Nai Baat:
2025-07-26@14:42:45 GMT

انسانی سمگلنگ پر سخت اقداما ت کون کرے گا ؟؟؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

انسانی سمگلنگ پر سخت اقداما ت کون کرے گا ؟؟؟

پاکستان کے مخدوش معاشی حالات ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نوجوان کی ایک کھیپ ایک عرصے سے یورپ اور دیگر ممالک میں ڈیرہ ڈالنے کی خواہش مند ہے ، وہ غیر قانونی سے طریقوں سے وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور معمولی ملازمتیںاور روزگار بھی غیر قانونی طریقوں سے ہی حاصل کرتے ہیں، حالیہ عرصے میں روزانہ ہی خبر آتی ہے غیر قانونی کاروبار کرنے والے پاکستان میں معصوم لوگوں سے جنہیں کے پاس کوئی تعلیم بھی نہیں ہے انہیں بڑی رقم کے عوض یورپی ممالک میںبہتر مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر کشتوں پر روانہ کردیتے ہیں، یہ صورتحال گو کہ صرف پاکستا ن میں نہیں دیگر ممالک جہاں ملازمتیں مشکل ہوگئی ہیں وہاںکے نوجوان بھی سہانے خوابوں کی تعبیر کیلئے کوشاں ہیں ، انہیںبیرونی ملک کا جھانسہ دینے والے کا ایک مافیا ہے جنکی شاخیں ملک میں اور بیرون ملک ہیں پاکستان میں انسانی سمگلنگ ایک اہم مسئلہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے ممالک میں، سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے جسکی وجہ سے وہ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں، اور بیچ سمندر میں کشتی یا تو ڈوب جاتی ہے یا ڈبودی جاتی ہے ۔ معاشی مواقع کے لیے مایوسی اکثر افراد کو سمگلروں کا شکار کرنے کا باعث بنتی ہے جو بیرون ملک یا شہری مراکز میں بہتر ملازمتوں یا ذریعہ معاش کا وعدہ کرتے ہیں۔پاکستان میں خلیجی ممالک میںبھی نوکری کا جھانسہ دینے والے نہ صرف نوجوانوں بلکہ خواتین کو بھی آجروںکے ہاتھوں غیر واضح اور بد نیتی کے معاہدوں کے ذریعے روانہ کردیتے ہیں سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں اکثر یہ شکایات سامنے آتی ہیں نوجوان خواتین کو بیرون ملک ٹیچر کے معاہدوں پر بھیج کر انہیںباہر لیجا کر گھر کی صفائی ستھرائی اور ’’خدامہ ‘‘ بنا لیا جاتاہے وہ گھر سے باہر نکل نہیںسکتیں کہ وہ اپنے سفارت خانوںقونصل خانوںمیں جاکر شکایت کرسکیں ، شکایت کر بھی دیں سفارت خانوں، قونصل خانوںکا عملہ بھی ’’ماشاء اللہ ‘‘ ہے وہاں انکی شنوائی نہیں ہوتی اگر ہو بھی جائے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے اسطرح کے معاملات کو حل کرنے میں زندہ انسانوں کی سمگلنگ کے علاوہ ایک مافیا پاکستان میں انسانی اعضاء فروخت کرنے کا بھی کاروبار کرتا ہے ، غربت میں اپنے بچوں کو مزدوری یا جبری شادیوں کے لیے بھی بھیجتے ہیںاور سمگلنگ میں حصہ ڈالتے ہیں۔ان سب معاملات کی وجوہات میں حکومتی نااہلی کے ساتھ ساتھ خواندگی کی کم شرح، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، لوگوں کو ان کے حقوق اور سمگلنگ کے خطرات سے کم آگاہی ہے۔ سمگلر آگاہی کی اس کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متاثرین کو روزگار، تعلیم یا شادی کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس انسانی سمگلنگ سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اکثر وسائل، تربیت اور صلاحیت کی کمی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی سمگلروں کو معافی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ملک میںموجود مافیا بیرون ملک نوکریوںکا جھانسہ دیکر نوجوان خواتین کو بیرون ملک بھیج کر ان سے جسم فروشی جیسے مکروہ کام پر مجبور کرتے ہیں بیرون ملک زراعت، تعمیرات اور گھریلو کام جیسی صنعتوں میں سستی مزدوری کی بہت زیادہ مانگ ہے جو سمگلنگ کو ہوا دیتی ہے۔