Jasarat News:
2025-07-25@01:28:54 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

بحر الکاہل کو دنیا کا سب سے بڑا سمندری خطہ سمجھا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے آج تک یہ خطہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بحر الکاہل جس میں شنگھائی اور سنگاپور کے علاوہ ٹوکیو، یوکوہاما، لاس اینجلس اور بوسان جیسی اہم ترین تجارتی بندرگاہیں شامل ہیں۔ ان بندرگاہوں کے علاوہ شپنگ روٹس جن میں ٹرانس پیسیفک روٹ شامل ہے ایشیا کے اہم ترین ممالک جاپان، چین اور کوریا کو امریکا سے جوڑتا ہے۔ مزید برآں آبنائے ملا کا، پاناما کینال (بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان مختصر ترین راستہ) کے علاوہ آسٹریلیا۔ چین شپنگ روٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بندرگاہیں اور روٹس عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور بحر الکاہل کو دنیا کاسب سے اہم سمندری خطہ بناتے ہیں۔ بحر الکاہل کی تجارتی اور جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر اس سمندری خطے کو ہر دور میں ناصرف تجارتی بلکہ تزویراتی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل رہی ہے اور آج بھی یہ عالمی طاقتوں کے درمیان وسائل اور مفادات کی کشمکش کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں نہ صرف جاپان اور چین شامل ہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور بھارت بھی اس خطے پر بالادستی کی جنگ میں براہ راست شریک ہیں۔

بحر الکاہل کے اسٹیک ہولڈرز میں ایک اہم ملک جاپان بھی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایک امن پسند قوم کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اپنی دفاعی پالیسیوں کو بہت محدود رکھا۔ جاپانی آئین کا آرٹیکل 9 چونکہ واضح طور پر جنگ مخالف اور کسی بھی قسم کی جارحیت میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتا ہے لہٰذا جاپان نے اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ معاشی ترقی اور سفارتی تعلقات پر مرکوز رکھی تاہم، سرد جنگ اور اس کے بعد بحر الکاہل میں سیکورٹی کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے جنوبی بحیرہ چین میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور شمالی کوریا کی جوہری پالیسی کو جاپان نے اپنی سمندری سیکورٹی کے حوالے سے نئے چیلنج کے طور پر دیکھا اور بدلتے ہوئے ماحول میں جاپان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی بحری حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے۔

چین نے جو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرا ہے، بحر جنوبی چین اور دیگر سمندری علاقوں میں اپنی موجودگی کو وسعت دی ہے، اس ضمن میں چین کے متعدد اقدامات کو جاپان اور دیگر علاقائی طاقتوں نے ایک چیلنج کے طور لینا شروع کردیا جن میں چین کی جانب سے اپنی بحری فوج کی تعداد اور استعداد میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چین ان اقدامات کو ساؤتھ چائنا سی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل حرکت کے جواب اور اپنے دفاع کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ دوطرفہ تزویراتی اقدامات نے خطے میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا جس کی آنچ دونوں جانب محسوس کی گئی۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جاپان کا مؤقف مسائل کے سفارتی حل، قانونی فریم ورک، اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر مبنی رہا ہے۔ جاپان کا بیانیہ ہے کہ خطے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ممالک کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازع امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان یہ موقف بھی پیش کرتا ہے کہ امن کے لیے خطے میں موجود چھوٹے ممالک کو سمندری حقوق کے تحفظ کے لیے مدد فراہم کی جائے جس کے لیے علاقائی تعاون کے مضبوط پلیٹ فارمز قائم کرنے ضروری ہیں۔ جاپان کے مطابق خطے میں فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، برونائی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ (واضح رہے کہ ساؤتھ چائنا سی میں ایک اصطلاح نائن ڈیش لائن ہے جس سے مراد 900 کلومیٹر پر محیط ایک سمندری علاقہ ہے جس کی ملکیت پر مزکورہ ممالک اور چین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور چین اس پورے علاقے کو اپنی سمندری حدود کا حصہ بتاتا ہے)

