جرم کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود تارکین وطن کو گوانتانامو کے سیاہ گڑھے میں دھکیلے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 فروری2025ء)امریکا کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سربراہ کرسٹی نوم کا دعوی ہے کہ حکومت خطرناک مجرم قرار دئے گئے غیر قانونی تارکین وطن کو بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل بھیج رہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی حکام کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے افراد کو فوجی کارگو طیاروں کی طرف لے جایا جا رہا ہے، ان افراد کو کیوبا میں موجود بدنام زمانہ حراستی مرکز منتقل کیا جا رہا ہے۔
کرسٹی نوم نے ان افراد کو بدترین مجرم، قاتل، ریپسٹ، بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے اور گینگسٹر قرار دیا۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کے گوانتانامو منتقلی کے اس فیصلے کے دس دن بعد بھی حکومت نے ان دعوں کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا، اور ان افراد کی شناخت کے حوالے سے ابہام برقرار ہے۔(جاری ہے)
سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل رائٹس کی وکیل جیسیکا ووسبرگ نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ان افراد کو خطرناک اور پرتشدد مجرم ظاہر کر رہی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہو سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر افراد کسی بڑے جرم میں ملوث نہیں ہیں اور کچھ محض امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر زیر حراست تھے۔امریکی حکام کی جاری کردہ تصاویر میں نظر آنے والے چند افراد کی شناخت سامنے آئی ہے۔ 23 سالہ وینزویلا کے شہری لوئس البرٹو کاسٹیلو ریویرا، جو 19 جنوری کو امریکی سرحد پر پناہ کے لیے آئے تھے، ان افراد میں شامل ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور کسی مجرمانہ گروہ سے وابستہ نہیں۔سینتیس سالہ کار مکینک، تلسی رامون گومیز لوگو کو بھی ٹیکساس میں امیگریشن حراستی مرکز سے گوانتانامو منتقل کیا گیا۔ ان کے دوستوں اور اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک محنتی اور دیانتدار شخص ہیں اور کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔تیسرے قیدی 25 سالہ یوئکر ڈیوڈ سیکویرا جو ایک حجام تھے اور پناہ کے لیے امریکا آئے تھے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ شاید انہیں محض ان کے جسم پر موجود ٹیٹوز کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔جیسیکا ووسبرگ کے مطابق امریکی حکومت نے گوانتانامو بھیجے گئے افراد کے نام ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے اور زیادہ تر افراد کے خلاف مجرمانہ ریکارڈ کا کوئی ثبوت بھی فراہم نہیں کیا گیا۔محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ ان افراد نے امریکا میں غیر قانونی داخلے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور ان میں سے ہر ایک کو ملک بدری کے حتمی احکامات کا سامنا ہے۔ تاہم، ان کے گینگ یا کسی دیگر مجرمانہ سرگرمی سے تعلق کے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔گوانتانامو میں زیر حراست افراد کی اصل تعداد بھی واضح نہیں کی گئی، تاہم اطلاعات کے مطابق 4 سے 11 فروری کے درمیان امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کے ذریعے 98 افراد کو وہاں منتقل کیا گیا۔قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال ماضی کی یاد دلاتی ہے، جب 2002 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران لوگوں کو بغیر کسی واضح وجہ کے گوانتانامو میں قید کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی امریکی حکومت نے ان قیدیوں کو بدترین مجرم قرار دیا تھا، لیکن بعد میں کئی افراد بے گناہ ثابت ہوئے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہنا تھا کہ افراد کو ان افراد کا کہنا کیا گیا نہیں کی
پڑھیں:
امریکی صحافی آسٹن ٹائس کو 2013 میں قتل کردیا گیا تھا،سابق شامی مشیر کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) شام کے سابق اعلیٰ سیکورٹی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ 2012ء میں لاپتا ہونے والے امریکی صحافی آسٹن ٹائس کو 2013ء میں قتل کر دیا گیاتھا۔ بشار الاسد کے قریبی ساتھی اور سابق مشیر براہ تزویراتی امور بسام الحسن نے امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کو بتایا کہ امریکی صحافی کو قتل کرنے کا حکم بشار الاسد نے خود دیا تھا۔ اگرچہ امریکا نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ شام کی حکومت سے وابستہ کسی اعلیٰ شخصیت نے ٹائس کے انجام پر امریکی حکام سے بات کی ہے۔ بسام الحسن نے یہ باتیں اپریل 2024ء میں بیروت میں ہونے والی کئی روزہ تفتیش کے دوران ایف بی آئی اور سی آئی اے کو بتائیں، جس میں لبنانی حکام بھی موجود تھے۔ بشام نے کہا کہ وہ ٹائس کو قتل نہ کرنے کے لیے بشار الاسد کو سمجھاتا رہا، لیکن ناکام رہا۔ بسام الحسن نے بتایا کہ ٹائس کو 2013ء میں اس کے ایک ماتحت اہلکار نے قتل کیا اور یہ واقعہ اْس وقت پیش آیا جب ٹائس اپنی جیل سے مختصر وقت کے لیے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔ بسام الحسن کا کہنا تھا کہ اس نے صدر کو مشورہ دیا تھا کہ ٹائس کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ وہ امریکا پر دباؤ ڈالنے کے لیے قیمتی پتا ثابت ہو سکتا تھا اور زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ فائدہ مند ہے۔ ادھر امریکی تحقیقاتی اداروں نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، صرف اتنا کہا کہ وہ لاپتا امریکیوں کو تلاش کرنے اور انہیں یا ان کی باقیات کو وطن واپس لانے کے لیے پرعزم ہے۔ دوسری جانب آسٹن ٹائس کے والد مارک ٹائس نے ان انکشافات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بسام الحسن ایک اجتماعی قاتل ہے جو ماضی میں کیے گئے جرائم سے انکار کرتا آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بسام الحسن کے بیانات کو وہ سچ نہیں مانتے اور یہ سب صرف اپنی جان بچانے کی ایک کوشش ہے۔ ٹائس کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان اب بھی یقین رکھتا ہے کہ ان کا بیٹا زندہ ہے۔ اس کی بنیاد ایسے لوگوں کی گواہیوں پر ہے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 2013 ء کے بعد شام کی جیلوں میں آسٹن ٹائس کو دیکھا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان مشاہدات میں سے کسی نے بھی ابھی تک قطعی ثبوت پیش نہیں کیا کہ آسٹن واقعی زندہ ہے۔ یاد رہے کہ آسٹن ٹائس سابق امریکی میرین افسر اور فری لانس صحافی تھے، جو واشنگٹن پوسٹ کے لیے شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں میں رپورٹنگ کر رہے تھے۔ وہ اگست 2012ء میں دمشق کے قریب 31 سال کی عمر میں لاپتا ہو گئے تھے۔یہ معلومات ایسی خفیہ دستاویز کے بعد سامنے آئیں جو امریکی حکام کو چند سالوں میں ملیں۔ یہ دستاویز 2012 ء کے اکتوبر میں شامی سیکورٹی اداروں کو جاری کی گئی تھی ، جس میں ٹائس سے متعلق محتاط رہنے کا حکم تھا۔