Jasarat News:
2025-09-18@14:36:58 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

بحر الکاہل کو دنیا کا سب سے بڑا سمندری خطہ سمجھا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے آج تک یہ خطہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بحر الکاہل جس میں شنگھائی اور سنگاپور کے علاوہ ٹوکیو، یوکوہاما، لاس اینجلس اور بوسان جیسی اہم ترین تجارتی بندرگاہیں شامل ہیں۔ ان بندرگاہوں کے علاوہ شپنگ روٹس جن میں ٹرانس پیسیفک روٹ شامل ہے ایشیا کے اہم ترین ممالک جاپان، چین اور کوریا کو امریکا سے جوڑتا ہے۔ مزید برآں آبنائے ملا کا، پاناما کینال (بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان مختصر ترین راستہ) کے علاوہ آسٹریلیا۔ چین شپنگ روٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بندرگاہیں اور روٹس عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور بحر الکاہل کو دنیا کاسب سے اہم سمندری خطہ بناتے ہیں۔ بحر الکاہل کی تجارتی اور جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر اس سمندری خطے کو ہر دور میں ناصرف تجارتی بلکہ تزویراتی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل رہی ہے اور آج بھی یہ عالمی طاقتوں کے درمیان وسائل اور مفادات کی کشمکش کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں نہ صرف جاپان اور چین شامل ہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور بھارت بھی اس خطے پر بالادستی کی جنگ میں براہ راست شریک ہیں۔

بحر الکاہل کے اسٹیک ہولڈرز میں ایک اہم ملک جاپان بھی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایک امن پسند قوم کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اپنی دفاعی پالیسیوں کو بہت محدود رکھا۔ جاپانی آئین کا آرٹیکل 9 چونکہ واضح طور پر جنگ مخالف اور کسی بھی قسم کی جارحیت میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتا ہے لہٰذا جاپان نے اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ معاشی ترقی اور سفارتی تعلقات پر مرکوز رکھی تاہم، سرد جنگ اور اس کے بعد بحر الکاہل میں سیکورٹی کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے جنوبی بحیرہ چین میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور شمالی کوریا کی جوہری پالیسی کو جاپان نے اپنی سمندری سیکورٹی کے حوالے سے نئے چیلنج کے طور پر دیکھا اور بدلتے ہوئے ماحول میں جاپان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی بحری حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے۔

چین نے جو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرا ہے، بحر جنوبی چین اور دیگر سمندری علاقوں میں اپنی موجودگی کو وسعت دی ہے، اس ضمن میں چین کے متعدد اقدامات کو جاپان اور دیگر علاقائی طاقتوں نے ایک چیلنج کے طور لینا شروع کردیا جن میں چین کی جانب سے اپنی بحری فوج کی تعداد اور استعداد میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چین ان اقدامات کو ساؤتھ چائنا سی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل حرکت کے جواب اور اپنے دفاع کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ دوطرفہ تزویراتی اقدامات نے خطے میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا جس کی آنچ دونوں جانب محسوس کی گئی۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جاپان کا مؤقف مسائل کے سفارتی حل، قانونی فریم ورک، اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر مبنی رہا ہے۔ جاپان کا بیانیہ ہے کہ خطے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ممالک کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازع امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان یہ موقف بھی پیش کرتا ہے کہ امن کے لیے خطے میں موجود چھوٹے ممالک کو سمندری حقوق کے تحفظ کے لیے مدد فراہم کی جائے جس کے لیے علاقائی تعاون کے مضبوط پلیٹ فارمز قائم کرنے ضروری ہیں۔ جاپان کے مطابق خطے میں فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، برونائی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ (واضح رہے کہ ساؤتھ چائنا سی میں ایک اصطلاح نائن ڈیش لائن ہے جس سے مراد 900 کلومیٹر پر محیط ایک سمندری علاقہ ہے جس کی ملکیت پر مزکورہ ممالک اور چین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور چین اس پورے علاقے کو اپنی سمندری حدود کا حصہ بتاتا ہے)

