دماغ میں نئے خلیات کی دریافت کس طرح موٹاپا روکنے میں موثر ہو سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
واشنگٹن ڈی سی —
امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے چوہوں کے دماغ پر کی جانے والی تحقیق میں ایسے مخصوص نیوران خلیات دریافت کیے ہیں جو غذا کھانا بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ خلیے موٹاپے کے موثر علاج میں مد د گا ر ہو سکتے ہیں۔
اس سے پہلی کی گئی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ دماغ میں بہت سے ایسے "فیڈنگ سرکٹس” ہیں جو کھانے کی مقدار کی نگرانی کرتے ہیں لیکن ان سرکٹس میں موجود نیوران کھانا کھانے کو روکنے کا حتمی فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔
جریدے "سائنس ڈیلی” کے مطابق، سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کھانے کو روکنے والے ان نیوران کی دریافت موٹاپے کے لیے علاج میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
ریاست کیلی فورنیا میں مقیم "اینڈوکرینولوجی، میٹابولزم اور کلینیکل نیوٹریشن” یعنی انسانی جسم میں ہارمونز، خلیوں اور خوراک کی ماہر ڈاکٹر سنبل بیگ اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نئی ادویات میں ان نیوران کو فعال بنانا شامل ہو سکتا ہے۔
"اگر نئے دریافت کیے گئے نیوران کو تجربات کے بعد ادویات کا ہدف بنایا جاتا ہے تو ادویات زیادہ موثر ہو سکتی ہیں اور مضر اثرات بھی کم ہو سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر سنبل بیگ، اینڈوکرائنولوجی میٹابولزم اور کلینیکل نیوٹریشن کی ماہر ہیں جو ریاست کیلی فورنیا میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ریسرچ مزید کیا کہتی ہے؟
یہ نتائج کولمبیا یونیورسٹی کے "ویگیلوس کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز "کے ڈاکٹر الیگزینڈر نیکٹو اور نیکٹو لیب میں ایسوسی ایٹ ریسرچ سائنٹسٹ سری کانت چودھری کے چوہوں کے دماغ پر کی جانے والی تحقیق سے سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹرا لیگزینڈر نیکٹو نے کہا کہ نئے دریافت ہونے والے نیوران پہلے سے معلوم نیوران کے برعکس کام کرتے ہیں کیونکہ یہ خوارک کے تسکین کی حد تک کھانے کے بجائے اس سے قبل کھانے کو روکنے کا کہتے ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دماغ کے دوسرے نیوران عام طور پر ہمارے منہ میں ڈالے جانے والے کھانے، یا کھانے سے آنتوں کو بھرنے یا کھانے سے حاصل ہونے والی غذائیت کو محسوس کرنے تک محدود ہوتے ہیں۔ "ہمیں جو نیوران ملے وہ اس لحاظ سے خاص ہیں کہ وہ معلومات کے ان تمام مختلف ٹکڑوں کو(ایک جگہ) مربوط کرتے نظر آتے ہیں۔”
یہ دیکھنے کے لئے کہ نیوران کھانے کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، محققین نے ان نیوران کومصنوی طور پر ایکٹیویٹ کیا جس میں انہیں روشنی کے ساتھ آن اور آف کیا گیا۔
ڈاکٹر چودھری نے کہا، "جب روشنی سے نیوران فعال ہوئے تو چوہوں نے بہت کم کھانا کھایا۔”
اس سرگرمی کی شدت نے اس بات کا تعین کیا کہ جانوروں نے کتنی جلدی کھانا بند کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ "دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیوران صرف فوری طور پر رکنے کا اشارہ نہیں دیتے ہیں۔ وہ چوہوں کو آہستہ آہستہ اپنے کھانے کو سست کرنے میں مدد کرتے ہیں۔”
حالیہ تاریخ میں خوراک کی باآسانی اور وافر مقداد میں دستیابی، لوگوں کے رہن سہن کے سہل انداز، ورزش میں کمی، جدید دنیا میں پریشانی اور دباو کے زیر اثر اور حیاتیاتی منتقلی جیسے عوامل دنیا کے کئی خوشحال ملکوں میں مو ٹاپے کے پھیلانے میں کار فرما ہیں۔
ڈاکٹر سنبل بیگ نےاپنے مقالوں اور لیکچرز کے حوالے سے بتایا کہ موٹاپے سے انسانی جسم میں ہارمونز کا عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس سے بھوک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر سمبل بیگ نے کہا، موٹاپے سے لوگوں کو مہلک امراض کا سامنا ہوتا ہے جن میں "دل کا مرض اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ، خون میں کلاٹ بننا، بلڈ پریشر، کولیسٹرول کا بڑھنا ،جگر کا پھیلنا، سانس میں دشواری کمرکا درد، گیس کا جمع ہونا، سوجن، ٹائپ ٹو زیابیطس” بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ریسرچ اس لیے بھی اہم ہے کہ دماغ کا کھانے اور بھوک سے بہت زیادہ تعلق ہے۔
