حکومت کا ججز کے خلاف ریفرنس لانے کا کوئی ارادہ نہیں، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد: مسلم لیگن کےرہنما سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ججز کے خلاف ریفرنس لانے کا کوئی ارادہ نہیں، چیف جسٹس سے آئی ایم ایف سے ملاقاتیں غیر معمولی ہیں مگر ایسی صورتحال سے ہمیں کس نے دوچار کیا؟
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججز کے خلاف ریفرنس لانے کا کوئی ارادہ نہیں اگر ایسا ارادہ ہوتا تو حکومت ضرور کہہ دیتی، ایسی کارروائی خفیہ نہیں ہوتی اس کا طریقہ کار ہوتا ہے اس طرح کی کسی کارروائی پر نہ ہی سوچا جا رہا ہے اور کابینہ میں بھی اس حوالے سے بات نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے یہ ضرور کہا تھا کہ ججز کا کنڈیکٹ ایسا ہے کہ ریفرنس کے زمرے میں آ سکتا ہے مگر وزیر قانون نے اس کی وضاحت بھی کر دی کہ حکومت ریفرنس نہیں لارہی اگر ایسا منصوبہ ہوگا تو سامنے آجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کا 26 ویں ترمیم سے کچھ لینا دینا نہیں، جو جج آتا ہے وہ اپنی سینیارٹی لے کر آتا ہے، تبادلے سے کسی کی سینیارٹی تبدیل نہیں ہوجاتی یہ سب 1973ء کے آئین کے تحت ہو رہا ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کی آئی ایم ایف سے ملاقاتیں کسی حد تک تو غیر معمولی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال سے کس نے دوچار کیا؟ ایک شخص نے 4 سال ملک کی معیشت کو زوال کی پستیوں میں دکھیلا، آپ نے ہمیں اس سطح پر لا کر کھڑا کیا، ہم ان شاء اللہ اس صورتحال سے نکلیں گے ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں کسی اور کے محتاج ہوجائیں تو بہت سی چیزوں پر کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف والوں نے آئی ایم ایف کو خطوط کیوں لکھے؟ اب بھی یہ آئی ایم ایف کو ڈوزیئر دے رہے ہیں، پی ٹی آئی والے بتائیں کہ ڈوزیئر میں کیا لکھ رہے ہیں؟ ہم تو آئی ایم ایف کو چھوڑ چکے تھے، آئی ایم ایف کی زنجیریں ہمارے پاؤں میں کس نے باندھی ہیں؟بتایا جائے کہ پی ٹی آئی نے ڈوزیئر کیوں خفیہ رکھا ہوا ہے؟
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو بھڑکایا گیا کہ پاکستان کو پیسے نہ دو، جس کو پاکستان سے ہمدردی ہو وہ جل جائے گا لیکن ایسا کام نہیں کرے گا، جو کام یہ کر رہے کیا کسی نے ایسا کام کیا؟ ان زنجیروں کو کھولنے میں ہمیں ٹائم تو لگے گا، دو سال کے بعد صورتحال زیادہ واضح ہو جائے گی، ہم پاکستان کو خودی کے اس مقام پر لے جائیں گے جہاں وہ 2016ء میں کھڑا تھا۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمیں تو پی ٹی آئی والے فارم 47 کی حکومت کہتے ہیں، ہمیں بتائیں کہ جہاں پی ٹی آئی جیتی وہاں الیکشن کس نے کرائے؟ پی ٹی آئی والے مذاکرات کے لیے نہیں بنے، اب بھی یہ سول نا فرمانی کی کال پر قائم ہیں، تخریب کاری، تشدد، آئی ایم کو خطوط لکھنے میں یہ خوش ہیں، ہم نے پی ٹی آئی والوں کے لیے اچھی چیزیں سوچی ہوئی تھیں مگر انہوں ںے مذاکرات ختم کردیے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کو پی ٹی ا ئی نے کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ دوم)
