اسلام آباد: مسلم لیگن کےرہنما سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ججز کے خلاف ریفرنس لانے کا کوئی ارادہ نہیں، چیف جسٹس سے آئی ایم ایف سے ملاقاتیں غیر معمولی ہیں مگر ایسی صورتحال سے ہمیں کس نے دوچار کیا؟
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججز کے خلاف ریفرنس لانے کا کوئی ارادہ نہیں اگر ایسا ارادہ ہوتا تو حکومت ضرور کہہ دیتی، ایسی کارروائی خفیہ نہیں ہوتی اس کا طریقہ کار ہوتا ہے اس طرح کی کسی کارروائی پر نہ ہی سوچا جا رہا ہے اور کابینہ میں بھی اس حوالے سے بات نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے یہ ضرور کہا تھا کہ ججز کا کنڈیکٹ ایسا ہے کہ ریفرنس کے زمرے میں آ سکتا ہے مگر وزیر قانون نے اس کی وضاحت بھی کر دی کہ حکومت ریفرنس نہیں لارہی اگر ایسا منصوبہ ہوگا تو سامنے آجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کا 26 ویں ترمیم سے کچھ لینا دینا نہیں، جو جج آتا ہے وہ اپنی سینیارٹی لے کر آتا ہے، تبادلے سے کسی کی سینیارٹی تبدیل نہیں ہوجاتی یہ سب 1973ء کے آئین کے تحت ہو رہا ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کی آئی ایم ایف سے ملاقاتیں کسی حد تک تو غیر معمولی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال سے کس نے دوچار کیا؟ ایک شخص نے 4 سال ملک کی معیشت کو زوال کی پستیوں میں دکھیلا، آپ نے ہمیں اس سطح پر لا کر کھڑا کیا، ہم ان شاء اللہ اس صورتحال سے نکلیں گے ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں کسی اور کے محتاج ہوجائیں تو بہت سی چیزوں پر کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف والوں نے آئی ایم ایف کو خطوط کیوں لکھے؟ اب بھی یہ آئی ایم ایف کو ڈوزیئر دے رہے ہیں، پی ٹی آئی والے بتائیں کہ ڈوزیئر میں کیا لکھ رہے ہیں؟ ہم تو آئی ایم ایف کو چھوڑ چکے تھے، آئی ایم ایف کی زنجیریں ہمارے پاؤں میں کس نے باندھی ہیں؟بتایا جائے کہ پی ٹی آئی نے ڈوزیئر کیوں خفیہ رکھا ہوا ہے؟
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو بھڑکایا گیا کہ پاکستان کو پیسے نہ دو، جس کو پاکستان سے ہمدردی ہو وہ جل جائے گا لیکن ایسا کام نہیں کرے گا، جو کام یہ کر رہے کیا کسی نے ایسا کام کیا؟ ان زنجیروں کو کھولنے میں ہمیں ٹائم تو لگے گا، دو سال کے بعد صورتحال زیادہ واضح ہو جائے گی، ہم پاکستان کو خودی کے اس مقام پر لے جائیں گے جہاں وہ 2016ء میں کھڑا تھا۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمیں تو پی ٹی آئی والے فارم 47 کی حکومت کہتے ہیں، ہمیں بتائیں کہ جہاں پی ٹی آئی جیتی وہاں الیکشن کس نے کرائے؟ پی ٹی آئی والے مذاکرات کے لیے نہیں بنے، اب بھی یہ سول نا فرمانی کی کال پر قائم ہیں، تخریب کاری، تشدد، آئی ایم کو خطوط لکھنے میں یہ خوش ہیں، ہم نے پی ٹی آئی والوں کے لیے اچھی چیزیں سوچی ہوئی تھیں مگر انہوں ںے مذاکرات ختم کردیے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کو پی ٹی ا ئی نے کہا کہ تھا کہ

پڑھیں:

سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی

سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔

حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔

ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔

یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔

ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔

لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔

وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔

اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔

لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔

کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • ایڈووکیٹ ایمان مزار ی کے خلاف لائسنس منسوخی کا ریفرنس دائر کردیا گیا
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • حکومت کا توشہ خانہ میں جمع تحائف کا مکمل ریکارڈ عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین گنڈاپور
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