سولر پینلز کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
سولر پینلز کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے، سولر پینلز چین سے منگوائے گئے مگر رقم متحدہ عرب امارات، سنگاپور، سوئٹزر لینڈ، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، جنوبی کوریا، سری لنکا اور برطانیہ بھی بھیجی گئی۔
سینیٹر محسن عزیر کی زیر صدارت ہونے والے سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سولر پینلزکی آڑ میں ہونے والی اربوں روپےکی منی لانڈرنگ کےمعاملے کا جائزہ لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض کے دبئی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئےگی، نیب کا انتباہ
اجلاس میں ایف بی آر نے بتایا کہ ،2017 سے 2022 کے دوران سولر پینلز کی آڑ میں 69.
ایف بی آر حکام نے کمیٹی ارکان کو بریفنگ میں بتایا کہ سولر پینلز کی آڑمیں مجموعی طور پر 117 ارب روپے بیرون ملک بھجوائے گئے، سولر پینلز چین سے درآمد ہوئے لیکن رقم 10 دیگر ممالک میں بھیجی گئی۔
ایف بی آر کے مطابق متحدہ عرب امارات، سنگاپور، سوئٹزر لینڈ، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، جنوبی کوریا، سری لنکا اور برطانیہ میں سولر پینلز کی آڑ میں پیسہ منتقل ہونے کا انکشاف ہوا ہے،چین کے بجائے دیگر ممالک کو رقوم بھیجنا غیر قانونی عمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر پینلز مہنگے: 5 سے 12 کلوواٹ کے سولر سسٹم کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا؟
حکام ایف بی آر کے مطابق سولر پینلز کی خریداری میں اوورانوائسنگ کی تحقیقات میں 63 امپورٹر کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا جبکہ 13 ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں، اوور انوائسنگ کا بنیادی مقصد منی لانڈرنگ تھا،ایک کمپنی نے 47 ارب کے سولر پینلز امپورٹ کرکے 42 ارب میں بیچ دیے۔
حکام ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ سولرپینلز کی درآمد ڈیوٹی فری تھی،برائٹ اسٹار کمپنی نے 42 ارب باہر بھجوائے،دیگر ممالک میں 18 ارب روپے سے زائد رقم بھیجی گئی۔
’کوئی دو رائے نہیں منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے‘دوران اجلاس کنوینئر ذیلی کمیٹی محسن عزیز نے کہا اس میں کوئی دو رائے نہیں منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے، انہوں نے سوالات اٹھائے کہ 20 لاکھ روپے پیڈ اپ کیپٹل کی کمپنی نے 50 ارب روپے کا کاروبار کیسے کیا؟ دوسری کمپنی کا ایک کروڑ پیڈ اپ کیپٹل تھا، بزنس 40 ارب کا کیا گیا،ب ینکوں نے اکاؤنٹ کیسے کھولے؟ کیا جانچ پڑتال کی گئی تھی یا نہیں؟
یہ بھی پڑھیں: سولر پینل کے نام پر پاکستان سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیسے ہوئی؟
محسن عزیز نے کہا کہ کنوینئر ذیلی کمیٹی محسن عزیز نے کہا اس سارے معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ مرتب کی جائے گی،اسٹیٹ بینک نے ابھی تک رپورٹ نہیں دی۔
اجلاس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ بینکوں کو 20 کروڑ روپے سے زیادہ جرمانہ کیا گیا ہے، بینکوں کو درآمدی مال کی کوالٹی اور قیمت کا علم نہیں ہوتا، ایف بی آر ہی درآمدی مال کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آسٹریلیا اسٹیٹ بینک امریکا ایف بی آر پاکستان جرمنی چین سنگاپور سوئٹزرلینڈ سولر پینل منی لانڈرنگ یو اے ایذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا سٹریلیا اسٹیٹ بینک امریکا ایف بی ا ر پاکستان چین سنگاپور سوئٹزرلینڈ سولر پینل منی لانڈرنگ یو اے ای سولر پینلز کی منی لانڈرنگ دیگر ممالک اربوں روپے ایف بی ا ر کا انکشاف کی منی
پڑھیں:
شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