انرجی کنزرویشن بلڈنگ کوڈ کا باقاعدہ آغاز
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پائیدار شہری ترقی کی جانب ایک اہم قدم – وزیر برائے توانائی سندھ سید ناصر حسین شاہ نے انرجی کنزرویشن بلڈنگ کوڈ 2023 (ECBC-2023) کا باضابطہ طور پر آغاز کردیا۔ وزیر توانائی نے اپنے خطاب میں تمام قومی اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کاوشوں کا اعتراف کیا اور پائیدار ترقی کے لیے سندھ حکومت کی لگن کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ای سی بی سی کا آغاز اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ توانائی کے تحفظ کے حوالے سے ہماری وسیع تر کوششوں کے کلیدی پائیدار ترقیاتی اہداف اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (NEECA) کی جانب سے بلڈنگ انرجی ریسرچ سینٹر (BERC) کے تعاون سے کراچی میں منعقد تقریب نے پالیسی سازوں، صنعت کے ماہرین، اور اسٹیک ہولڈرز کو سندھ میں توانائی سے موثر تعمیراتی طریقوں کی جانب راستہ ہموار کرنے کے لیے اکٹھا کیا۔ ای سی بی سی2023 کا اجرا توانائی کے چیلنجوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے عزم میں ایک اہم سنگ میل کی نمائندگی کرتا ہے۔ توانائی کی بچت کے لیے سخت معیارات قائم کرنے سے اس کوڈ سے عمارتوں میں توانائی کی طلب کو 30 فیصد تک کم کرنے کی امید ہے جو ماحول اور معیشت دونوں کے لیے خاطر خواہ فوائد کی پیشکش کرتی ہے۔ تقریب کا آغاز NEECA کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار معظم کے خیر مقدمی خطاب سے ہوا جنہوں نے پاکستان کے توانائی کے مستقبل کے لیے ای سی بی سی2023 کے وسیع تر مضمرات پر روشنی ڈالی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
اسلام آباد:پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔
حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29 ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔
پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔
توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔
توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