Jasarat News:
2025-04-25@16:11:01 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

بحرالکاہل میں عالمی کشاکش اور علاقائی طاقتوں کا کردار

بحر الکاہل کو دنیا کا سب سے بڑا سمندری خطہ سمجھا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے آج تک یہ خطہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بحر الکاہل جس میں شنگھائی اور سنگاپور کے علاوہ ٹوکیو، یوکوہاما، لاس اینجلس اور بوسان جیسی اہم ترین تجارتی بندرگاہیں شامل ہیں۔ ان بندرگاہوں کے علاوہ شپنگ روٹس جن میں ٹرانس پیسیفک روٹ شامل ہے ایشیا کے اہم ترین ممالک جاپان، چین اور کوریا کو امریکا سے جوڑتا ہے۔ مزید برآں آبنائے ملا کا، پاناما کینال (بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان مختصر ترین راستہ) کے علاوہ آسٹریلیا۔ چین شپنگ روٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بندرگاہیں اور روٹس عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور بحر الکاہل کو دنیا کاسب سے اہم سمندری خطہ بناتے ہیں۔ بحر الکاہل کی تجارتی اور جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر اس سمندری خطے کو ہر دور میں ناصرف تجارتی بلکہ تزویراتی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل رہی ہے اور آج بھی یہ عالمی طاقتوں کے درمیان وسائل اور مفادات کی کشمکش کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں نہ صرف جاپان اور چین شامل ہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور بھارت بھی اس خطے پر بالادستی کی جنگ میں براہ راست شریک ہیں۔

بحر الکاہل کے اسٹیک ہولڈرز میں ایک اہم ملک جاپان بھی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایک امن پسند قوم کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اپنی دفاعی پالیسیوں کو بہت محدود رکھا۔ جاپانی آئین کا آرٹیکل 9 چونکہ واضح طور پر جنگ مخالف اور کسی بھی قسم کی جارحیت میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتا ہے لہٰذا جاپان نے اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ معاشی ترقی اور سفارتی تعلقات پر مرکوز رکھی تاہم، سرد جنگ اور اس کے بعد بحر الکاہل میں سیکورٹی کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے جنوبی بحیرہ چین میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور شمالی کوریا کی جوہری پالیسی کو جاپان نے اپنی سمندری سیکورٹی کے حوالے سے نئے چیلنج کے طور پر دیکھا اور بدلتے ہوئے ماحول میں جاپان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی بحری حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے۔

چین نے جو گزشتہ چند دہائیوں میں ایک بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرا ہے، بحر جنوبی چین اور دیگر سمندری علاقوں میں اپنی موجودگی کو وسعت دی ہے، اس ضمن میں چین کے متعدد اقدامات کو جاپان اور دیگر علاقائی طاقتوں نے ایک چیلنج کے طور لینا شروع کردیا جن میں چین کی جانب سے اپنی بحری فوج کی تعداد اور استعداد میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چین ان اقدامات کو ساؤتھ چائنا سی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل حرکت کے جواب اور اپنے دفاع کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ دوطرفہ تزویراتی اقدامات نے خطے میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا جس کی آنچ دونوں جانب محسوس کی گئی۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جاپان کا مؤقف مسائل کے سفارتی حل، قانونی فریم ورک، اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر مبنی رہا ہے۔ جاپان کا بیانیہ ہے کہ خطے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ممالک کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازع امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان یہ موقف بھی پیش کرتا ہے کہ امن کے لیے خطے میں موجود چھوٹے ممالک کو سمندری حقوق کے تحفظ کے لیے مدد فراہم کی جائے جس کے لیے علاقائی تعاون کے مضبوط پلیٹ فارمز قائم کرنے ضروری ہیں۔ جاپان کے مطابق خطے میں فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، برونائی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ (واضح رہے کہ ساؤتھ چائنا سی میں ایک اصطلاح نائن ڈیش لائن ہے جس سے مراد 900 کلومیٹر پر محیط ایک سمندری علاقہ ہے جس کی ملکیت پر مزکورہ ممالک اور چین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور چین اس پورے علاقے کو اپنی سمندری حدود کا حصہ بتاتا ہے)

دوسری جانب چین کی رائے میں بات اتنی سادہ نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے۔ چین کے مطابق بحر الکاہل میں مسائل کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نقل وحرکت ہے۔ جاپان کی جانب سے پیش کردہ ’’فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک‘‘ (FOIP) کے تصور کو چین اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے طور پر لیتا ہے اور ساؤتھ چائنا سی میں اسے اپنی خودمختاری کے خلاف ایک بڑا چیلنج تصور کرتا ہے۔ خصوصاً کواڈ معاہدہ جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں چین کی حساسیت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ جبکہ جاپان کے مطابق انڈو پیسیفک تجارتی نظام کو آزاد اور منصفانہ بنانے کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی تجارتی اصولوں اور سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق اس کی حکمت عملی کسی خاص ملک کے خلاف نہیں بلکہ عالمی استحکام اور ترقی کے اصولوں پر مبنی ہے چنانچہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنازعات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کریں، عالمی قوانین کا احترام کریں، اور ترقی اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ بحر الکاہل میں چین کی بے چینی کی دوسری بڑی وجہ جاپان کا امریکا کے ساتھ دفاعی اتحاد بتایا جاتا ہے جس کے تحت بحرالکاہل میں تعینات 55 ہزار امریکی فوجی جاپان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ چونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جاپان نے اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کیا، چنانچہ اس اتحاد کے تحت امریکا نے بحر الکاہل میں فوجی اڈے بنائے ہیں، اور چین یہاں جاپان اور امریکا کی مشترکہ بحری مشقوں کو دفاعی زاویے سے دیکھتا ہے۔ جبکہ جاپان امریکا کے ساتھ اتحاد کو اپنے دفاع اور خطے میں سیکورٹی بیلنس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بتاتا ہے۔

