نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ سے 18 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر کام کرنے والے ایک قلی نے بھگدڑ کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پریاگ راج اسپیشل ٹرین کو پلیٹ فارم نمبر 12 سے روانہ ہونا تھا، لیکن اسے پلیٹ فارم نمبر 16 پر منتقل کر دیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ پریاگ راج جانے والے مسافروں کی بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ سے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ مچ گئی۔ اس حادثے میں 18 لوگوں کی موت ہوگئی۔ جبکہ 12 زخمیوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ یہ حادثہ پلیٹ فارم نمبر 12، 13، 14، 15 اور 16 پر بھاری بھیڑ کی وجہ سے پیش آیا۔ مرکز نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ایل این جے پی اسپتال میں 15 اور لیڈی ہارڈنگ اسپتال میں افراد افراد کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ پلیٹ فارم 13 اور 14 پر آنے والی ٹرینیں لیٹ تھیں اور بھیڑ کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اسی دوران پلیٹ فارم 16 سے اسپیشل ٹرین کے اعلان کے بعد بھیڑ قابو سے باہر ہوگئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ اس ٹرین کو پہلے پلیٹ فارم نمبر 12 سے نکلنا تھا۔ ریلوے حکام کے مطابق اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے ہفتہ کو بڑی تعداد میں لوگ پریاگ راج جانے کے لئے جمع ہوئے۔ ہفتہ کو بھی بہت سارے جنرل ٹکٹ فروخت ہوئے۔
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر کام کرنے والے ایک قلی نے بھگدڑ کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پریاگ راج اسپیشل ٹرین کو پلیٹ فارم نمبر 12 سے روانہ ہونا تھا، لیکن اسے پلیٹ فارم نمبر 16 پر منتقل کر دیا گیا۔ جب پلیٹ فارم نمبر 12 پر انتظار کرنے والی بھیڑ اور باہر انتظار کرنے والے لوگوں نے پلیٹ فارم 16 تک پہنچنے کی کوشش کی تو لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایسکلیٹرز اور سیڑھیوں پر گر پڑے اور بھیڑ کے نیچے کچل گئے۔ وہیں ریلوے نے مرنے والوں کے لواحقین کے لئے فی کس 10 لاکھ روپے، شدید زخمیوں کے لئے 2.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم نمبر 12 کی وجہ کے لئے
پڑھیں:
بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم اور جنگ کی تاریخ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) نئی دہلی حکومت اکثر اسلام آباد پر کشمیر میں ان مسلح افراد کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتی ہے، جو سن 1989 سے بھارتی فورسز کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ پاکستان اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مسلم اکثریتی کشمیر کی خود مختاری کی جدوجہد کی صرف سفارتی حمایت کرتی ہے۔
منگل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت نے تشدد میں ڈرامائی اضافے کی نشاندہی کی جبکہ یہ حملہ عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ''جھڑپوں کی نوعیت میں تبدیلی‘‘ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
بھارت نے بدھ کو اسلام آباد کے خلاف متعدد سفارتی اقدامات کیے، جن میں اہم سرحدی گزرگاہ کو بند کرنا اور واٹر شیئرنگ معاہدے کو معطل کرنا بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
پاکستان نے اس کے جواب میں اپنی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، جو صرف بیرونی خطرے یا بڑے حملے کی صورت میں بلایا جاتا ہے۔
ان دونوں ملکوں کے مابین دہائیوں پر محیط پریشان کن تعلقات میں اہم واقعات یہ ہیں:
سن1947: تقسیم اور پہلی جنگدو صدیوں کی برطانوی حکمرانی 15 اگست 1947 کو ختم ہوئی، جب برصغیر کو بنیادی طور پر ہندو اکثریتی بھارت اور مسلم اکثریتی پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔
ناقص تیاری کے ساتھ کی گئی اس تقسیم نے خونریزی کو جنم دیا، جس میں ممکنہ طور پر دس لاکھ سے زائد انسان ہلاک اور ڈیڑھ کروڑ بے گھر ہوئے۔مسلم اکثریتی کشمیر کا ہندو مہاراجہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے میں تذبذب کا شکار رہا۔ اس کی حکمرانی کے خلاف بغاوت ہوئی اور بعد میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔
مہاراجہ نے بھارت سے مدد مانگی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان مکمل جنگ چھڑ گئی۔ جنوری 1949 میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ 770 کلومیٹر طویل جنگ بندی لائن، جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سن 1965 اور 1971: دوسری اور تیسری جنگپاکستان نے اگست 1965 میں کشمیر پر حملہ کر کے دوسری جنگ شروع کی۔ سات ہفتوں بعد سوویت یونین کی ثالثی سے جنگ بندی کے بعد یہ تنازع ختم ہوا، جس میں دونوں طرف کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے۔
سن 1971 کے آغاز میں پاکستان نے موجودہ بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے فوجی تعینات کیے، جو 1947 سے اس کے زیر انتظام تھا۔ نو ماہ کے تنازع میں اندازہً تین ملین افراد ہلاک ہوئے اور کروڑوں بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
بھارت نے بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف لڑنے والی قوتوں کو مدد فراہم کی اور پاکستانی فوج نے سن 1971 میں ہتھیار ڈال دیے۔
سن 1989: کشمیر میں بغاوتسن 1989 میں بھارتی حکمرانی کے خلاف دیرینہ شکایات ابل پڑیں اور کشمیر میں بغاوت شروع ہوئی۔ اگلے سال باغی جنگجوؤں کی جانب سے ہونے والے حملوں اور دھمکیوں کے بعد ہندو اور دیگر اقلیتیں علاقے سے فرار ہو گئیں۔ آنے والی دہائیوں میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے ہزاروں فوجی، باغی اور شہری ہلاک ہوئے۔
بھارت نے پاکستان پر کشمیری باغیوں کو مالی امداد اور ان کو مسلح تربیت دینے کا الزام لگایا۔ سن 1998: ایٹمی تجربات اور پھر کارگل جنگپاکستان نے سن 1998 میں عوامی سطح پر اپنے اولین ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کیے، جبکہ بھارت نے پہلے سن 1974 میں تجربات کیے تھے۔ سن 1999 میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو کر کارگل کے برفیلے پہاڑوں میں فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔
پاکستان کی حکمراں جماعت کے رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے کہا کہ اگر ضروری ہوا تو ان کا ملک اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ واشنگٹن کے شدید دباؤ کے بعد پاکستان نے پسپائی اختیار کی، کیونکہ انٹیلی جنس رپورٹس سے پتہ چلا تھا کہ اسلام آباد نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا کچھ حصہ تنازعے کے علاقے کے قریب تعینات کیا تھا۔
اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کے سربراہ پرویز مشرف پر اس تنازعے کو بھڑکانے کا الزام لگایا، جس میں ان کی اجازت یا علم کے بغیر دس ہفتوں میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چند ماہ بعد مشرف نے شریف کو بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا۔
سن 2008 کا ممبئی حملہسن 2008 میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے مالیاتی مرکز ممبئی پر حملہ کیا، جس میں 166 افراد ہلاک ہوئے۔
بھارت نے اس حملے کے لیے پاکستان کی انٹیلی جنس سروس کو ذمہ دار ٹھہرایا اور امن مذاکرات معطل کر دیے۔ سن 2011 میں رابطے بحال ہوئے لیکن وقفے وقفے سے لڑائی نے صورتحال کو خراب رکھا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سن 2015 میں پاکستان کا غیر متوقع دورہ کیا لیکن یہ سفارتی گرمجوشی عارضی ثابت ہوئی۔ سن 2019 میں ایک خودکش حملے میں کشمیر میں 41 بھارتی پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوئے، جس پر مودی نے پاکستان کے اندر فضائی حملوں کا حکم دیا۔
دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو فوری طور پر کم کیا گیا اور مودی چند ماہ بعد قوم پرست جذبے کی لہر پر دوبارہ منتخب ہوئے، جو فوجی ردعمل سے ابھری تھی۔
بعد ازاں مودی کی حکومت نے کشمیر کی جزوی خود مختاری ختم کر دی۔ یہ اچانک فیصلہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور کئی ماہ تک مواصلاتی بلیک آؤٹ کا سبب بنا۔ سن 2021 میں دونوں ممالک نے سن 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی توثیق کی لیکن پاکستان نے اصرار کیا کہ امن مذاکرات تب ہی شروع ہو سکتے ہیں، جب بھارت سن 2019 سے پہلے کی کشمیر کی خود مختار حیثیت بحال کرے گا۔
ادارت: مقبول ملک