ترک صدر کی گاڑی ڈرائیو کرنا ناقابلِ فراموش لمحہ ہے: آصفہ بھٹو زرداری
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
پاکستان کی خاتونِ اوّل آصفہ بھٹو زرداری نے ترک صدر رجب طیب اردوان کی گاڑی ڈرائیو کرنے کو ناقابلِ فراموش لمحہ قرار دے دیا۔
فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر پاکستانی خاتونِ اوّل نے اس یادگار لمحے کی ویڈیو شیئر کی اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو میں ترک صدر اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کو آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ گاڑی میں سوار دیکھ سکتے ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Aseefa Bhutto Zardari (@aseefabz)
ویڈیو میں خاتونِ اوّل آصفہ بھٹو زرداری گاڑی چلا رہی ہیں جبکہ رجب طیب اردوان ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہیں اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری پیچھے والی نشست پر موجود ہیں۔
پاکستانی خاتونِ اوّل نے ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا ہے کہ صدر طیب اردوان کے دورۂ پاکستان کے موقع پر ان کی گاڑی چلانا ایک یادگار لمحہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر 2 صدور کے ساتھ یہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتی۔
خیال رہے کہ مذکورہ ویڈیو ترکیہ کے صدر رجب طبیب اردوان کے حالیہ دورے کی ہے، جب انہوں نے الیکٹرک گاڑی صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو تحفے میں دی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بھٹو زرداری
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