دوسری جانب چین کی رائے میں بات اتنی سادہ نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے۔ چین کے مطابق بحر الکاہل میں مسائل کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل وحرکت ہے۔ جاپان کی جانب سے پیش کردہ ’’فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک‘‘ (FOIP) کے تصور کو چین اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے طور پر لیتا ہے اور ساؤتھ چائنا سی میں اسے اپنی خودمختاری کے خلاف ایک بڑا چیلنج تصور کرتا ہے۔ خصوصاً کواڈ معاہدہ جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں چین کی حساسیت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ جبکہ جاپان کے مطابق انڈو پیسیفک تجارتی نظام کو آزاد اور منصفانہ بنانے کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی تجارتی اصولوں اور سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق اس کی حکمت عملی کسی خاص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی استحکام اور ترقی کے اصولوں پر مبنی ہے چنانچہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنازعات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کریں، عالمی قوانین کا احترام کریں، اور ترقی اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ بحر الکاہل میں چین کی بے چینی کی دوسری بڑی وجہ جاپان کا امریکا کے ساتھ دفاعی اتحاد بتایا جاتا ہے جس کے تحت بحرالکاہل میں تعینات 55 ہزار امریکی فوجی جاپان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جاپان نے اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کیا، چنانچہ اس اتحاد کے تحت امریکا نے بحر الکاہل میں فوجی اڈے بنائے ہیں، اور چین یہاں جاپان اور امریکا کی مشترکہ بحری مشقوں کو دفاعی زاویے سے دیکھتا ہے۔ جبکہ جاپان امریکا کے ساتھ اتحاد کو اپنے دفاع اور خطے میں سیکورٹی بیلنس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بتاتا ہے۔

بحر الکاہل میں بے چینی کی ایک اور وجہ سینکاکو جزائر (چین کے مطابق دیواؤ) کا قضیہ بھی ہے جن پر جاپان اور چین دونوں کا ملکیتی دعویٰ ہے اور دونوں ممالک اس پر دعوے کے ثبوت میں تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور چین کے بحری دستے گشت بھی کرتے ہیں اور اس وجہ سے تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے کے مطابق اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ بحر الکاہل میں موجود تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل کیا جائے اور امکانی عسکری تصادم سے گریز کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔ بحر الکاہل میں استحکام نہ صرف جاپان بلکہ خود چین سمیت پورے خطے کے لیے ضروری ہے اور اس استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقین کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے سمندری وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ چین اور جاپان جو خطے کے دو اہم ممالک ہیں کے درمیان اس قضیے کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مشترکہ استحکام کے فارمولے پر مبنی حل نہ صرف جاپان اور چین بلکہ پورے بحر الکاہل اور ایشیا میں قیام امن کی ضمانت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاپان اور چین بین الاقوامی کے لیے ضروری کے درمیان کے طور پر کے مطابق شامل ہیں جاپان کے کے ساتھ چین اور کرتا ہے جاتا ہے خطے کے اور اس چین کی چین کے ہے اور

پڑھیں:

جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟

جاپان نے سال 2023 میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 3 لاکھ بین الاقوامی طلبا کو خوش آمدید کہا، جو 2022 کے مقابلے میں 20.8 فیصد زائد تعداد بنتی تھی، جاپانی حکومت کا ہدف ہے کہ وہ آئندہ چند برسوں تک اس تعداد کو بڑھا کر 4 لاکھ کیا جائے۔

اس تناظر میں پاکستانی طلبا کے لیے جاپان ایک پرکشش تعلیمی اور کاروباری ملک ثابت ہو سکتا ہے، جہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس اور مالی معاونت کے کئی مواقع دستیاب ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی طلبا  جاپانی تعلیمی اداروں کی مارکیٹ سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں:

اس حوالے سے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر عدنان پراچہ کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی کا خواب ہے کہ وہ بیرون ملک نہ صرف تعلیم بلکہ بہتر روزگار کے مواقع بھی حاصل کرے، ایسے میں اگر جاپان کی بات کی جائے تو یہ ملک دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، اور جاپانی پاسپورٹ عالمی سطح پر طاقتور ترین پاسپورٹس کی فہرست میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 2 سے 3 سالوں کے دوران جاپان کو نوجوان ورک فورس کی شدید ضرورت رہی ہے، جاپانی حکومت سالانہ تقریباً 3 لاکھ افراد پر مشتمل لیبر فورس کی تلاش میں ہے اور وہ مختلف ممالک سے تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس موقع سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پا رہا۔

’اس کی ایک بڑی وجہ پاکستانی نوجوانوں کی قلیل مدتی منصوبہ بندی ہے، تعلیم کے لیے جاپان جانے والے اکثر طلبا جاپانی زبان سیکھے بغیر صرف انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں، حالانکہ انہیں چاہیے کہ وہ جاپانی زبان سیکھ کر جائیں تاکہ نہ صرف تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں بلکہ جاب مارکیٹ میں بھی مؤثر طریقے سے داخل ہو سکیں۔‘