بحر الکاہل میں بے چینی کی ایک اور وجہ سینکاکو جزائر (چین کے مطابق دیواؤ) کا قضیہ بھی ہے جن پر جاپان اور چین دونوں کا ملکیتی دعویٰ ہے اور دونوں ممالک اس پر دعوے کے ثبوت میں تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور چین کے بحری دستے گشت بھی کرتے ہیں اور اس وجہ سے تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے کے مطابق اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ بحر الکاہل میں موجود تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل کیا جائے اور امکانی عسکری تصادم سے گریز کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔ بحر الکاہل میں استحکام نہ صرف جاپان بلکہ خود چین سمیت پورے خطے کے لیے ضروری ہے اور اس استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقین کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے سمندری وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ چین اور جاپان جو خطے کے دو اہم ممالک ہیں کے درمیان اس قضیے کا حل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مشترکہ استحکام کے فارمولے پر مبنی حل نہ صرف جاپان اور چین بلکہ پورے بحر الکاہل اور ایشیا میں قیام امن کی ضمانت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاپان اور چین بین الاقوامی کے لیے ضروری کے درمیان کے طور پر کے مطابق شامل ہیں جاپان کے کے ساتھ چین اور کرتا ہے جاتا ہے خطے کے اور اس چین کی چین کے ہے اور

پڑھیں:

یوکرین جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے روسی جنرل پُراسرار دھماکے میں ہلاک

روس کے دارالحکومت میں ایک زوردار دھماکے میں روسی فوج کے اعلیٰ عہدیدار لیفٹیننٹ جنرل یاروسلاو موسکالک ہلاک ہوگئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ دھماکا اس وقت ہوا جب روسی جنرل اپنے گھر سے نکل کر پارکنگ میں اپنی سفید رنگ کی فولکس ویگن گولف کے قریب پہنچے تھے۔

روسی تحقیقاتی کمیٹی نے کار بم دھماکے میں جنرل موسکالک کی ہلاکت کو ایک "دہشت گرد حملہ" قرار دیتے ہوئے قتل کی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

خیال رہے کہ جنرل موسکالک روسی فوج کے جنرل اسٹاف کی مرکزی آپریشنل ڈائریکٹوریٹ کے نائب سربراہ تھے۔

یہ خبر پڑھیں : روس کے نیوکلیئر پروٹیکشن فورسز کے سربراہ بم دھماکے میں مارے گئے

روسی فوج کا یہ ادارہ یوکرین میں جاری جنگی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

اب تک کی تحقیقات میں چلا کہ روسی جنرل کی گاڑی میں دیسی ساختہ دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا جسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اُڑا دیا گیا۔

دھماکا اس قدر شدید تھا کہ آس پاس کی عمارتوں کی کھڑکیاں لرز گئیں اور مقامی افراد میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں : روس؛ دھماکے میں روس نواز نیم فوجی رہنما سمیت 2 افراد ہلاک

تحقیقات کے مطابق بم میں دھات کے ٹکڑے شامل تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔

59 سالہ جنرل موسکالک کو 2021 میں صدر ولادیمیر پوٹن نے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی تھی۔

یہ جنرل موسکالک ہی تھے جنھوں نے 2015 میں یوکرین کے ساتھ سیز فائر مذاکرات میں روسی فوج کی نمائندگی کی تھی۔

یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں روس کے اندر روسی فوج کے افسران کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ یوکرین نے ماضی میں بھی روسی فوجیوں کو اسی طرح نشانہ بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : روس میں یوکرین مخالف معروف فوجی بلاگر کی بم دھماکے میں ٹارگٹ کلنگ

یوکرین اکثر ان حملوں کو جائز انتقام قرار دیتا ہے لیکن آج کے واقعے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا۔

گزشتہ تین برسوں میں روس میں فوجیوں پر متعدد حملے ہوچکے ہیں جن میں اگست 2022 میں داریا دوگینا اور اپریل 2023 میں ملٹری بلاگر "ولادلین تاتارسکی" کی ہلاکت بھی شامل ہیں۔

دسمبر 2024 میں کیمیکل ویپنز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ایگور کیریلوف کو بھی ایک بم حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

صدر پیوٹن نے اس وقت سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ایسی سنگین کوتاہیاں دوبارہ نہیں ہونی چاہئیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • یوکرین جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے روسی جنرل پُراسرار دھماکے میں ہلاک
  • جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا دو ایٹمی طاقتوں کو مذاکرات کا مشورہ
  • بھارتی رویہ،علاقائی امن واستحکام کو نقصان کاخدشہ ہے:پاکستان
  • عالمی عدالت نے نیتن یاہو کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، مگر اس فیصلے کا احترام امریکا سمیت کوئی نہیں کررہا، فضل الرحمان
  • ایم ڈبلیو ایم وفد کی خالد خورشید سے ملاقات، اہم علاقائی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال
  • جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کی جانب سے فیصل آباد میں صاف پانی کی فراہمی اور تقسیم کےنظام کی تقریب
  • واشنگٹن: وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں
  • علاقائی راہداریوں، تجارتی روابط اور جنوبی-جنوبی تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب
  • کارتک آریان اچھا دھاری ناگ کا روپ دھارنے کو تیار
  • پوپ فرانسس ۔۔عالمی امن کا داعی