گزشتہ بار افریقی نوجوانوں میں مقبول گنی بساؤ کے صدر کیپٹن ابراہیم ترورے کی سوشل میڈیا پر وائرل تقریر کا پہلا حصہ پیش کیا گیا۔یہ دوسرا حصہ پڑھیے اور اگلی بار تیسرا اور آخری حصہ۔
میرے افریقیو ،
گھانا تا زیمبیا اور سینیگال تا کینیا ایک ہی ڈرامہ چل رہا ہے۔حکومتوں کو پانی کی نجکاری پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ غیر ملکی کمپنیاں منافع کما سکیں۔سستی درآمدات کے ذریعے کسانوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔مقامی صنعتوں پر پھلنے سے پہلے ہی قاتلانہ حملہ ہو جاتا ہے۔مشورہ دیا جاتا ہے کہ بجٹ کو متوازن بنانے کے لیے ترقیاتی بجٹ کم کریں تاکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائی بروقت ہو سکے۔
عجیب بات ہے کہ یہ ادائی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔اگر ہم اس کے خلاف مزاحمت کی جرات کریں ، آپ کے تجویز کردہ نسخوں پر سوال اٹھائیں یا تجاویز نہ مانیں تو ہم بلیک لسٹ ہو جاتے ہیں ، ہماری کریڈٹ ریٹنگ نیچے آ جاتی ہے ، ہماری کرنسی کی قدر پر حملہ ہوتا ہے اور ہمارے رہنماؤں کو نام نہاد بین الاقوامی میڈیا انتہا پسند ، سنکی اور پاپولسٹ قرار دے کر مطعون کرتا ہے۔
اس سے بڑی انتہاپسندی کیا ہوگی کہ ایک ملک کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے عوام کا پیٹ بھرنے سے پہلے قرض کا سود چکانے کی فکر کرے۔ چنانچہ ہماری نئی نسل کا اپنے روزگاری مستقبل اور سیاست پر سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ ان کی قیادت عوام کو جواب دینے سے پہلے بینکوں کو جوابدہ ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کو بھی ویٹو کرتے ہو۔آپ افریقی پالیسی بنانے والے غیر منتخب گورنر ہو۔ ہم کب تک برداشت کریں کہ ہمیں ہی دیے گئے قرضوں سے بھاری مشاہرہ پانے والے بین الاقوامی مشیر ہماری پالیسیاں بنائیں جب کہ ہمارے اساتذہ کو تنخواہ کے لالے پڑے ہوں۔ہم ان اداروں کے آگے مزید کیوں جھکیں جو ہمارے شہریوں کے بجائے اپنے شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں۔
میں آئی ایم ایف سے صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنا اقتدارِ اعلیٰ واپس لینا چاہتے ہیں بھلے اس کا مطلب آپ کے قرضوں کے بغیر ہماری شرح ترقی میں سست رفتار اضافہ کی کیوں نہ ہو۔مگر تب یہ ہماری شرحِ ترقی ہو گی۔وقتی تکلیف تو ہو گی مگر یہ آزاد ہونے کا درد ہو گا۔افریقہ کو آقا نہیں شراکت دار چاہئیں۔
ہم اس نظام میں پیدا ہوئے ہیں جو ہم نے نہیں بنایا۔یہ نظام معاہدوں ، من مانے قوانین اور اداروں کا جال ہے۔جب نوآبادکار رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے شفافیت کے بجائے ایسا نظام چھوڑ گئے جو انھیں مسلسل فائدہ پہنچاتا رہے۔
