کراچی:این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے انجینئرز نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے ایک انقلابی ایپلی کیشن تیار کی ہے جو اردو کی تحریروں کو ڈیجیٹل آواز میں تبدیل کر سکتی ہے۔

یہ ایپلی کیشن نہ صرف اردو کتب کو آڈیو بُکس (صوتی کتاب) میں بدل دے گی بلکہ دنیا بھر کی ویب سائٹس کو بھی اردو زبان میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس ایپ کے ذریعے اردو کی پرنٹ شدہ تحریروں کو پہلے ایڈیٹ ایبل ٹیکسٹ میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر اس ٹیکسٹ کو آواز میں بدل دیا جائے گا۔ اس طرح اردو کتابیں ڈیجیٹل شکل میں آڈیو بکس میں دستیاب ہو سکیں گی۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق این ای ڈی یونیورسٹی کی انجینئرنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر ماجدہ کاظمی نے بتایا کہ اس ایپلی کیشن کا بیٹا ورژن 3ماہ کے اندر متعارف کرایا جائے گا۔

ایپلی کیشن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ 8 سے 40 نمبر کے فونٹ سائز اور 135 مختلف اسکرپٹ اسٹائلز کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایپلیکیشن دنیا بھر کی ویب سائٹس کو اردو میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے، جس سے صارفین کسی بھی ویب سائٹ کو اردو زبان میں پڑھ سکیں گے۔

پروفیسر ماجدہ کاظمی کے مطابق اس منصوبے کا مقصد اردو زبان کو ڈیجیٹل دنیا میں متعارف کرانا تھا کیونکہ اردو دنیا کی دسویں بڑی زبان ہونے کے باوجود ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے میں انجمن ترقی اردو کا بھی تعاون شامل رہا ہے۔

ایپلیکیشن میں استعمال ہونے والے اے آئی ٹولز کی مدد سے اردو کے کسی بھی پرنٹ شدہ متن کو مشین ریڈ ایبل شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس متن کو آواز میں بدلا جا سکتا ہے، جس میں اردو کے رائج تلفظ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ پروفیسر ماجدہ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا تجربہ پرانے اخبارات پر بھی کیا گیا ہے اور نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔

یہ ایپلیکیشن نہ صرف اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی بلکہ نابینا افراد کے لیے بھی ایک بڑی سہولت ثابت ہو گی جو اب اردو کتابوں کو آسانی سے سن سکیں گے۔ اس کے علاوہ، یہ ٹیکنالوجی اردو زبان کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے انجینئرز کی یہ کامیابی مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک اہم پیشرفت ہے، جس سے اردو زبان کو ڈیجیٹل دور میں نئی زندگی ملے گی۔ اس ایپلیکیشن کے آنے والے ورژنز میں مزید بہتری اور نئی خصوصیات شامل کی جائیں گی تاکہ اردو زبان کو ڈیجیٹل دنیا میں مزید فروغ دیا جا سکے۔

یہ منصوبہ اردو زبان کے مستقبل کے لیے ایک امید افزا پیشرفت ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردو بولنے والوں کے لیے ایک بڑی سہولت ثابت ہو گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اردو زبان کو ایپلی کیشن کو ڈیجیٹل آواز میں

پڑھیں:

محمدرفیع کے 100سال: سدابہار گلوکار

نجی محفلوں، قہوہ خانوں، اور بیٹھکوں میں تختہ بجا کر گانے والے شرمیلے انسان کیسے فلمی سنگیت کے بےتاج بادشاہ بنے۔ استاد وحید خان اور بڑے غلام علی خان سے موسیقی کی تعلیم لے کر سنگیت پر راج کرنے والے رفیع کے گائے ہوئےگیت دلیپ کمار سے لے کر گوندا پر فلمائے گئے۔

اس کے علاوہ شیام سندر سے لےکراوشاکھنا اور بپی لہری تک 40 موسیقاروں کے ساتھ سنگیت کا سفر طے کیا۔

80 سے زائد گلوکاروں کے ساتھ 2 گانے ریکارڈ کروائے۔ 2 زبانوں اردو، ہندی، پنجابی، بنگالی، میراٹھی، بھوجپوری، پوربی، گجراتی، کانڈا، آسامی، تیلگو،

