اسلام ٹائمز: رجعت کا مفہوم ہے "واپسی" یا "پلٹنا"۔ شیعہ عقائد میں رجعت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کچھ افراد یا قومیں قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے، جن میں بعض بزرگ پیغمبر، امام یا صالح لوگ شامل ہوں گے۔ رجعت میں، اہل بیت (علیہم السلام) اور بعض دیگر مقدس شخصیات دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور امام زمانہ (علیہ السلام) کی مدد کریں گے۔ اس دوران کچھ افراد، جو ظلم و فساد کے مرتکب ہوئے ہوں گے، انہیں سزا ملے گی۔ تحریر: سید عدیل عباس نقوی امام زمانہ (علیہ السلام) کا ظہور اور رجعت شیعہ عقائد میں اہم موضوعات ہیں۔ یہ دونوں مفاہیم اسلامی تاریخ اور موعودہ امام کی حکومت سے جڑے ہوئے ہیں۔ امام زمانہ (علیہ السلام) کا ظہور: شیعہ مسلمانوں کے مطابق، امام (علیہ السلام)، جو امام دوازدہم ہیں، غیبت میں ہیں اور ان کا ظہور قیامت سے پہلے ہوگا۔ امامؑ زمانہ کا ظہور اُس وقت ہوگا جب دنیا میں ظلم و فساد کا خاتمہ کرنے کے لئے اللہ کا حکم آئے گا اور امام (علیہ السلام) لوگوں کو عدل و انصاف کے ساتھ حکومت قائم فرمائیں گے۔ امامؑ زمانہ کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہوگا جب دنیا میں ظلم و فساد اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہوگا، اور دنیا کو ایک عادل امام کی ضرورت ہوگی۔ امام مہدی (علیہ السلام) کا ظہور ان ظلم و فساد کے خلاف ایک معجزہ ہوگا اور ان کے ذریعے اسلام کی اصل حقیقت اور عدل و انصاف کا قیام ہوگا۔ رجعت: میری اس تحریر کا مقصد عقیدہ رجعت پر خاص طور پر لکھنا ہے کیوںکہ اب تک ہم مشکل سے ظھور کو ہی صحیح معنوں میں درک نہیں کر پائے اور رجعت تو ظھور کے بعد کا مرحلہ ہے، جس سے عام عوام کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا طبقہ بھی ناواقف ہے جس کو ہم اجمالی طور پر اس تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ رجعت کا مفہوم ہے "واپسی" یا "پلٹنا"۔ شیعہ عقائد میں رجعت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کچھ افراد یا قومیں قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے، جن میں بعض بزرگ پیغمبر، امام یا صالح لوگ شامل ہوں گے۔ رجعت میں، اہل بیت (علیہم السلام) اور بعض دیگر مقدس شخصیات دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور امام زمانہ (علیہ السلام) کی مدد کریں گے۔ اس دوران کچھ افراد، جو ظلم و فساد کے مرتکب ہوئے ہوں گے، انہیں سزا ملے گی۔ شیعہ مکتبہ فکر میں رجعت کو ایک مخصوص قسم کی نشاۃ ثانیہ سمجھا جاتا ہے، جس میں خاص طور پر امام حسین (علیہ السلام) اور اہل بیت کے دشمنوں کی دوبارہ دنیا میں آمد اور ان سے انتقام کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ بنیادی طور پر اہل تشیع کی خاص تشریح ہے اور مختلف مسلم مکاتب فکر میں اس کی تفصیلات میں فرق پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، رجعت میں بعض منتخب افراد یا صالحین بھی دوبارہ دنیا میں آئیں گے، جیسے کہ امام علی (علیہ السلام)، امام حسن (علیہ السلام)، اور دیگر مقدس شخصیتیں، تاکہ وہ امام (علیہ السلام) کی مدد کریں اور ان کی حکومت میں عدل و انصاف کا قیام کریں۔ رجعت کے چند اہم نکات: ظالموں کی واپسی: رجعت میں وہ لوگ بھی دوبارہ آئیں گے جنہوں نے اہل بیت (علیہ السلام) کے ساتھ ظلم و زیادتی کی تھی، اور ان پر عذاب یا سزا دی جائے گی۔ صالحین کی واپسی: بعض خاص صالحین اور اہل ایمان بھی دوبارہ آئیں گے تاکہ امام زمانہ (علیہ السلام) کی نصرت کریں اور عدل و انصاف کے قیام میں مدد کریں۔ امام زمانہ کا ظہور: رجعت کا ایک اہم پہلو امام زمانہ (علیہ السلام) کا ظہور ہے۔ امام (علیہ السلام) کے ظہور کے بعد رجعت کے ذریعے اہل بیت اور بعض بزرگ شخصیات کا دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہوگا۔ مقصد: رجعت کا مقصد ظلم کا خاتمہ، انصاف کا قیام اور امام حسین (علیہ السلام) اور اہل بیت (علیہ السلام) کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا بدلہ لینا ہے۔ رجعت کا عقیدہ قرآن اور حدیث میں:
شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ رجعت کا عقیدہ قرآن اور حدیث میں بھی بعض اشارات کے ذریعے ثابت ہوتا ہے، جیسے کہ قرآن کی بعض آیات جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کچھ لوگ قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اور بعض روایات اور حدیثیں موجود ہیں جن میں رجعت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن میں رجعت کے اشارات: سورہ النمل آیت 83 میں ہے "اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گروہ کو جمع کریں گے ان لوگوں میں سے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے، پھر ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔" سورہ البقرة آیت 259 میں حضرت عزیر (ع) کی 100 سال بعد زندگی کی واپسی کا واقعہ بھی اس کی طرف ایک اشارہ ہے۔ احادیث میں رجعت: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: "جو بھی ہمارے قائم (عج) کے ظہور پر ایمان رکھتا ہے، وہ رجعت پر بھی یقین رکھے۔" امام محمد باقر (ع) سے منقول ہے کہ "رسول اللہ (ص) اور امیرالمؤمنین (ع) ظہور کے بعد دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے۔" رجعت اور امام مہدی (عج): امام مہدی (عج) کے ظہور کے بعد، وہ ظلم و جور کو ختم کریں گے اور ایک عالمی اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ رجعت کا عقیدہ اسلامی تعلیمات میں انصاف کے مکمل ہونے اور الٰہی وعدوں کے پورا ہونے کا ایک حصہ ہے۔ امام مہدی (عج) کے ظہور کے بعد یہ مرحلہ شروع ہوگا، تاکہ دنیا میں عدل و انصاف کی حقیقی تکمیل ہو سکے۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دوبارہ دنیا میں آئیں گے قیامت سے پہلے علیہ السلام عدل و انصاف ظہور کے بعد کچھ افراد اور امام کا ظہور رجعت کا اہل بیت اور بعض کے ظہور کے ساتھ کریں گے کی طرف اور ان ہوں گے
پڑھیں:
یہ غلط ہو رہا ہے
پہلے دنیا ہر دس برس بعد اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کرتی تھی مگر اب بدلاؤ کا عمل بہت تیزی اختیارکرچکا ہے، ہر شے ہی ٹھہراؤ کے معنی سے انجان ہوتی جا رہی ہے، جدیدیت کی جدت بھی مانند پڑنے لگی ہے، نئے اطوار پرانے اور پرانے اطوار فرسودہ بہت کم وقت میں ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی طرح کی تبدیلی جب اپنے روایتی طریقہ کار کے تحت رونما ہوتی ہے تو وہ معاشرے اور اُس کے افراد کو خوشگواری کی نوید سناتی ہے۔
مگر مسلسل آنے والی غیر معمولی تبدیلیاں معاشرے کو صرف اور صرف بربادی کی جانب دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ قدرت نے اس دنیا میں ہونے والے ہر کام کا ایک مخصوص عمل موجود رکھا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، دنیا والوں کی جانب سے قدرتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں زمین پر تباہی کا نزول ناگزیر ہے۔
اس کرہ ارض پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مختلف اقسام کی ایجادات جہاں ایک طرف ابنِ آدم کو سہولیات فراہم کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اُن کے مضر اثرات پوری قومِ انسانی کو شدید نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ انسانوں کا مشترکہ مزاج اس طرزکا ہے کہ وہ تھوڑے فائدے کے آگے بڑے نقصان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب کسی چیز سے اُنھیں بیشمار فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے تو اُن کی آنکھیں اُس کے ہمراہ آنے والی بڑی خرابی کو دیکھنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ہم سبھی نے یہ سن رکھا ہے کہ ’’ لالچ بری بلا ہے‘‘ دراصل مزید اور مزید کی خواہش ہم سے میسر آیا ہوا بھی چھین لیتی ہے، زیادہ کی تمنا انسان کے وجود میں بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔
نعمت کا اصل مزا انتظار میں ہے کیونکہ ہر شے کا فوراً مل جانا زندگی کا حُسن ختم کر دیتا ہے۔ محرومی انسان کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے اور بہتری کی جانب سفر کرنے پر اُکساتی ہے، اس کے علاوہ یہ انسانوں کے اندر قدرکا جذبہ بھی اُجاگر کرتی ہے۔ انسان کا شاکر ہونا اور تھوڑے کو بہت سمجھنا اُس کے ذہنی سکون کے لیے انتہائی اہم ہے، البتہ بِنا محنت، بغیر مانگے اور وقت سے پہلے کیسی چیز کا مل جانا انسان کی طبیعت میں اُچاٹ پن اور بیزاری کو جنم دیتا ہے۔
