کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں دنیا کے پہلے ہم جنس پرست امام سمجھے جانے والے محسن ہینڈرکس کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ 

پولیس کے مطابق، حملہ آوروں نے انہیں جنوبی شہر گیبرہ کے قریب نشانہ بنایا اور موقع سے فرار ہو گئے۔

پولیس کے مطابق، محسن ہینڈرکس ایک دوسرے شخص کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے، جب ایک گاڑی ان کے سامنے آکر رک گئی۔ دو نامعلوم حملہ آوروں نے گاڑی پر فائرنگ کی، جس میں محسن ہینڈرکس موقع پر ہلاک ہو گئے، جبکہ ان کے ساتھ موجود ڈرائیور محفوظ رہا۔

قتل کے پیچھے اصل وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی۔ پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جو بھی اس کیس میں مدد فراہم کر سکتا ہو، وہ فوری طور پر آگے آئے۔

محسن ہینڈرکس کا تعلق ایل جی بی ٹی کیو مسلم کمیونٹی سے تھا اور وہ 1996 میں ہم جنس پرست کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وہ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے قریب الغربہ مسجد میں امامت کرتے تھے، جو ہم جنس پرست مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھی جاتی تھی۔

یہ قتل جنوبی افریقہ میں ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی آزادی کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دے رہا ہے، جبکہ ایل جی بی ٹی کیو تنظیموں نے محسن ہینڈرکس کے قتل کی مذمت کی ہے اور اس واقعے کو نفرت پر مبنی جرم قرار دیا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنوبی افریقہ محسن ہینڈرکس

پڑھیں:

سہارنپور میں زیر تعمیر مسجد بلڈوزر کاراروائی کے تحت منہدم کردی گئی، عمران مسعود کا احتجاج

مسجد پر بلڈوزر کارروائی پر ردعمل دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیمان عمران مسعود نے اس کارروائی کو غیر قانونی، یکطرفہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ قرار دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع سہارَنپور میں ایک زیر تعمیر مسجد کو انتظامیہ کی جانب سے منہدم کئے جانے کے بعد ریاست بھر میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ ایک نیوز پورٹل پر شائع خبر کے مطابق انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تعمیر غیر قانونی تھی اور متعدد بار نوٹس دئے جانے کے باوجود تعمیراتی کام جاری رکھا گیا، جس کے بعد اسے گرایا گیا۔ واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیمان عمران مسعود نے اس کارروائی کو غیر قانونی، یکطرفہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب زمین متعلقہ افراد کی اپنی ہے تو مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔

عمران مسعود نے تحصیلدار کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد ان لوگوں کی اپنی زمین پر بن رہی تھی۔ انہوں نے پہلے ہی اطلاع دے رکھی تھی، گاؤں میں نقشے کی منظوری کا تصور کہاں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا "میں نے جب افسران سے بات کی تو کوئی کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا، سب کہہ رہے تھے کہ ہمیں علم نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسجد کو گرا دیا گیا، 15 دن کا نوٹس بھی نہیں دیا گیا"۔ انہوں نے کہا کہ اگر نوٹس دیا بھی گیا تو کیا اس پر کوئی سماعت ہوئی، کوئی قانونی عمل اختیار نہیں کیا گیا، بس بلڈوزر بھیج دیا گیا اور مسجد منہدم کی گئی۔ عمران مسعود نے دعویٰ کیا کہ وہ خود وہاں احتجاج کرنے نہیں گئے، کیونکہ اگر ہم جاتے تو ہمیں سینے پر گولی مار دی جاتی، اس لئے ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی بات رکھیں گے۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اترپردیش میں اقلیتوں کے ساتھ انتظامی کارروائیوں پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی حلقے اس طرح کی کارروائیوں کو امتیازی قرار دیتے آئے ہیں۔ عمران مسعود کا بیان ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح بعض مواقع پر ضابطوں کی آڑ میں مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جانے پر غور کر رہے ہیں تاکہ انصاف مل سکے۔

متعلقہ مضامین

  • سیکولر بھارتی فوج کے سربراہ کی’ متنازع انتہا پسند گرو‘کے آشرم میں حاضری: وردی ہندوتوا کے آگے جھک گئی
  • بھارتی سرکار کا ایک اور متنازع قدم، کرنل صوفیہ کے خاندان کو مودی روڈ شو میں شرکت پر مجبور کیا گیا
  • اہم سیاستدان کو مسجد میں گھس کر گولیاں مار دیں
  • چمن: مسجد میں فائرنگ، جے یو آئی کے رہنما مولاناحافظ گل شدید زخمی
  • گلگت، ضمانت منسوخ ہونے پر ایک اور قوم پرست رہنما گرفتار
  • عمران خان کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے متعلق پھر متنازع گفتگو
  • سہارنپور میں زیر تعمیر مسجد بلڈوزر کاراروائی کے تحت منہدم کردی گئی، عمران مسعود کا احتجاج
  • ارشد ندیم نے ایشین ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کردیا: محسن نقوی
  • خطبہ حج کے 35 زبانوں میں ترجمے کی تیاریاں مکمل
  • افریقہ میں استعماریت اور غلامی کے نقصانات کا ازالہ ضروری، گوتیرش