 راجھستانی، سندھی، فارسی، عربی،کیرالی، کشمیری پہاڑی، انگریزی میں نیم کلاسیکل سے لے کر موسیقی کی تمام اصناف میں جادو جگانے والے نے گیت، دیش پیار کے گیت، لوک  گیت، منقبت، قصے، غزل، حمد، نعت، قوالی اور بجھن میں اپنی کرشماتی آوازکے ذریعے سُروں کے جادو جگائے۔

جاوید اختر نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ قصہ کچھ یوں بیان کیا ہے کہ رفیع کے گاؤں میں روز ایک فقیر کہیں سے گاتا ہوا آتا تھا اور کہیں چلا جاتا تھا، لیکن روز ایک نیا پنجابی گیت گاتا ہوا گزرتا تھا اور لوگوں سے بازار میں پیسہ لے کر آگے نکل جاتا، اس گاؤں میں ایک بچہ بھی تھا، وہ بھی اپنی دھن میں مگن رہتا تھا۔ آٹھ نو برس کا بچہ روز اس فقیرکے پیچھے پیچھے جاتا تھا، اس کا گیت سنتا ہوا اور جب فقیر گاؤں کی حد سے باہر نکل جاتا تھا، تو بچہ واپس بازار میں آتا تھا، اور اپنے باپ کی دکان کے سامنے بیٹھ کے وہی گیت بالکل اسی دھڑلے سے سنا دیتا تھا، اور اب یہ اس کا طریقہ ہو گیا تھا کہ بازار کے لوگ بھی اسے دیکھتے تھے کہ وہ واپس آرہا ہے، اور اب آ کے ہمیں کوئی گیت سنائے گا کہتے ہیں کہ ’پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھائی دیتے ہیں‘۔

رفیع کے بڑے بھائی دین محمد کے دوست حمید کو رفیع کا میجر ٹیلنٹ نظر آ گیا تھا پھر وہ فیصلہ کرتا ہے اور اپنے بڑے بھائی دین محمد کے ذریعے والد سے اجازت لیتے ہوئے لاہور سے رخصت ہونے کے بعد ہندوستان کی فلم نگری میں پہنچ جاتا ہے، اور پاکستان بننے کے بعد وہ ہندوستان میں ہی اپنے کیریئر کو لے کر قسمت آزمائی کا فیصلہ کرتا ہے۔

ان کی فنی زندگی کے سفر پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، مگر یہاں کچھ اہم واقعات اور تفصیل کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

رفیع کی پیدائش کے مقام پرسب لوگ متفق ہیں کہ وہ دسمبر 1924میں امرتسر کے قریب ایک گاؤں کوٹلہ سلطان میں پیدا ہوئے ہیں، لیکن ان کا بچپن لاہور میں گزرا ان کو اپنےآبائی کام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس کا پڑھنے میں بھی جی نہیں لگتا تھا۔

رفیع کو گانے کےعلاوہ کسی اور کام میں دلچسپی نہیں تھی، گھر والوں کی مخالفت کے باوجود تمام رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، انہوں نے موسیقی سیکھنےکا آغاز شروع کر دیا، اس زمانے میں علی بخش ظہور بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے، اور یہ دونوں اندرون شہر کے ان جگہوں پر باقاعدگی سے جاتے تھے، جہاں استاد بڑے غلام علی خان، استاد برکت علی خان جیسے نابغہ ٔروزگار فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔

دین محمد کی کوشش سے رفیع نے ریڈیو لاہور اور یہاں کی چھوٹی سی فلمی صنعت کا رخ کیا۔

طاہر سرور میر نے اپنے مضمون میں رفیع صاحب کے بچپن کا واقعہ بیان کیا ہے، جہاں سے ان کا حوصلہ سنگیت کے میدان میں اور مضبوط ہوگیا۔ لاہور میں پنڈال سجا ہوا تھا اور موسیقی کے بڑے بڑے گوئیے وہاں پرفارم کرنے والے تھے جن میں استاد بڑے غلام علی خان نے بھی پرفارم کرنا تھا مگر ان کے آنے میں ابھی وقت تھا، جب تک کہ وہ آتے لوگوں کا انتظار اور بے چینی بڑھ رہی تھی۔ ایسے میں ایک بچہ سٹیج پر لایا جاتا ہے اور وہ گیت گانا شروع کرتا ہے۔