اگر انسان کا دماغ اور جسم دونوں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے، تبھی وہ صحیح معنوں میں صحت مند گردانا جائے گا، بصورت دیگر وہ خود پر خود ہی بوجھ بن کر رہ جائے گا جسے اُٹھانا اُس کے اعصاب کو تھکا کر شل کردے گا۔ ہر انسانی ترقی قابلِ ستائش نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ تو بِلا ضرورت وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو سکون کے بجائے بے سکونی کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔
تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان کے پاس آسائشیں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں مگر اطمینان اور خوشی کا احساس اپنی انتہا پر موجود تھا، اس کے برعکس زمانہ حال میں بنی نوع انسان کے پاس تقریباً ہر شے بے حساب ہے، ماسوائے چین و سکون کے۔
دورِ ماضی میں جب انسان خوش ہوتا تھا تو سرشاری اُس کے پورے وجود سے عیاں ہوتی تھی اور جب کبھی وہ رنج، پریشانی اور بے چینی کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتا تھا تب وہ رنجیدگی اور دل گیری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہا ہوتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہر انسان اپنے آپ میں ایک بہترین اداکار ہے جن کو اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر ہونے سے روکنا باخوبی آتا ہے، ظہورِ احساسات کے سامنے زبردستی بند باندھنے کے اس عمل نے موجودہ دور کے ہر دوسرے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کر کے رکھ دیا ہے۔
نئے دورکے انسان کی کوئی ذاتی پسند یا ناپسند نہیں ہے بلکہ زمانے کا چلن اُن کا منظورِ نظر بن جاتا ہے، وہ شوق بھی صرف وہی پالتے ہیں جن کو اشرافیہ قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنی جڑوں میں موجود تخلیقی عنصرکی بیدردی سے ناقدری کرتے ہوئے انسان خود سے بہتر لگنے والے افراد کی نقول بننے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہاں ہرکوئی اپنی کھوکھلی ذات کو دنیا کے سامنے سجا، سنوار کر پیش کرنے کے قابل بنانے کے جتن کرنے میں اتنا مصروف ہوچکا ہے کہ اپنے اصل کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے۔ ماڈرن ورلڈ کے انسانوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو مسلسل اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلائیں گے تو وہ اُنھیں بھول جائیں گے تبھی وہ جگ بھاتے معیار پر پورا اُترنے کی کوششوں میں خود کو ہلکان کر کے رکھ دیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ آج کا انسان اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جی رہا ہے تو اس میں قطعی مبالغہ آراء نہیں ہوگی۔جدید دنیا نے یہاں بسنے والے تقریباً تمام نوجوانوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے، ہنسنے کھیلنے اور موج مستی کی عمر میں وہ اپنے دماغ پر بلاضروری بوجھ ڈال کر وقت سے پہلے سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
انٹرنیٹ سرفنگ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری نوجوان نسل کے دماغ کوکھانے کا کام کر رہے ہیں جب کہ موبائل اسمارٹ فون، ایٹم بم سے کم خطرناک ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ گزرے ہوئے وقتوں میں کبھی موبائل فون رابطے کا ذریعہ مانے جاتے تھے لیکن اب یہ ہماری ذہنی و جسمانی صحت اور نسلوں کو تباہ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے انسان کو سماج میں متحرک تو نہیں کیا بلکہ الٹا ایسی بھیانک تنہائی میں جھونک دیا ہے جہاں اُن کا جسم اور روح بھی ایک دوسرے سے انجان انجان دکھائی دیتے ہیں۔روشنی جب تک نورکی حیثیت سے ہماری زندگیوں میں رمق بکھیرتی ہے تب تک ہی وہ قلب کو بھاتی ہے، ساتھ ہمارے پورے وجود کو منور اور پر رونق بنا کر خوشنمائی کا پیکر بنا دیتی ہے جب کہ اُسی روشنی کی زیادتی اور بھڑکیلا پن ہماری آنکھوں کو چندھیا کر بینائی سے محروم کردیتا ہے۔
کسی بھی شے کو ضرورت سے بڑھ کر استعمال کرنا اُس کو امرت سے زہر میں تبدیل کر دیتا ہے، لفظ معتدل کو اُس کے صحیح معنوں اور پوری افادیت کے ساتھ زندگی میں اپنانے سے ترنم کا احساس تادمِ مرگ زندہ رہتا ہے۔ زمانے کی چکا چوند میں اپنی ذات کوگم ہونے سے بچانے کے لیے میسر آئی تمام طرزکی تسہیل کو صرف اور صرف اُس کی مثبتیت کے ساتھ بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے لہذٰا خود کو خود ہی سے بچانے کی حکمتِ عملی مرتب کرنے میں دیر نہ لگائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے اور آپ کی بقاء کے سارے در مقفل ہو جائیں۔