج کی جانب ایک سنگ میل ہو سکتا ہے

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ڈاکٹر سنبل ہو سکتا ہے ان نیوران نیوران کو کے مطابق کھانے کو بتایا کہ سے زیادہ کرتے ہیں ہو سکتی جاتا ہے ثابت ہو ہیں جو ہے اور

پڑھیں:

اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7

کائنات اپنی وسعت میں ہمیشہ انسان کو حیرت زدہ کرتی آئی ہے۔ آسمان کی بے پناہ گہرائی میں جب کوئی نیا مظہر ظاہر ہوتا ہے تو نہ صرف فلکیات کی دنیا میں ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے بلکہ انسان کے ذہن و شعور میں بھی نئی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک ایسا ہی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے جس نے ماہرین فلکیات کو حیران اور عام انسان کو متجسس بنا دیا ہے۔ ناسا نے اعلان کیا ہے کہ ایک پراسرار خلائی جسم ناقابلِ یقین تیزی کے ساتھ سورج کے نظام میں داخل ہورہا ہے۔ اس جسم کو عارضی طور پر A11pl3Z کا نام دیا گیا ہے اور اس کی رفتار تقریباً دو لاکھ پینتالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ رفتار کسی عام شہابیے یا دمدار ستارے کی نہیں بلکہ ایک ایسے اجنبی مہمان کی ہے جو خلا کی تاریکی سے آکر ہماری سائنس اور فلکیات کو نئے سوالات میں الجھا رہا ہے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی میں اجنبی مہمان آیا ہو۔ اس سے قبل بھی دو بین النجومی اجسام کی دریافت ہوچکی ہے جنہیں سائنس کی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ پہلا Oumuamua تھا جو 2017ء میں دریافت ہوا۔ اس کی شکل لمبوتری اور چپٹی تھی اور اس نے سورج کی کشش کے برعکس عجیب انداز میں حرکت کی، جس پر بعض سائنس دانوں نے حتیٰ کہ مصنوعی ہونے کا شبہ بھی ظاہر کیا۔

دوسرا مہمان 2I/Borisov تھا جو 2019ء میں دریافت ہوا اور ایک عام دمدار ستارے کی طرح نظر آیا، تاہم اس کا مدار سورج کی کشش سے آزاد تھا اور وہ محض ایک زائر کی حیثیت سے آیا اور گزر گیا۔ اب یہ تیسرا مہمان A11pl3Z ہے، جو اپنے حجم اور غیرمعمولی حرکت کی وجہ سے سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اس A11pl3Z کو ناسا کے ATLAS سسٹم نے 25 جون کو دریافت کیا۔ یہ جسم اپنے ساتھ کئی سوالات لے کر آیا ہے۔ عام دمدار ستارے جب سورج کے قریب آتے ہیں تو ان کے گرد روشنی کا ایک ہالہ یا ’’کُما‘‘ بنتا ہے اور ان کی ایک دم بھی نظر آتی ہے جو سورج سے مخالف سمت میں پھیلتی ہے۔ لیکن اس جسم کے گرد نہ کوئی کُما ہے اور نہ ہی دم۔ اس لیے اس کے کومیٹ ہونے پر شکوک ہیں۔ اگر یہ شہابیہ ہے تو بھی اس کا برتاؤ عام شہابیوں جیسا نہیں۔ اس کا مدار سورج کی کشش کے تابع نہیں بلکہ ہائپربولک ہے، یعنی یہ یہاں کچھ وقت کے لیے آئے گا اور پھر واپس گہرے خلا میں نکل جائے گا۔

سائنس دانوں نے اس کے حجم کا تخمینہ 10 سے 20 کلومیٹر لگایا ہے، جو کسی چھوٹے شہر کے برابر ہے۔ یہ اگر واقعی ایک ٹھوس شہابیہ یا اجنبی پتھریلا جسم ہے تو اپنی جسامت کے اعتبار سے انسانوں کی دریافت کردہ سب سے بڑے بین النجومی اجسام میں شمار ہوگا۔ لیکن اس کی سب سے بڑی پہچان اس کی رفتار ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے کسی بھی عام جسم سے بڑھ کر ہے۔ یہاں تک کہ Oumuamua اور 2I/Borisov بھی اس رفتار کے قریب نہیں پہنچتے۔

فلکیاتی ماہرین اس وقت اپنی جدید ترین رصدگاہوں کو اس پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ، جو کائنات کی سب سے طاقتور آنکھ سمجھی جاتی ہے، اور ویرہ سی روبن آبزرویٹری، دونوں اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یورپی خلائی ادارے کے سائنس داں رچرڈ موئسل کا کہنا ہے کہ اگر یہ کومیٹ ہے تو اس کا برتاؤ غیرمعمولی ہے، اور اگر یہ کچھ اور ہے تو یہ ہماری فلکیاتی درجہ بندی کو ہی بدل کر رکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی تصویر اور ہر نیا ڈیٹا پوری دنیا کے ماہرین کی دل چسپی کا مرکز بن رہا ہے۔