سننے والوں میں ایک مسحور کن احساس رونما ہونے لگتا ہے اور وہ اس بچے کو غور سے سننا شروع کر دیتے ہیں، اتنے میں استاد بڑے غلام علی خان کی بھی آمد ہو جاتی ہے، اور وہ بھی اس بچے کوسننا شروع کر دیتے ہیں، اس کی گلوکاری کو سراہتے ہوئے اس بچے سے دوبارہ وہی گیت سننے کی فرمائش کرتے ہیں جی ہاں یہ ہیں محمد رفیع جہاں  سے ان کےسفر کا آغاز شروع ہوتا ہے۔

پہلا گانا: 

محمد رفیع نے اپنے کیریئر کا پہلا گانا نغمہ نگار میاں شفیع عاشق اور موسیقار شیام سندر کی ترتیب دی ہوئی دھن میں

’سوہناں اوہیریا اوے تیری یاد نے آن ستایا‘1944’ میں پنجابی فلم‘گل بلوچ‘ کے لیے زینت بیگم کے ساتھ گایا۔

بمبئی آمد: 

1945میں رفیع لاہور سے بمبئی (ممبئی) منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا، اور وہاں کے بڑے موسیقاروں  کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ نوشاد کے ساتھ پہلا گانا نوشاد کاردار کی فلم ’پہلےآ پ‘ کی موسیقی دے رہے تھے وہ اس وقت ایک کورس کی ریکارڈنگ میں مشغول تھے جس میں گلوکارجی ایم درانی، شیام کمار اور علاؤ الدین وغیرہ شامل تھے، اس کورس میں نوشاد نے رفیع کو بھی شامل کر لیا۔

فلم شاہجہاں میں انہوں نے سہگل کے ساتھ اس گیت کی آخری لائن گائی تھی’میرے سپنوں کی رانی روحی روحی‘۔ انہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ایسا دوگانا گایا تھا جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے یہ دوگانا اصغر سرحدی نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے بنائی تھی،’ یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘ فلم جگنو میں دلیپ کمار، نور جہاں پر فلمائے گیے اس گیت سے رفیع اور دلیپ کمار دونوں فنکار شہرت کی بلندیوں کی طرف بڑھنے لگے۔

’بیجو باورا‘ 1952 میں ریلیز ہونے والی فلم ان کے کیریئر کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے گانے ’من تڑپت ہری درشن کو آج‘ اور ’او دنیا کے رکھوالے‘نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

پہلا فلم فیئرایوارڈ:

رفیع کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ 1960 میں فلم ’چودھويں کا چاند‘ کے ٹائٹل گانے ’چودھوی کا چاند ہو‘ کے لئے ملا۔ یہ ان کے کیریئر کا ایک اہم لمحہ تھا اور اس کے بعد انہوں نےکئی اور ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

شنکر جےکشن کے ساتھ کام: رفیع نےشنکرجے کشن کےساتھ کئی ہٹ گانےگائے جن میں’یاد نہ جائے‘، دل ایک مندر ہے، دل کے جهرو کے میں اور کئی مقبول گیت شامل ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر کام مکیش سے لیا، مگر جہاں ان کو رفیع کی آواز کی ضرورت پڑی، انہوں نے بلاجھجھک اس آواز کو استعمال کیا۔
قومی اعزازات:

محمد رفیع کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی قومی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں پدم شری ایوارڈ (1967) بھی شامل ہے۔

اہم گانےاورفلمیں:

رفیع نے مختلف فلموں میں اپنی آواز کا جادو بکھیرا، جن میں’مغل اعظم‘، ’بیجو باورا‘، ’کاجل‘، ’کوہ نور‘، اور’برسات کی رات‘ شامل ہیں۔

ان کے مشہور گانوں میں’یہ دنیا یہ محفل‘، ’چاہوں گا میں تجھے‘، ’او دنیا کے رکھوالے‘، ’بہارو پھول برساؤ‘، ’میرے محبوب تجھے‘ شامل ہیں۔