بچوں کو اکثر اینٹوں کے بھٹوں، قالین کی بُنائی اور دیگر شعبوں میں مزدوری کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔اگرچہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں، جیسے کہ افراد کی سمگلنگ کی روک تھام ایکٹ، 2018، جس پر عمل درآمد کمزور ہے۔ہمارے کرتا دھرتائوں کی کرسی کی لالچ اور لڑائی میں ان سنگین معاملات پر کوئی توجہ ہی نہیںمتاثرین اکثر انصاف تک رسائی سے محروم رہتے ہیں، اور سمگلروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی بہت کم ہوتی ہے۔پاکستان انسانی سمگلنگ کے ایک وسیع علاقائی نیٹ ورک کا حصہ ہے، جس کے متاثرین کو مشرق وسطیٰ، یورپ اور ایشیا کے دیگر حصوں میں سمگل کیا جاتا ہے۔پاکستان اور امیر ممالک کے درمیان معاشی تفاوت غیر قانونی نقل مکانی کے لیے ترغیبات پیدا کرتا ہے، جس کا سمگلر فائدہ اٹھاتے ہیں۔انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے قوانین موجود ہیں FIAپر اسکی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر بد قسمتی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسکے کارندے بھی اس میںملوث ہوتے ہیں، وزارت داخلہ جب FIA پر سختی کرتی ہے تو بجائے اسکے وہ اپنی ذمہ داری میں اضافہ کریں وہ خوامخواہ ان قانونی طور پر ملک سے جانے والوںکی شک کی بنیاد بناکر انہیں ہوائی اڈوںپر روکتی ہے تاکہ وزارت داخلہ پر عوام کا دبائو بڑھے اور سمگلنگ کے الزامات سے وہ بری الزمہ ہوجائیںتاہم، سمگلنگ کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے، قانون کے نفاذ کو مضبوط بنانے اور کمزور آبادیوں کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی ایجنسیوں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں پر مشتمل ایک مربوط کوشش کی ضرورت ہے۔انسانی سمگلنگ کے دوران ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار کا حصول جرم کی خفیہ نوعیت، کم رپورٹنگ اور ٹریکنگ کے جامع طریقہ کار کی کمی کی وجہ سے مشکل ہے۔ تاہم، گزشتہ برسوں میں ایسے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتے ہیں، بشمول ٹرانزٹ کے دوران، حراست میں، یا استحصال کی وجہ سے ہونے والی اموات۔بحری راستوںسے غیر قانونی انسانی سمگلنگ کی وجہ سے خطرناک راستوں (جیسے ایران، ترکی اور بحیرہ روم کے راستے) سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے بہت سے پاکستانی سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) کے مطابق حالیہ برسوں میں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ہزاروں تارکین وطن بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔جون 2023 میں، ایک ماہی گیری کی کشتی جس میں 700 سے زائد تارکین وطن تھے، جن میں بہت سے پاکستانی بھی شامل تھے، یونان کے ساحل پر الٹ گئی۔ یہ حالیہ برسوں میں انسانی سمگلنگ کے سب سے مہلک واقعات میں سے ایک تھا۔اطلاعات کے مطابق جہاز میں 300 سے زیادہ پاکستانی سوار تھے، کاش ہمارے ارباب اقتدار اس مکروہ ترین جرم کے حوالے سے فوری توجہ دیں ۔ جس سے ہماری جگ ہنسائی بھی نہ ہو اور نوجوان کی محفوظ رہ سکیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انسانی سمگلنگ کے پاکستان میں کرنے والے بیرون ملک سمگلنگ کی ممالک میں کی وجہ سے کرتے ہیں کے دوران کے لیے