"دماغ کا ریوارڈ سنٹر میٹھی اور چربی والی چیزوں سے بہت متحرک ہو جاتا ہے جس سے زیادہ کھانے کی عادت، اور ہر وقت کھانے کی طلب بڑھ جاتی ہے اور موٹاپے کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔”
ڈاکٹر سنبل کے مطابق کیونکہ دماغ کا بھوک اور کھانے سے بہت زیادہ تعلق ہے اس ضمن میں یہ نئی تحقیق بہت اہم دکھائی دیتی ہے اور اگر تجربات اور نتائج کے بعد ان نیوران کو استعمال کیا جاتا ہے تو یہ موٹاپے کے علاج کی جانب بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
ریاست ورجنینا کی ہیمٹن میڈیکل سنٹر سے منسلک غذائی ماہر بریانا فروچی کہتی ہیں کہ تجربات کے بعد نیوران کے استعمال سے اگر خوراک کو ایک حد پر روکنے جیسا کام ہو جا ئے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
فروچی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے تجربے کے مطابق موٹا پے کی جینز کے ذریعہ موروثی منتقلی، لوگوں کا چکنائی والی اشیا اور توانائی سے بھر پور چیزوں کو زیادہ مقدار میں کھانا ایسے عوامل ہیں جو لوگوں کو جسمانی اور پھر طبی مسائل میں مبتلا کرتے ہیں۔
بریانا فروچی، جو ورجینیا کے ہیمپٹن میڈیکل سینٹر میں غذائی ماہر
"کچھ لوگ اپنی تسکین کے لیے جی بھر کے کھانا کھاتے ہیں جو کہ اکثر جینیاتی رجحان ہے، جبکہ کچھ لوگ زندہ رہنے کی خاطر کھاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ بہت زیادہ چکنائی اور انرجی سے بھرپور اشیا کھاتے ہیں انہیں اپنے آپ کوروکنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسی کوئی چیز دریافت ہوجائے کہ جو ان کو دماغوں کو کھانا روکنے کا پیغام دے تو یہ ایک زبردست بات ہوگی۔”
دوسری طرف فروچی کہتی ہیں کہ بعض لوگ زندگی میں کسی قسم کے تناؤ یا دباؤ کی کیفیت میں زیادہ خوراک کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ "ان کے لیے بھی یہ نیوران بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔”
جہاں تک ان نیوران خلیوں کو متحرک کرنے کا تعلق ہے وہ کہتی ہیں کہ یہ کسی ایسی دوا کے ذریعہ بھی ممکن ہو سکتا ہے جس کے مضر اثرات نہ ہوں۔
دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے کا شکار ہیں"ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن” کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں 1990 سے لے کر اب تک بالغ افراد میں موٹاپے کی شرح دوگنا بڑھ گئی ہے اور ہر آٹھویں فرد کو موٹاپا لاحق ہے۔
ادارے کی تحقیق کے مطابق بچوں اور نوعمر افراد، یعنی 5 سے 19 سال کی عمر کے درمیان افراد میں موٹاپا چار گنا بڑھ گیا ہے۔ اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ 2022 میں 43 فیصد بالغوں کا وزن طبی اور صحت کے معیار سے زیادہ تھا۔
اس صورت حال میں ڈاکٹر اور غذائی ماہرین لوگوں کا کئی طریقوں سے علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات ادویات کے منفی اثرات بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کولمبیا یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیق درست ثابت ہوجائے اور کسی صورت میں ان نیوران خلیوں کو ایکٹیویٹ کیا جاسکے تو یہ موٹاپے کے علاج کی جانب ایک سنگ میل ہو سکتا ہے
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ڈاکٹر سنبل ہو سکتا ہے ان نیوران نیوران کو کے مطابق کھانے کو بتایا کہ سے زیادہ کرتے ہیں ہو سکتی جاتا ہے ثابت ہو ہیں جو ہے اور
پڑھیں:
’لوگوں نے کہا بھینس کی طرح لگتی ہو‘، سابق مس انڈیا فائنلسٹ نے وزن میں حیران کن کمی کیسے کی؟
ہانگ کانگ میں مقیم اسٹینڈ اپ کامیڈین مائتری کرنتھ، جو کہ سابق مس انڈیا فائنلسٹ بھی ہیں، نے صرف ایک سال میں اپنے وزن میں حیران کن کمی کے ذریعے کئی لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