مزید پڑھیں:

عدنان پراچہ کے مطابق زبان پر عبور حاصل کرنے والے طلبا کو جاپان میں بہتر انٹرن شپ، جزوقتی ملازمتیں اور بعد از تعلیم نوکریوں کے مواقع بھی باآسانی حاصل ہو سکتے ہیں، ان طلبا کے لیے بھی سنہرا موقع موجود ہے جو طویل عرصے کی ڈگری پروگرامز کا ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ جاپان کے کئی تعلیمی ادارے ایسے کورسز آفر کر رہے ہیں جن میں طلبا ایک سال میں جاپانی زبان سیکھ سکتے ہیں۔

’اس ایک سال کے دوران نہ صرف زبان پر عبور حاصل ہوتا ہے بلکہ طلبا کو جاپانی ماحول سے بھی آشنائی ہو جاتی ہے، جو کہ مستقبل میں جاب حاصل کرنے کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، جاپان اپنی قومی زبان کو بہت اہمیت دیتا ہے، اس لیے وہاں جا کر کامیاب ہونے کے لیے جاپانی زبان سیکھنا ناگزیر ہے، چاہے مقصد تعلیم ہو یا روزگار۔‘

مزید پڑھیں:

عدنان پراچہ نے مزید کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ جاپان میں پاکستانی سفارتخانہ اس حوالے سے پہلے سے زیادہ متحرک ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ 2 سالوں میں پاکستان سے نوجوانوں کی مطلوبہ تعداد میں جاپان روانگی نہیں ہو سکی، جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں نوجوان جاپانی تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور تعلیمی ادارے اس خلا کو محسوس کریں اور نوجوانوں کے لیے جاپان جانے کے مواقع کو آسان بنائیں۔ اسکالرشپس، زبان سیکھنے کے پروگرامز، اور ویزا رہنمائی جیسی سہولیات فراہم کر کے ہم اپنی یوتھ کو ایک محفوظ، باوقار اور روشن مستقبل کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔

پاکستانی طلبا کے لیے جاپان میں کس قسم کے اسکالرشپس کے مواقع موجود ہیں؟

پاکستانی طلبا کے لیے سب سے نمایاں اسکالرشپ میکسٹ ہے، جو جاپانی حکومت کی جانب سے پیش کی جاتی ہے، یہ اسکالرشپ مکمل ٹیوشن فیس، رہائش، اور ماہانہ وظیفہ فراہم کرتی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 25-2023 کے دوران 11 پاکستانی طلبا کو یہ اسکالرشپ دی گئی تھی۔

اس کے علاوہ جیسو اسکالرشپ بھی ہے، جس کے تحت ماہانہ 48 ہزار ین فراہم کیا جاتا ہے، جاپان کی کئی یونیورسٹیاں، جیسے کیوٹو، ہوکائیڈو اور یوکوہاما نیشنل یونیورسٹی غیر ملکی طلبا کے لیے انگریزی میں پڑھائے جانے والے پروگرام اور اندرونی اسکالرشپس بھی فراہم کرتی ہیں۔

جاپان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو پارٹ ٹائم کام کی بھی اجازت ہوتی ہے، جہاں وہ ہفتہ وار 28 گھنٹے کام کرسکتے ہیں۔ یہ سہولت طلبا کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں مدد دیتی ہے، تعلیمی معیار، جدید تحقیق، اور ثقافتی تنوع کی وجہ سے جاپان اب پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک نمایاں تعلیمی مرکز بنتا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستانی طلبا جاب جاپان مارکیٹ

متعلقہ مضامین

  • جاپان میں شوہر اپنی پوری تنخواہ بیوی کو کیوں دیتے ہیں؟ دلچسپ وجوہات جانیں
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا اور بحرالکاہل خطے کی معاشی ترقی کی شرح بارے پیش گوئی میں کمی کردی ،رپورٹ
  • جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
  • ٹرمپ انتظامیہ کی پاک بھارت کشیدگی میں کردار کا دعویٰ، مودی سرکار کا ہزیمانہ ردعمل
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
  • امریکا اور جاپان کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا، درآمدی محصولات میں کمی
  • سلامتی کونسل میں عالمی امن کیلیے پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور
  • معروف ترک ڈرامے کورولس عثمان کے مرکزی کردار نے اپنی راہیں جدا کرلیں
  • عالمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی قرارداد سلامتی کونسل میں متفقہ طور پر منظور