پڑھیں:

غزہ کے جلاد کا آخری اسلحہ

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔ تحریر: رسول قبادی
 
غزہ کی پٹی، جو طویل محاصرے کا شکار چھوٹا سا علاقہ ہے اس وقت اکیسویں صدی کے سب سے بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے ایک طرف تو اسے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف ہر قسم کی انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہے۔ یوں صیہونی فوج 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف اس گھناونے مجرمانہ اقدام پر، جو واضح طور پر نسل کشی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا مصداق ہے، بعض عرب اور اسلامی ممالک نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ اس سے بھی بالاتر یہ کہ کچھ عرب ممالک تو حتی اسرائیل سے دوستی اور تعاون بڑھانے میں مصروف ہیں۔
 
بھوک کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال
اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔
 
امداد رسانی کے بہانے عام شہریوں کا قتل عام
غزہ میں جاری ایک انتہائی مجرمانہ اقدام فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کے بہانے بلا کر گولیوں کا نشانہ بنانا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صیہونی ٹھیکے دار جنہوں نے غزہ میں امداد تقسیم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، بھوکے فلسطینی شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدامات انتہائی مشکوک اور مرموز ہیں جن میں اب تک 700 کے قریب عام فلسطینی شہری شہید اور ہزاورں زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں کم از کم 18 فلسطینی بھوک کی وجہ سے شہید ہو گئے ہیں جبکہ غذا کی تلاش کرنے والے 70 فلسطینی صیہونی فوج کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ حملے جو "آزادانہ قتل عام" کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں، جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا مصداق ہیں۔
 
غزہ میں نازک انسانی صورتحال
غزہ اس وقت بھرپور انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی کل آبادی کا 90 فیصد حصہ جلاوطنی پر مجبور ہو چکا ہے اور 18 لاکھ سے زیادہ فلسطینی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں عارضی کیمپس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پانی کی قلت، وبائی امراض جیسے ہیپاٹائٹ پھیل جانا، میڈیکل سہولیات کا تقریباً نہ ہونا اور دیگر مسائل نے فلسطینیوں کی زندگی دوبھر کر دی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2025ء سے اب تک کم از کم 57 بچے بھوک کے باعث شہید ہو چکے ہیں اور موت کے خطرے سے روبرو فلسطینی بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ کے اسپتال اور طبی مراکز صیہونی بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور بھوک کے مارے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی تصاویر دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
 
عرب اور اسلامی ممالک کی کوتاہی
اس انسانی المیے پر عرب اور اسلامی ممالک کی خاموشی درحقیقت فلسطین کاز اور انسانی اقدار سے غداری کے مترادف ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اپنے مجرمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک نے توقع کے برخلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اسرائیل کے خلاف سفارتی، اقتصادی اور سیاسی دباو ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی عرب ریاستوں نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات پہلے کی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں سیاسی اور اقتصادی مفادات کی اہمیت بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کی جان سے زیادہ اہم ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی حکمرانوں پر نسل کشی کے الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور یہ اسلامی ممالک اس کی بنیاد پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر سکتے تھے۔
 
عمل کا وقت ہے
غزہ میں اسرائیلی جرائم خاص طور پر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، بین الاقوامی قوانین، جنیوا کنونشن اور ابتدائی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ انسانی المیہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ممالک کی جانب سے فوری اور موثر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اسلامی ذرائع ابلاغ ان حکمرانوں کا چہرہ عیاں کریں جو فلسطین کاز سے غداری میں مصروف ہیں اور عوام کو فلسطینیوں کی حمایت کی ترغیب دلائیں۔ عالمی سطح پر فلسطین میں اسرائیلی ظلم و ستم سے آگاھی بڑھتی جا رہی ہے اور انسانی معاشرے بیدار ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت تقریباً 27 مغربی ممالک نے مشترکہ بیانیے میں صیہونی رژیم پر عام شہریوں کے وحشت ناک قتل عام اور جان بوجھ کر انسانی امداد روکنے کا الزام عائد کیا ہے اور فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف کچھ اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جو زور شور سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • تفتان: انسانی اسمگلنگ اور سرحد پار کرنے کی کوششوں کے خلاف کارروائی، 4 ملزمان گرفتار
  • پاکستان کسٹمز کی کارروائیاں: 10برسوں میں 303 کلوگرام سمگلڈ سونا ضبط
  • ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دھمکیوں کی مذمت
  • غزہ میں تشدد اور انسانی بحران شدت اختیار کرگیا، مزید 80 فلسطینی شہید
  • غزہ کے جلاد کا آخری ہتھیار
  • غزہ کے جلاد کا آخری اسلحہ
  • کینیڈا کا فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • احتساب کے بغیر مختلف ممالک کے علاقوں پر قبضے جاری ہیں، انسانی بحران ہر گزرتے لمحے بڑھ رہا ہے :اسحاق ڈار
  • نسل کشی کا جنون