مسئلہ صرف آئی ایم ایف میں اصلاحات کا نہیں بلکہ تجارتی ، مالیاتی ، قرضہ جاتی قوانین کے ڈھانچے میں سدھار کا ہے۔موجودہ مالیاتی ڈھانچہ خدائی یا فطری منصوبہ نہیں بلکہ طاقتور انسانوں کا مسلط کردہ ہے۔ وہی طاقت ور تعین کرتے ہیں کہ کس شے کی کیا قیمت ہو اور کسے ملنی چاہیے۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایسا براعظم جس کی ساٹھ فیصد زمین زرخیز ہے اب تک خوراک میں خود کفیل کیوں نہیں ؟ ہم سونے ، ہیروں ، تیل اور لیتھیم کے ذخائر پر بیٹھنے کے باوجود بھی محتاج کیوں ہیں ؟ کیونکہ کھیل کبھی شفاف نہیں تھا۔
ہمیں صنعتی مصنوعات بنانے کے بجائے خام مال پیدا کرنے والے خطے میں تبدیل کر دیا گیا۔ہمیں عالمی معیشت میں ایک مخصوص کردار دیا گیا جیسے کسی المیہ کھیل میں اداکار کو دیا جاتا ہے۔یعنی تم صرف اگاؤ گے ، پروسیسنگ ہم کریں گے ، تم ہاتھ پھیلاؤ گے ہم قرضہ دیں گے۔جب بھی ہم اس کھیل کا اسکرپٹ دوبارہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو جرمانہ بھرنا پڑتا ہے ، کریڈٹ ایجنسیز ہماری ریٹنگز گھٹا دیتی ہیں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لابی پابندیوں کی دھمکی دیتی ہے ، ہائی ٹیک کمپنیاں اپنا سرمایہ نکال لیتی ہیں۔آپ کا میڈیا ہمیں پاگل کہتا ہے۔
مگر اس سے زیادہ غیر مستحکم دنیا اور کیا ہو گی کہ ایک اعشاریہ چار ارب انسانوں کا براعظم ماحولیات کی ابتری میں سب سے کم اور اس کے نقصانات میں سب سے زیادہ حصہ دار ہے۔اس سے زیادہ غیر منطقی کیا ہو گا کہ پوری دنیا کے لیے کوکا اگانے والے کسان خود اپنے بچوں کے لیے چاکلیٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔اس سے بڑی ناانصافی کیا ہو گی کہ جن ممالک نے ہمیں ماضی میں نوآبادی بنایا آج وہی ہمیں گڈ گورننس کا لیکچر دے رہے ہیں اور دوسری جانب افریقی اشرافیہ کی چرائی ہوئی دولت بنا کوئی سوال پوچھے اپنے بینکوں میں رکھ رہے ہیں۔اور وہ اس نظام کو میریٹوکریسی بھی کہتے ہیں۔
وہ ہم سے کہتے ہیں محنت کرو ، شفاف بنو اور مزید سرمایہ کاری کے مواقع بڑھاؤ۔مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ عالمی تجارتی قوانین کبھی بھی شفاف نہیں رہے۔ عالمی ادارہِ تجارت ( ڈبلیو ٹی او ) عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ریفریز انھیں ٹیموں کے طرف دار ہیں جو ہمیشہ جیتتی ہیں۔
مثلاً جب ہم نے اپنے کسانوں کو سبسڈی دینے کی کوشش کی تو ہمیں کہا گیا کہ اس سے کھلی مارکیٹ پر منفی اثر پڑے گا۔مگر امریکا اور یورپ اپنے کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دے رہے ہیں اور اسے تحفظ کا نام دیتے ہیں۔جب ہم نے روزگار پیدا کرنے کے لیے سرکاری شعبے میں صنعتیں لگانے کی کوشش کی تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے معاشی جمود بڑھے گا۔جب کہ ان کی امیر ترین نجی کارپوریشنز سرکاری پیسے سے چلنے والے ناسا ، سرکاری جنگوں ، سرکاری ٹھیکوں اور سرکاری ریسرچ اداروں کی تحقیق سے پورا تجارتی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔جب ہم کانکنی کے استحصالی معاہدوں پر نظرِ ثانی کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم کاروبار دشمن ہیں۔مگر اس سے بڑی دشمنی کیا ہو گی کہ آپ سو ڈالر مالیت کی معدنیات نکالیں اور ہمیں تین ڈالر رائلٹی دے کر چلتے بنیں۔