اسی طرح ان کے گیت دلیپ کمار سے لے کر راج كپور، دیوآنند،  راجیندرکمار، گرودت، دهرمیندر، شمی كپور، سنیل دت، بھارت بھوشن ، جیتندر، امیتابھ بچن، رشی کپور، بسواجیت، منوج کمار، اور دیگر اداکاروں پر فلمائے گئے۔

موسیقاروں کےساتھ تعلقات:

رفیع کے تعلقات مختلف موسیقاروں کے ساتھ دوستانہ تھے، اور انہوں نے تقریباً تمام بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوشاد،  شنکرجےکشن، ایس ڈی برمن، آرڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال، او پی نیر، مدن موہن، روی، کلیان جی آنند جی، خیام اور آرڈی برمن شامل ہیں۔

او پی نیر کے ساتھ بھی رفیع نےکئی مشہور گانے گائے، جن میں’کشمیر کی کلی‘ کا گانا ’یہ چاند ساروشن چہرہ‘ اور اشاروں اشاروں میں دل لینے والے، پکارتا چلا ہوں میں، ’دل کی آواز بھی سن‘، ’دیوانہ ہوا بادل‘ شامل ہے۔

پیارے لال نے اپنے انٹرویو میں تسلیم کیا کپ ’رفیع کے سب سے بڑے فین لکشمی کانت پیارے لال ہم خود ہیں‘، اور اس کے علاوہ کشور کمار اور مکیش ہیں۔

ایک گلوکار اور مہا گلوکار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ اس کے فین بھی نامی گرامی گلوکار ہوتے ہیں۔ فلم دوستی کے گیت رفیع نے سحر انگریزی سے گائے موسیقار نےکوشش کی کہ دھن کے اندرسُر، تال اور لَے ان کی آواز کی مناسبت سے استعمال ہو۔’یہ جو چلمن ہے‘ راہی منوا دکھ کی چنتا، میرا تو جو بھی قدم ہے،’چاہوں گا میں تجھےسانجھ سویرے‘، ’میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے‘ بہادرشاہ ظفر کی 2 معروف غزلیں ’مرزا غالب‘ فلم میں خوب مقبول ہوئی، ان کی دھنیں موسیقار ایس این ترپاٹھی نے بنائی تھی۔

’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘، ’لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں‘ہے بس کے ہر اک ان کے اشارے میں نشان اس کی دھن موسیقار غلام محمد نےبنائی تھی،’غضب کیا تیرےوعدے پہ اعتبار کیا‘ یہ دھن خيام نے بنائی تھی۔

موسیقار جے دیو کے ساتھ ہم دونوں فلم کا مقبول گیت ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر‘ اور ’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا‘ ان کا طلسم سننے والے پر وجد طاری کر دیتا ہے۔

ایس ڈی برمن اورآرڈی برمن:

ایس ڈ ی برمن کی تربیت میں پیاسا فلم کے 2 گیتوں میں’ یہ محلوں یہ تاجوں یہ تختوں کی دنیا‘ اور’جنہیں ناز ہے ہند پروہ کہاں ہیں‘ آواز کی پچ اور لفظوں کی ادائیگی میں خاص فرق محسوس کیا جا سکتا ہے، برمن خاندان کےساتھ بھی رفیع صاحب کا خاص تعلق رہا۔

ایس ڈی برمن کےساتھ فلم ’گائیڈ‘ کا گانا ’کیا سےکیا ہو گیا‘، دن ڈھل جائے اس کے علاوہ تیرے میرے سپنے، ناچے من مورا مگن اور کھویا کھویا چاند شامل ہیں، جو لوگ یہ کہتے ہیں پنچم دا نے رفیع کو نظر انداز کیا یہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔

فلم چھوٹے نواب سے لے کر تیسری منزل اور اس کے بعد بھی کئی فلموں کے معروف گیت رفیع سے گوائے گئے ان گیتوں پر رفیع کو ایوارڈز بھی ملے، پنچم دا نے رفیع کی آواز کو جدید موسیقی کے ذریعےآراستہ کیا۔’الہی توسن لے‘ ایک دعائی گیت جو پیچیدہ اور مشکل دُھن تھی، جسے انہوں نے خوب نبھایا۔