دوسری جانب چین کی رائے میں بات اتنی سادہ نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے۔ چین کے مطابق بحر الکاہل میں مسائل کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل وحرکت ہے۔ جاپان کی جانب سے پیش کردہ ’’فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک‘‘ (FOIP) کے تصور کو چین اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے طور پر لیتا ہے اور ساؤتھ چائنا سی میں اسے اپنی خودمختاری کے خلاف ایک بڑا چیلنج تصور کرتا ہے۔ خصوصاً کواڈ معاہدہ جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں چین کی حساسیت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ جبکہ جاپان کے مطابق انڈو پیسیفک تجارتی نظام کو آزاد اور منصفانہ بنانے کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی تجارتی اصولوں اور سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق اس کی حکمت عملی کسی خاص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی استحکام اور ترقی کے اصولوں پر مبنی ہے چنانچہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنازعات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کریں، عالمی قوانین کا احترام کریں، اور ترقی اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ بحر الکاہل میں چین کی بے چینی کی دوسری بڑی وجہ جاپان کا امریکا کے ساتھ دفاعی اتحاد بتایا جاتا ہے جس کے تحت بحرالکاہل میں تعینات 55 ہزار امریکی فوجی جاپان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جاپان نے اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کیا، چنانچہ اس اتحاد کے تحت امریکا نے بحر الکاہل میں فوجی اڈے بنائے ہیں، اور چین یہاں جاپان اور امریکا کی مشترکہ بحری مشقوں کو دفاعی زاویے سے دیکھتا ہے۔ جبکہ جاپان امریکا کے ساتھ اتحاد کو اپنے دفاع اور خطے میں سیکورٹی بیلنس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بتاتا ہے۔

بحر الکاہل میں بے چینی کی ایک اور وجہ سینکاکو جزائر (چین کے مطابق دیواؤ) کا قضیہ بھی ہے جن پر جاپان اور چین دونوں کا ملکیتی دعویٰ ہے اور دونوں ممالک اس پر دعوے کے ثبوت میں تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور چین کے بحری دستے گشت بھی کرتے ہیں اور اس وجہ سے تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے کے مطابق اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ بحر الکاہل میں موجود تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل کیا جائے اور امکانی عسکری تصادم سے گریز کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔ بحر الکاہل میں استحکام نہ صرف جاپان بلکہ خود چین سمیت پورے خطے کے لیے ضروری ہے اور اس استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقین کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے سمندری وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ چین اور جاپان جو خطے کے دو اہم ممالک ہیں کے درمیان اس قضیے کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مشترکہ استحکام کے فارمولے پر مبنی حل نہ صرف جاپان اور چین بلکہ پورے بحر الکاہل اور ایشیا میں قیام امن کی ضمانت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاپان اور چین بین الاقوامی کے لیے ضروری کے درمیان کے طور پر کے مطابق شامل ہیں جاپان کے کے ساتھ چین اور کرتا ہے جاتا ہے خطے کے اور اس چین کی چین کے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کلیدی کردار ہے۔

ایک تاریخی پیش رفت کے طور پر آج مملکتِ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے، جو دونوں برادر ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کی مضبوطی کو ثابت کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ، ایک ملک پر جارحیت دونوں کے خلاف تصور ہوگی

یہ سنگِ میل اور سب سے بڑا انقلابی معاہدہ اپنی اہمیت کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے سربراہان نے سائن کیا۔

آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اس معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سعودی عرب کا شراکت دار منتخب کیا تاکہ مقدس مقامات کے دفاع میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو۔

موجودہ اور متوقع خطرات و چیلنجز کے تناظر میں یہ معاہدہ دفاع کو مضبوط بنانے اور دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتوں کی تیاری اور انضمام کو بڑھانے کا مقصد رکھتا ہے۔ تاکہ دونوں ممالک کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو لاحق کسی بھی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے

اس معاہدے کی شقوں کے تحت کسی بھی ملک پر بیرونی مسلح حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا۔ اس طرح یہ معاہدہ ایک اہم اور تاریخی سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔

اس معاہدے پر دستخط دونوں ممالک کے گہرے دوطرفہ تعلقات اور سیکیورٹی تعاون کی توثیق کرتے ہیں۔ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مشترکہ فوجی تربیت، کثیر الجہتی مشقوں اور دفاعی صنعتی تعاون کے ذریعے ظاہر ہوتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب میں پرتپاک استقبال، 21 توپوں کی سلامی، سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے

یہ معاہدہ امن کے فروغ اور علاقائی و عالمی سلامتی کو مستحکم کرنے کے مشترکہ مقاصد کی بھی خدمت کرتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ دونوں کے لیے سیکیورٹی، معیشت اور سفارت کاری میں انتہائی فائدہ مند ہے۔

مشترکہ دفاع سے مراد ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی خطرے سے مشترکہ نمٹیں گے اور اپنے دفاع کے لیے ایک ملک کی طاقت دوسرے ملک کے دفاع کے لیے موجود ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آرمی چیف پاکستان دفاعی معاہدہ سعودی عرب فیلڈ مارشل عاصم منیر کلیدی کردار وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • ٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • ‏جو کردار آج کی پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب میں ادا کیا ہے وہ پنجاب یاد رکھے گا: عظمیٰ بخاری
  • ارشد ندیم ایک بار پھر عالمی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کو تیار
  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • پہلی بار ایک پاکستانی نژاد ساؤنڈ انجینیئر نے گریمی ایوارڈ جیت لیا
  • اسحاق ڈار کو جرمن وزیرخارجہ کا فون، علاقائی و عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  •   امریکا ، جنوبی کوریا اور جاپان کی مشترکہ فوجی مشقیں شروع
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)