یہ جسم رواں ماہ مریخ کے قریب سے گزرے گا اور دسمبر میں زمین کے قریب ترین ہوگا۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت زمین سورج کے مخالف حصے میں ہوگی، لہٰذا کسی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود یہ واقعہ انسانی ذہن کو جھنجھوڑتا ہے کہ کائنات میں کتنے ہی اجسام انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہیں اور ہم اکثر ان کے بارے میں بے خبر رہتے ہیں۔ ناسا کے ایک ماہر مارک نوریس نے کہا ہے کہ ایسے دس ہزار تک اجسام بیک وقت ہمارے نظامِ شمسی میں موجود ہوسکتے ہیں جنہیں ہم اب تک دریافت ہی نہیں کرپائے۔

یہاں ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ بین النجومی اجسام اپنے ساتھ کائنات کے دور دراز خطوں کے ذرات اور مواد لاتے ہیں۔ ان میں کاربن مرکبات، نامیاتی سالمات اور حیات کے اجزائے ترکیبی شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ اجسام زمین یا کسی اور سیارے سے ٹکرائیں یا اس کے قریب سے گزریں تو وہ وہاں زندگی کے بیج ڈال سکتے ہیں۔ یوں A11pl3Z جیسا مہمان ممکنہ طور پر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ زندگی کا آغاز کس طرح ہوا اور یہ کہ کائنات کے مختلف خطوں میں سیاروں کا باہمی تعلق کس انداز سے وجود میں آتا ہے۔

اس سے قبل Oumuamua کے بارے میں بھی یہ قیاس کیا گیا تھا کہ شاید وہ کسی اجنبی تہذیب کی باقیات یا خلائی جہاز ہو۔ اگرچہ یہ خیال سائنسی برادری میں متفقہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، مگر اس نے یہ بحث ضرور چھیڑ دی کہ ہم کائنات کے واحد باشعور باشندے نہیں بھی ہوسکتے۔ A11pl3Z کی غیرمعمولی رفتار اور منفرد حرکت اسی طرح کے سوالات کو پھر سے زندہ کر رہی ہے۔ کیا یہ واقعی محض ایک بے جان پتھر ہے؟ یا یہ کسی اور دنیا کا کوئی اور تحفہ ہے؟

اس معاملے کا ایک فلسفیانہ پہلو بھی ہے۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ہمارا نظامِ شمسی اس کے مقابلے میں ایک ننھے ذرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ایسے میں جب کوئی اجنبی جسم اربوں میل دور سے آکر ہمارے قریب سے گزرتا ہے تو یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی علم دوستی اور تجسس کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ہم جتنا جانتے ہیں، اتنا ہی یہ احساس بڑھتا ہے کہ کائنات کے راز ابھی کھلنے باقی ہیں۔

ماہرین کے نزدیک آنے والے چند ماہ انتہائی اہم ہوں گے۔ جیسے جیسے یہ جسم زمین اور مریخ کے قریب سے گزرے گا، ہمیں اس کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل ہوں گی۔ اس کی سطح کی ساخت، اس کے رنگ اور اس کی حرکت کے معمولات سے شاید یہ طے ہوسکے کہ یہ شہابیہ ہے، دمدار ستارہ ہے یا پھر کوئی نیا اور غیرمتوقع مظہر ہے۔ اگر یہ واقعی کچھ ایسا نکلتا ہے جسے ہم پہلے کبھی نہ جانتے تھے تو یہ دریافت ہماری فلکیاتی درجہ بندی کو بدل ڈالے گی۔

سائنس کی دنیا میں ہر نئی دریافت ایک نئی بحث کو جنم دیتی ہے۔ A11pl3Z بھی ایک ایسا ہی موقع ہے۔ یہ ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے نظریات کو پرکھیں، اپنے سوالات کو وسیع کریں اور اپنی سائنس کو مزید تحقیق کی طرف لے جائیں۔ یہ محض ایک جسم نہیں بلکہ ایک سوال ہے جو کائنات نے ہماری طرف پھینکا ہے۔ اور سوالات ہی انسان کو علم کے سفر پر آگے بڑھاتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ کائنات ہمیں اپنے راز آہستہ آہستہ کھول کر دکھا رہی ہے۔ کبھی Oumuamua آتا ہے، کبھی Borisov، اور اب A11pl3Z۔ شاید کل کوئی اور اجنبی مہمان ہماری کہکشاں کا سفر کرتے کرتے ہمارے پاس سے گزر جائے۔ ہر نیا مہمان ہمارے لیے ایک آئینہ ہے، جو ہمیں ہماری اپنی محدودیت کا احساس دلاتا ہے اور ہماری جستجو کو زندہ رکھتا ہے۔

علاوہ ازیں ماہرینِ فلکیات نے مذید حیرت انگیز انکشاف کیا ہے جس نے پوری دنیا کے سائنسی حلقوں میں دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہرین کے مطابق زمین کے قریب ایک نیا فلکیاتی جسم دریافت ہوا ہے جو گزشتہ 60 برسوں سے زمین کے ساتھ ساتھ گردش کر رہا تھا، مگر اپنی معمولی جسامت اور مدھم روشنی کے باعث انسانی نگاہوں سے پوشیدہ رہا۔ اس خلائی پتھر کو 2025 PN7 کا نام دیا گیا ہے، اور ماہرین اسے زمین کا ‘‘دوسرا چاند’’ یا ‘‘شب قمر’’ (quasi-moon) قرار دے رہے ہیں۔