او حسینہ زلفوں والی، آجا آجا میں ہوں پیار ترا، گلابی آنکھیں، پوچھو نہ یار کیا ہوا، يمایما یہ خوبصورت سماں، تم بن جاؤں کہاں، تم نے مجھے دیکھا، وادیاں میرا دامن، کتنا پیارا وعدہ،گوری کے ہاتھ میں، پیار ہے اک نشان قدموں کا، سانسوں میں کبھی، چا ند میرا دل اور ’چرا لیا ہے تم نے‘ کیا ہوا تیرا وعدہ ’ان کی بہترین پرفارمنسز میں شمار ہوتے ہیں۔

موسیقار روی نے محمد رفیع کے ساتھ جن گیتوں کا انتخاب کیا وہ بھی بہت دلکش اور سُریلے گیت ہیں۔’نہ جھٹکو زلف سے پانی‘، ’حسن سے چاند بھی شرمایا ہے‘، ’مجھے پیار کی زندگی دینے والے، چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو، یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا، بابل کی دعائیں، مدن موہن نے بھی رفیع سے بہت عمدہ گیت گوائے ان کی دھنوں کا رسیلا پن رفیع کی آواز کے ساتھ شامل ہو کر گیت کو دو آتشہ بنا دیتا تھا۔

’کیسے کٹے گی زندگی تیرے بغیر‘، ’مجھے لے چلو آج‘،’کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں‘، ’اک حسین شام کو دل میرا کھو گیا۔

سب سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ:

مختلف ذرائع کہتے ہیں کہ انہوں نے 25 ہزار سے زیادہ گیت گائے ہیں، مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ محمد رفیع نے اپنے کیریئر میں تقریباً 7,000 سے زائد گیت گائے، جو کہ ایک بہت بڑا ریکارڈ ہے۔

لتا منگیشکر سے اختلاف، کشور کمار کا فلمی میدان میں شہرت حاصل کر لینا بھی رفیع کی مقبولیت کو کم نہ کر سکا۔ کشورکمار نے رفیع کی وفات پر یہ کہا  تھا کہ خدا کی آواز آسمان پر واپس چلی گئی ہے۔

ایک دور میں کشور کمار کے ایک میوزک شو کے اختلاف پر ان کے گیتوں پر حکومت نے آل انڈیا ریڈیو پر گیت نشر کرنے پرپابندی لگا دی تھی، تو رفیع ہی تھے جنھوں نے اعلی حکام سےکہہ کر وہ بین ہٹوا دیا تھا یہ تھی۔

اگر آپ ان دونوں کے 2 گانے سنیں، تو آپ کو اندازہ ہوگا، کہ آپس میں ان کی فریکونسی کتنی ملتی تھی۔ سب سے زیادہ  فلم فیئر ایوارڈز کے لئے نامزدگی : 

محمد رفیع کو ان کے کیریئر کے دوران کئی فلم فیئر ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا، اور انہوں نے کئی بار یہ ایوارڈز  جیتے بھی ان کی نامزدگیاں اور جیت اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کتنے مقبول گلوکار تھے، ان کے ہم عصر گلوکاروں میں مکیش، طلعت محمود، کشورکمار، منا ڈے اور ہیمنت کمار جیسے مختلف اور منفرد آوازوں کے ماہر فنكار موجود تھے، مگر رفیع ان سب کے ہوتے ہوئے، سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار رہے، حتی کہ انہوں نے ان سب کے ساتھ دوگانے بھی گائے۔

ہم کو تم سے ہو گیا ہے پیار (کشور، مکیش، رفیع، لتا) دل نے پھر یاد کیا (رفیع، مکیش، سمن)۔

بین الاقوامی پہچان رفیع کی گائیکی کی پہچان نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں تھی۔ ان کے گانے نہ صرف بھارت میں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، اور دیگر ممالک میں بھی بےحد مقبول تھے۔انہوں نے یورپ کے علاوہ بہت سے ملکوں کےدورے کئے۔

سب سےزیادہ دوگانے (ڈوئیٹس)

 رفیع نے مختلف گلوکاروں کے ساتھ سب سے زیادہ ڈوئیٹس گانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ ان کی گائیکی کا جادو اور شخصیت کا سحر ہمیشہ کے لئے زندہ رہےگا۔ پاکستان میں بھی احمد رشدی، اخلاق احمد، مسعود رانا، سلیم رضا، مجیب عالم، افراہیم، انور رفیع اور دیگر بہت سے گلوکار رفیع کی گلوکاری کے اثر پذیر رہے، آپ کو ان کی آوازوں میں رفیع کی چھاپ محسوس ہوگی۔

