مالدیپ بہت چھوٹا ملک ہے۔ چھوٹے ملک کے مسائل بھی کم ہوتے ہیں مگر مالدیپ کو ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔ اُس کا وجود سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے ہاتھوں خطرے میں ہے۔ اگر سمندروں کی سطح یونہی بلند ہوتی رہی تو تیس چالیس سال میں مالدیپ پورا کا پورا ڈوب جائے گا۔ مالدیپ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ یہ تو ہوا بنیادی مسئلہ؛ مگر ایک اور مسئلہ بھی بنیادی نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
مالدیپ کو توازن برقرار رکھنا ہے۔ ایک طرف بھارت ہے اور دوسری طرف چین۔ دو بڑی طاقتوں سے تعلقات میں بھی توازن برقرار رکھنا ہے اور اشتراکِ عمل کا دائرہ بھی وسیع کرنا ہے۔ مالدیپ نے دو ڈھائی سال کے دوران بھارت کو ناراض کیا ہے اور چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر اب معاملات واپس آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت کو نظر انداز کرنا مالدیپ کے لیے کسی بھی طور ممکن نہیں۔
مالدیپ کے چند وزرا اور سرکاری افسران نے گزشتہ برس بھارت کے وزیر ِاعظم نریندر مودی کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس دیے تھے۔ ان ریمارکس کی بنیاد پر دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ نریندر مودی کی توہین پر بھارتی حکومت نے اپنے سیاحوں کو مالدیپ جانے سے روک دیا تھا۔ اس اقدام سے مالدیپ کا معاشی بحران غیر معمولی شدت اختیار کرگیا کیونکہ مالدیپ کی معیشت 70 فی صد سے زائد حد تک سیاحت پر انحصار کرتی ہے اور بھارت سے آنے والے سیاحوں سے مالدیپ کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔
جب بھارت کے سیاحوں کو مالدیپ جانے سے روک دیا گیا تو مالدیپ کی قیادت نے چین سے رابطہ کیا۔ چینی قیادت کے لیے مالدیپ میں قدم جمانے کا یہ اچھا موقع تھا۔ اُس نے اعلان کیا کہ بھارتی سیاح نہیں آتے تو نہ آئیں، چینی سیاح مالدیپ کا رخ کریں گے اور مالدیپ کی معیشت کو نئی زندگی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ یہ سلسلہ کچھ دن چلا مگر خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ چین پہلے ہی مالدیپ میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرچکا ہے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ وہ ایسا کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتا تھا جس سے بھارت سے اس کے معاملات مزید بگڑیں۔ دونوں بڑے ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات موجود ہیں، اس حوالے سے کشیدگی بھی رہی ہے اور معاملات دو بدو لڑائی تک بھی پہنچتے رہے ہیں۔
گزشتہ برس بھارت کے وزیر ِخارجہ ایس جے شنکر نے مالدیپ کا دورہ کرکے معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون اور اقتصادی اشتراکِ عمل کے معاہدے ہیں۔ ان معاہدوں پر نظر ِثانی کے لیے مالدیپ کی اپوزیشن نے پارلیمنٹ سے رجوع کیا تو بھارتی قیادت نے معاملات کو درست کرنے کی طرف تیزی سے قدم بڑھایا۔ بھارت اِس مرحلے پر کوئی نیا بکھیڑا نہیں پالنا چاہتا۔ مالدیپ کا وہ روایتی حلیف اور اقتصادی پارٹنر رہا ہے۔ بھارت اگر لاتعلق رہتا تو معاملات ہاتھ سے نکل سکتے تھے۔ وہ چین کے لیے گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ چین نے مالدیپ میں (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹیو کے تحت) بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے کئی منصوبے مکمل کیے ہیں اور ایک بڑی بندرگاہ بھی تعمیر کرکے دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چین نے کئی دوسرے منصوبے بھی مکمل کیے ہیں۔ جاپان بھی مالدیپ میں بہبودِ عامہ کے حوالے سے کئی منصوبوں پر کام کرتا رہا ہے۔
جنوری میں مالدیپ کے وزیر ِخارجہ اور وزیر ِدفاع نے بھارت کا دورہ کیا تھا جس کا بنیادی مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخی کو دور کرنا تھا۔ وزیر ِاعظم نریندر مودی کی خصوصی ہدایات کے تحت بھارت کی کابینہ کے ارکان اور بیورو کریسی نے مالدیپ کے وزرا کا اچھی طرح خیرمقدم کیا، بہت سے معاملات پر بات چیت ہوئی۔ کشیدگی کم کرنے پر اتفاق ہوا اور اقتصادی معاملات بہتر بنانے پر سیر حاصل گفت و شنید ہوئی۔