یہ فلکیاتی جسم سورج کے گرد تقریباً زمین کے مساوی مدار میں گھومتا ہے۔ اس کی حرکت اس قدر ہم آہنگ ہے کہ گویا یہ زمین کے ساتھ خلا میں سفر کر رہا ہو۔ اگرچہ یہ زمین کی کششِ ثقل سے براہِ راست منسلک نہیں، لیکن اس کا مدار نہایت نازک توازن میں قائم ہے، جس کے باعث یہ بظاہر زمین کی پیروی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مداری دور زمین کے بالکل برابر ہے، اور یہی ہم آہنگی اسے ایک ایسے فلکیاتی مظہر میں بدل دیتی ہے جو زمین کا دوسرا چاند محسوس ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت فلکیاتی علوم میں ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ ماڈلز کے مطابق 2025 PN7 آئندہ چھے دہائیوں تک زمین کے ساتھ اپنی موجودہ حالت میں گردش کرتا رہے گا اور ’’quasi-satellite‘‘ کی حیثیت برقرار رکھے گا۔ یہ جسم دراصل Arjuna group سے تعلق رکھتا ہے، جو Apollo asteroids کے زیرِزمرہ آتے ہیں، ایسی کائناتی چٹانیں جو زمین کے ساتھ 1:1 مداری گونج (orbital resonance) میں حرکت کرتی ہیں۔ یہ انکشاف ماہرینِ فلکیات کو زمین کے گرد اجسام کی حرکات، کششی اثرات اور مداروں کے پیچیدہ توازن کے بارے میں جدید ماڈل تیار کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

تحقیقات کے مطابق 2025 PN7 کا قطر 19 سے 30 میٹر کے درمیان ہے۔ یہی چھوٹا سائز اور مدھم چمک اس کے طویل عرصے تک پوشیدہ رہنے کی بنیادی وجہ بنے۔ سائنس دانوں کے نزدیک یہ حقیقت نہایت دل چسپ ہے کہ ایک ایسا asteroid سورج کے گرد تقریباً زمین جیسے مدار میں حرکت کر رہا ہے، جس کی موجودگی دہائیوں تک کسی کی نگاہ میں نہ آئی۔

یہ جسم پہلی مرتبہ 2 اگست 2025 کو ہوائی میں موجود Pan-STARRS1 مشاہداتی نظام کے ذریعے دریافت ہوا۔ بعد ازآں جب ماضی کے مشاہداتی ریکارڈ کا ازسرِنو مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی موجودگی 2014 کی بعض فلکیاتی تصاویر میں بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس کی قربت اور مداری پائے داری اسے مستقبل کی خلائی تحقیقات کے لیے ایک نہایت موزوں ہدف بناتی ہے۔ روبوٹک یا تحقیقی مشن اس پر بھیجے جا سکتے ہیں تاکہ اس کی ساخت، سطحی خصوصیات اور مداری رویے کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس دریافت کی ایک بڑی اہمیت ارضیاتی و معاشی نقطۂ نظر سے بھی ہے۔ فلکیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کئی asteroids میں پلاٹینم، اریڈیم، پیلاڈیم، نکل اور دیگر نایاب دھاتوں کے قابلِ ذکر ذخائر موجود ہیں وہی عناصر جو زمین پر کم یاب اور مہنگے ہیں اور جن کی کان کنی ماحول کے لیے نقصان دہ اثرات رکھتی ہے۔ اس تناظر میں 2025 PN7 جیسے اجسام نہ صرف سائنسی مطالعے کے لیے قیمتی ہیں بلکہ مستقبل میں ماحول دوست وسائل کے حصول کے متبادل ذرائع فراہم کرسکتے ہیں۔

زمین کا یہ نیا فلکیاتی ہمسفر چھوٹا سہی، مگر اپنی نوعیت کا نہایت منفرد جسم ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات کے اسرار ابھی مکمل طور پر منکشف نہیں ہوئے۔ خلا کی گہرائیوں میں اب بھی ایسے کئی پوشیدہ راز چھپے ہیں جو انسانی علم کے منتظر ہیں۔ 2025 PN7 اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں تحقیق و جستجو کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ہر نئی دریافت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ آسمان کے پردے کے پیچھے اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کبھی کبھار…
  • ضلع اٹک میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت
  • ’تم صحیح گھر پر آئی ہو‘ سوناکشی سنہا کا ساس کے ساتھ خوشگوار رشتے کا انکشاف
  • چمپینزی بھی انسانوں کی طرح سوچتے ہیں، دلچسپ انکشاف
  • روزانہ بھگوئی ہوئی کشمش کھانے سے صرف ایک ماہ میں حیران کن فوائد حاصل کریں
  • اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • شادی کی خوشیاں غم میں بدل گئیں