آوازکی منفرداقسام:

انکی گائیکی کی سب سے اہم خوبی ورسٹائلٹی تھی۔ عموما وہ ایف شارپ سکیل سے بہت آسانی سے گایا کرتے تھے، انہوں نے ہر قسم کے گانے گائے، چاہے وہ رومینٹک گیت ہوں، اداس گانے، قوالیاں، بھجن،کلاسیکل گانے، یا پھر ہلکے پھلکے نغمے۔

ہر انداز میں انہوں نے اپنی آواز کا جادو بکھیرا۔ ’محبوبہ تیری تصویر‘ اور تو میرے سامنے ہے‘ یہ 2 مشکل ادائیگی کےگیت ہیں۔

جذباتی شدت:

 رفیع صاحب کی گائیکی میں جذبات کی شدت تھی۔ وہ ہر گانے میں اپنے جذبات کو بخوبی پیش کرتے تھے چاہے وہ  کرب چنچل، پیار، غم،  خوشی، اداسی، محبت اور تنہائی کا اظہار ہو۔
گرفت اوروسعت:

رفیع کی آواز میں بےمثالی کنٹرول اور رینج تھی۔ وہ بنا کسی مشکل کے بلند اور نچلے نوٹ لگاتے تھے۔ ان کی آواز میں مضبوطی اور نرمی کا بہترین توازن تھا۔ یہ آواز کچھ خاص میلوڈک تھی جودل کو چھو لیتی تھی۔

آواز میں لچک:

ان کی آواز میں بے پناہ لچک تھی، جو انہیں مختلف قسم کے گیت گانے کے قابل بناتی تھی۔ چاہے وہ کلاسیکل راگ ہو یا جدید فلمی گانا، رفیع صاحب نے ہر طرز میں اپنی آواز کو بخوبی ڈھالا۔ جو انہیں مختلف نوٹس اور گانے کی تکنیکوں کو بخوبی نبھانے کےقابل بناتی تھی۔

سوفٹ اورسائلنٹ ٹونز:

آواز کی نرم اور خاموش ٹونز ان کی گائیکی کو مزید دلکش بناتے تھے۔ ان کی آواز میں ایک خاموش جادو تھا جو سننے والوں کوسکون پہنچاتا تھا۔ رفیع کی آواز کو تکنیکی موسیقی کے لحاظ سے بیری ٹون (Baritone) اور ٹینور (Tenor) کے درمیان سمجھا جاسکتا ہے۔

میڈیم رینج:

بیری ٹون کی آواز کی رینج عام طور پر میڈیم اور کم رینج کے درمیان ہوتی ہے۔ رفیع کی آواز میں بھی یہ خصوصیت تھی، خاص طور پر جب وہ دھیمی، گہرائی والی گائیکی کرتے تھے۔

ٹینور (Tenor) کی خصوصیات:

ٹینور آواز کی رینج عام طور پر بلند نوٹس پرمشتمل ہوتی ہے۔ انہوں نے بھی خاص طور پر رومانوی اور تیز رفتار گانوں میں بلند ُسروں پر اپنی مہارت کامظاہرہ کیا،

منفرد وسعت (versatile range):

رفیع کی آواز میں ورسٹائل رینج تھی، جو انہیں مختلف قسم کے گانوں میں مہارت فراہم کرتی تھی۔

ڈرامائی انداز، طاقتور تاثر:

رفیع صاحب کی آواز میں ایک ڈرامیٹک اور پاور فل عنصر بھی تھا، جو گانے کی جذباتی شدت کو بڑھا دیتا تھا،

لتا منگیشکر:

رفیع اور لتا منگیشکر نے مل کر کئی یاد گار گیت گائے۔ اگرچہ دونوں کے درمیان (رائلٹی) کے معاملے پر اختلافات بھی ہوئے، مگر اس کے با وجود دونوں نے مل کر گائیکی کے نئے معیارات قائم کیے۔ ان اختلافات کا ذکر لتا منگیشکر نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں کیا۔ ان دونوں کے گائے ہوئے گیتوں میں ’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں، آواز دے کر ہمیں تم بلاؤ، بے خودی میں صنم، یاد میں تیری جاگ، تصویر تیری دل میں‘ سمیت بہت سے گیت شامل ہیں۔