افریقہ آپ سے رحم کھانے کو نہیں کہہ رہا۔ہم صرف شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ہم خیراتی اترن نہیں برابری چاہتے ہیں۔ہم اس کرہِ ارض کا سب سے توانا براعظم ہیں۔مگر عالمی معیشت ہم سے ایسا سلوک کر رہی ہے جیسے ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں۔ ہمارے مزدور ، ہماری زمین ، ہماری اقدار ناقص نہیں بلکہ نظام ناقص ہے۔ہم آپ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتے مگر مزید زنجیریں پہننے کو تیار نہیں۔
ہم سنکارا ، نکروما ، لوممبا اور منڈیلا کے بچے ہیں۔ محض زندہ رہنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔۔اس کے لیے اب ہمیں کسی کی اجازت اور افریقہ کو اب کوئی نیا نجات دھندہ یا تازہ لیکچر یا جکڑبند قرضہ نہیں چاہیے۔ہم خود کو تمہارے برابر تسلیم کروانے کے لیے خوشامد نہیں کریں گے۔ہم شراکت داری کے خلاف نہیں مگر ہم اس کی شرائط ازسرِنو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
کوئی ملک بااختیار نہیں کہلا سکتا اگر اپنے لوگوں کا پیٹ نہ بھر سکے۔ہم کیسے آزاد کہلا سکتے ہیں جب کسی جگہ پڑنے والا قحط ہماری روٹی کی قیمت طے کرے۔نوآبادیاتی نظام نے جو سب سے خطرناک ترکہ چھوڑا وہ بندوق نہیں بلکہ سلیبس ہے۔ایسا نصاب جو ہمیں غیر ملکی بادشاہوں کے بارے میں تو خوب بتاتا ہے مگر ہمارے ہیروز کو نظرانداز کرتا ہے۔نصاب میں غیر ملکی فلسفیوں کی تعریف ہے مگر افریقی دانش کا ذکر غائب ہے۔
ہمیں تعلیمی سلیبس دوبارہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہو سکیں۔اپنی تاریخ پر فخر کر سکیں اور اعتماد کے ساتھ تخلیقی قوت استعمال کر سکیں۔بچوں کو کوڈنگ ضرور سکھائیں مگر علمِ زراعت بھی پڑھائیں۔ہمارے اسکول آزادی کی لیبارٹری ہونے چاہئیں۔ تعلیم محض امتحان میں کامیابی تک محدود نہ ہو بلکہ اپنی قسمت خود تعمیر کرنے کے قابل بنا سکے۔
ہمارا جو خام مال باہر جاتا ہے وہی خام مال کھلی تیار مصنوعات کی شکل میں دس گنا قیمت پر ہمیں لوٹایا جاتا ہے۔ہمیں مقامی صنعت کاری اور ایجاد پسندی کی جانب آنا ہو گا۔صرف معدنیات کی ملکیت کافی نہیں۔منافع کمانے کے لیے ہمیں دھاتوں کی ریفائننگ اور پیکیجنگ کی اپنی صنعت چاہیے۔ہمیں افریقی سرمایہ کاری اور نوزائیدہ صنعتوں کو تحفظ دینا ہو گا اور غیرضروری اشیا کی درآمدی عادت کو کم کرنا ہو گا۔یہی ایک طریقہ ہے روزگار پیدا کرنے اور افریقہ کی دولت افریقیوں کے لیے استعمال کرنے کا۔
منقسم افریقہ ہمیشہ کمزور رہے گا۔ہم چون ممالک الگ الگ آوازوں کی شکل میں دنیا سے اجتماعی سودے بازی نہیں کر سکتے۔ہمیں سیاسی ، اقتصادی ، دفاعی اور سائنسی تعاون کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔اس کے لیے بین ال افریقہ ادارہ سازی کرنا ہو گی۔ہم تب تک آزاد نہیں ہو سکتے جب تک مقامی دانش پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھیں گے۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)