بھارتی قیادت اس مرحلے پر کسی بھی نوع کی سفارتی مہم جوئی کے موڈ میں نہیں۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد کا بھارتی قیادت بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور بحر ِ ہند کے خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم تر کرنے کے موڈ میں ہے۔ ایسے میں اس بات کی گنجائش برائے نام ہے کہ مالدیپ یا کسی بھی اور ملک سے معاملات خواہ مخواہ خراب کیے جائیں یعنی ایک نیا محاذ کھولا جائے۔
چین متذبذب رہا ہے۔ یہ بات مالدیپ کی قیادت سمجھتی ہے اور اِسی لیے اُس نے چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بجائے بھارت کی طرف دوبارہ جھکنے کو ترجیح دی ہے۔ بھارت پر ماضی میں مالدیپ کے معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ چین پر یہ الزام کبھی عائد نہیں کیا گیا۔ چین نے مالدیپ کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط تو بنایا ہے، اپ گریڈ بھی کیا ہے تاہم اُس کی سیاست اور معاشرت میں مداخلت سے مکمل طور پر گریز کیا ہے۔
بھارت اور مالدیپ کو غیر معمولی قربت کی روشنی میں ساتھ ہی رہنا ہے۔ ایسے میں مالدیپ کی قیادت کے لیے بھارت ہی بہترین آپشن ہے۔ اُسے بلینسنگ ایکٹ کرنا ہے یعنی بیرونی تعلقات میں مکمل توازن برقرار رکھنا ہے۔ بھارت اور چین کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک سے بھی اُسے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاشی اور اسٹرٹیجک معاملات میں اُسے بھارت یا چین پر مکمل انحصار پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ مالدیپ کی قیادت کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے دانش مندانہ فیصلے کرنے کی اہلیت سے متصف ہے۔ دیکھتے ہیں اِس محاذ پر وہ کس حد تک کامیاب رہتی ہے اور کس طور بھارت اور چین سے تعلقات میں توازن برقرار رکھتے ہوئے خطے کے دیگر ممالک کی طرف بھی دوستی اور اشتراکِ عمل کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ (ساؤتھ ایشین وائسز)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مالدیپ کی قیادت توازن برقرار میں مالدیپ مالدیپ میں تعلقات میں مالدیپ کے مالدیپ کا نے مالدیپ کرنے کی بھارت ا رہا ہے کے لیے کی طرف ہے اور
پڑھیں:
اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس؛ شرکا نے مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کردیا
پشاور:اے این پی کے تحت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا نے مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کردیا۔
مائنز اینڈ منرلز بل پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔
اے پی سی میں شریک سیاسی جماعتوں نے مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کردیا۔ میاں افتخار حسین نے کہا کہ مائنز اینڈ منرل بل خیبر پختون خوا کی معدنیات ت پر وفاق کا کنٹرول دینا ہے۔ یہ بل صوبے کی معدنیات و وسائل پر قبضے کے برابر ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاک فوج کے زیر انتظام کمرشل سرگرمیوں کی تفصیل عوام کے سامنے لائی جائے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے بھی مطالبہ ہے کہ اس بل کو مسترد کیا جائے، یہ یہ زبردستی منظور کیا گیا تو صوبہ بھر میں تحریک چلائی جائے گی۔
قبل ازیں کانفرنس میں شرکت کے لیے پی ٹی آئی کا وفد صوبائی جنرل سیکرٹری علی اصغر خان کی قیادت میں پہنچا۔ جے یو آئی کی جانب سے مولانا عطا الرحمٰن، پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بشریٰ گوہر، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، ن لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی شریک ہوئے۔
اے پی سی کی صدارت اے این پی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے کی۔ کانفرنس کا مقصد صوبے کے معدنی وسائل سے متعلق مجوزہ ایکٹ پر تمام فریقین کی مشاورت حاصل کرنا تھا۔
کانفرنس میں طارق احمد خان کی قیادت میں قومی وطن پارٹی کا وفد، عادل محمود کی قیادت میں مزدور کسان پارٹی، خورشید کاکاجی کی قیادت میں پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی، بیرسٹر عنایت اللہ کی قیادت میں عوامی ورکرز پارٹی کا وفد شریک تھا۔ علاوہ ازیں چیمبر آف کامرس، وکلا، ماہرینِ معدنیات اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک تھے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں تاجر تنظیموں اور مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کا مشترکہ اعلانیہ بھی جاری کیا جائے گا۔