آشا بھوسلے:

رفیع اور آشا بھوسلے نے بھی کئی مشہور گانے گائے۔ ان دونوں کی جوڑی نے فلمی گیتوں میں ایک خاص جگہ بنائی۔ان دونوں نے 900 سے زائد گیت گائے۔رفیع اور سمن کلیانپور کی جوڑی بھی نہایت مشہور تھی۔ ان کی جوڑی نے کئی خوبصورت اور یاد گار گانے دیے۔

اس کے علاوہ گیتادت، سدھا ملہوترا اور شاردا سمیت 80 سے زائد گلوکاروں کے ساتھ دوگانے گائے۔ مہندر کپوریہ تو رفیع کے دور میں ہی منظرعام پر آئے، مگر ان کی آواز میں رفیع کی آواز کا عکس نظر آتا تھا۔

سونُونگم کو جدید دور کا رفیع بھی کہاجاتا ہے۔ سونُونگم خود کو رفیع کا  بڑا مداح کہتے ہیں۔ ان کی آواز اور گائیکی کے انداز میں رفیع صاحب کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔

محمد عزیز کی آواز اور گائیکی میں بھی رفیع کا اثر نمایاں تھا۔ ان کے گانے سن کر محمد رفیع کی یاد آتی ہے، اور ان کا انداز بھی کافی حد تک رفیع صاحب سے مشابہت رکھتا ہے۔

شبیرکمار، منگل سنگھ، جاوید علی، ادت نرائن اور سریش واڈیكر کی گائیکی میں بھی رفیع کا اثر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

انور ایک اور گلوکار ہیں جنہوں نے محمد رفیع کی گائیکی کو بہت قریب سے محسوس کیا۔ انیل باجپائی جنہوں نے رفیع کے گیتوں میں خاص مہارت حاصل کی۔ ان کی گائیکی میں بھی رفیع صاحب کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔ پیارے لال نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اُن کااس دنیا سے جانے کا قصہ بھی عجیب ہے’تو کہیں آس پاس ہے دوست‘ لکشمی کانت پیارےلال کے اس گیت کی ریکارڈنگ کے لیے رفیع صاحب کو بلایا گیا، انہوں نے یہ گیت گایا اوراس گیت کو گانے کے بعد ان کی طبیعت بہت اداس ہو گئی، گھر جا کر بھی وہ بہت بےچین اور مضطرب نظر آئے، اور ان کا دل نہیں لگا۔

اسی رات کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے، ان کی آواز کا جادو آج بھی زندہ ہے اور ان کے گانے لوگوں کے دلوں میں آج بھی بسے ہوئے ہیں۔ ان کا کیریئر نہایت شاندار اور کامیاب رہا۔

ان کی آواز میں جو گونج تھی وہ ہر عمرکے لوگوں کو متاثر کر گئی اوران کی یاد گار گائیکی نے انہیں موسیقی کی دنیا میں ہمیشہ کے لئے امر کر دیا۔

دل کا سونا ساز ترانہ ڈھونڈے گا

مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا ز زما

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امر بلال

گلوکار محمد رفیع موسیقی ہندوستان

متعلقہ مضامین

  • محمدرفیع کے 100سال: سدابہار گلوکار
  • شہری 804 نمبر والی گاڑی منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار، سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی لگادی
  • اسرائیلی فوج کے لیے دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی فیکٹری ہیک کر لی گئی
  • آپشن ہونا چاہیئے کہ شہری اجرک والی یا پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگائیں، آفاق احمد
  • آپشن ہونا چاہیے شہری اجرک والی یا پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگائیں، آفاق احمد
  • اسلام آباد میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں پر ایم ٹیگ لگانا لازمی ہوگا: چیئر مین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ
  • دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی 10 زبانوں میں اردو کا نمبر کونسا ہے؟
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • سلامتی کونسل میں کھلا مباحثہ، پاکستانی سفیر نے بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا
  • جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