اسٹینڈ اپ کامیڈین نے اپنے وزن میں کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سفر دو دہائیاں پہلے شروع ہوا۔ اس وقت وہ ایک دوست کے ساتھ اسکواش کھیل رہی تھیں کہ اچانک شاٹ لینے کے لیے دوڑتے ہوئے دیوار سے ٹکرا گئیں، جس سے ان کے سینے کے پٹھوں میں گہرا چوٹ آئی اور شدید خون بہا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ چوٹ ٹھیک ہونے میں مہینے لگے اور اس سے ان کی جسمانی حرکت پر بہت اثر ڈالا جو کہ پہلے بہت متحرک تھیں، انہوں نے سکون کے لیے کھانے کی طرف رجوع کیا اور اس کے نتیجے میں 25 کلو وزن بڑھ گیا۔
View this post on Instagram
A post shared by Maitreyi Karanth (@maitreyi_karanth)
مائتری کے مطابق ’میں پھر بھی خوبصورت محسوس کرتی تھی اور سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرتی رہی بغیر یہ محسوس کیے کہ مجھے اپنے جسم کا کوئی حصہ چھپانا ہے‘۔ 52 سالہ مائتری نے کہا لیکن جب میں دوبارہ اسکواش اور ہائیکنگ جیسے سرگرمیاں کرنے لگی تو وزن کی زیادتی کے اثرات محسوس کیے اور مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی بھاری ہو گئی ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران مجھے تکلیف دہ تبصرے سننے پڑے کسی نے کہا کہ ’اگر میں تمہاری جگہ ہوتی، تو میں باہر بھی نہیں جاتی‘، کسی نے کہا۔ ’ایک دوست نے میرا کھانا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ جان سکے میں ایسی کیوں نظر آتی ہوں‘۔ اور کسی نے کہا کہ ’میں بھینس کی طرح لگتی ہوں ہے‘۔
مائتری نے اپنے وزن میں کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’میں نے وقفے وقفے سے روزہ رکھنے کے بارے میں سنا تھا، اور میں نے دن میں صرف ایک بار کھانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں میرا کھانا خاص طور پر صحت مند نہیں تھا، لیکن جیسے جیسے وزن کم ہوتا گیا، مجھے صحت مند کھانے کی خواہش بڑھنے لگی۔ ایک معمول کا کھانا تھوڑا سا چاول، کچھ پروٹین جیسے اُبلے ہوئے انڈے، بہت ساری سبزیاں، کچھ پھل اور ایک چھوٹا سا مٹھائی کا ٹکرا ہوتا تھا جسے میں کھاتی تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائٹنگ کے بغیر جسمانی وزن میں کمی لانے والے آسان ترین طریقے
اسٹینڈ اپ کامیڈین کے مطابق جب انہوں نے اپنے کھانے کے معمول میں تبدیلیاں کیں اور وزن کم کرنے لگیں، تو اپنی پسندیدہ جسمانی سرگرمیاں بھی دوبارہ شروع کیں۔ انہوں نے بتایہا کہ دن میں ایک بار کھانے کے پلان پرعمل کرتے ہوئے اور شراب کو مکمل ترک کر کے انہوں نے ایک سال میں 30 کلو وزن کم کیا، اور اپنا وزن 62 کلوگرام کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ چیلنجز بھی آئے ’میں نے ہفتے کے آخر میں شراب دوبارہ استعمال کرنے میں اعتدال برقرار رکھنے میں مشکلات محسوس کیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا کھانے کے ساتھ اچھا تعلق نہیں ہے۔ میں کھانے سے ڈرتی تھی، اور جب کھاتی تھی، تو اپنی حدوں کو نہیں جانتی تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: وزن میں کمی کی دوائیں کیسے کام کرتی ہیں؟
انہوں نے مزید کہا، ’اس دوران میں نے 7 کلو وزن بڑھایا، لیکن پھر میں دوبارہ دن میں ایک بار کھانے پر لوٹی اور دو مہینوں میں اضافی وزن کم کر لیا۔ تب سے، میں نے کھانے کے ساتھ صحت مند تعلق بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب میں دن میں دو بار کھاتی ہوں اور اپنے آپ کو ہر چیز کی تھوڑی تھوڑی مقدار کھانے دیتی ہوں‘۔
مائتری نے بتایا کہ دن میں صرف ایک بار کھانے، جسے OMAD بھی کہا جاتا ہے، کچھ افراد کے لیے شارٹ ٹرم وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے کیلوریز کی بڑی کمی ہوتی ہے۔ تاہم، 50 سال سے زائد خواتین کے لیے یہ زیادہ معاون طریقہ نہیں ہے۔ اس عمر میں ہارمونل تبدیلیاں، ہڈیوں کی کثافت اور پٹھوں کی مقدار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ صرف ایک بار کھانے پر انحصار کرنے سے ضروری غذائی اجزاء جیسے پروٹین، کیلشیم، اور فائبر کی کمی ہو سکتی ہے، جو خاص طور پر مینوپاز کے دوران اور بعد میں بہت اہم ہیں اس لیے غذائیت سے بھرپور کھانے کا ایک متوازن طریقہ طویل مدتی طور پر زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وزن میں حیران کن کمی وزن میں کمی وزن میں کمی کیسے کی جائے