سیاسی شعور سے عاری طلبہ ۔۔۔ روبوٹک مزدوروں کی افزائش
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
نوآبادیاتی معاشروں میں ’’سیاسی آزادی‘‘ پر قدغن کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ نہ صرف معمول کا ہی حصہ سمجھی جاتی ہے بلکہ اپنا تاریخی تسلسل بھی رکھتی ہے، کیوںکہ ایسے معاشروں کی کُل تاریخ سیاسی آزادی پر قدغن اور پابندیوں کا ہی شاخسانہ ہے۔ پاکستان بھی جو برطانوی استعمار سے آزاد ہوکر (کچھ لوگوں کی رائے البتہ مختلف ہے) دنیا کے نقشے پر ابھرا، ایسے ہی المیے کا شکار رہا ہے۔
پہلے انگریزوں کی پابندیاں تھیں اور ’’ہندوستان‘‘ غلام تھا، بعد میں ان کے ہم نواؤں نے ا نہیں کے ’’چلن‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے یہ سلسلہ جاری رکھا، جو اب تک بدستور جاری ہے۔ پاکستان میں ’’پیکا ایکٹ‘‘ کی حالیہ ترمیم اس دعوے کی صداقت کے لیے کافی ہے۔ اس مضمون میں طلبہ کی سیاسی تاریخ کو محض بیان کردینے سے گریز کیا گیا ہے اور یہ ’تجزیہ‘ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جامعات، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاسی صورت حال کیا ہے۔
طلبہ کی کثیر تعداد کیوں ’’غیرسیاسی رویوں‘‘ کا شکار ہے؟ اور کیوں طلبہ کے اندر ’’غیرجمہوری بیانیے‘‘ مقبول ہورہے ہیں؟
ایسے معاشروں کی فہرست میں جہاں جمہوریت کی حیثیت کسی ’’عبوری تجربے‘‘ سے زیادہ نہیں ہے ، ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری رویوںو اقدار کے پروان چڑھنے کے لیے مناسب ماحول ہی پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان کا ’’اقتدار‘‘ ایسے سیاست دانوں پر مشتمل رہا ہے جو سیاسی بالیدگی اور پختگی سے یکسر نابلد تھے۔
ایسے میں جب خالصتاً سیاست داں بھی کوئی کام نہ آسکیں تو پھر جاگیرداروں، نوابوں اور سرمایہ داروں سے ’’سیاسی قیادت‘‘ کی امید رکھنا عبث ہے، بلکہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز کی ابتدائی برسوں کی تاریخ دراصل پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی ہی تاریخ ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی باگ ڈور ایسے سیاسی نابلدوں کے ہاتھ میں رہی ہے جنہوں نے ازخود اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں کے سبب سول افسرشاہی کے لیے اقتدار پر قبضہ جمانے کی راہ ہموار کی ہے۔
سول افسرشاہی کی اقتدار پر قبضے کی ابتدا ملک کے تیسرے گورنرجنرل غلام محمد سے ہوتی ہے، جب ان کی جانب سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر کے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ البتہ، سول افسر شاہی کا اقتدار دیرپا ثابت نہ ہوسکا اور ’’مارشل لا‘‘ کی نذر ہوگیا۔ سول افسر شاہی کا اقتدار اسکندر مرزا کی گورنر جنرلی کے زمانے میں عروج کو پہنچا جب کہ اس عروج کو زوال کی طرف خود اسکندر مرزا نے ہی دھکیلا جب انہوں نے آرمی چیف ایوب خان کے ذریعے مارشل لا کا اعلان کیا اور فیروزخان نون کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔
یوں اسکندر مرزا نے ’اعلانیہ‘‘ فوجی افسرشاہی کو اقتدار کی راہ دکھائی۔ یہاں کچھ لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے کہ تاریخ کو محض ’’شخصیات‘‘ تک محدود کردینا اور سیاسی، اقتصادی و سماجی پہلوؤں اور تبدیلیوں کو نظرانداز کردینا، تاریخ کو مسخ کردینا ہے، تو یہاں صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ مضمون کے موضوع کی مناسبت سے سیاسی، اقتصادی و سماجی پہلوؤں اور تبدیلیوں پر تجزیہ کرنا تو کجا انہیں بیان کرنا بھی محال ہے۔
بہرحال یوں سول و فوجی افسر شاہی (جس میں فوجی افسرشاہی کا غلبہ ہے) کی اقلیم نے ملکی اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا۔ اس غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ کی اقتدار پر گرفت کے ہی سبب پاکستانی سماج میں جمہوری رویوں کا کال دکھائی دیتا ہے اور سیاست جمہوری اقدار سے خالی نظر آتی ہے۔ پے در پے لگتے مارشل لا اور آمریتوں کے دامن میں پنپتی جمہوریت نے سیاسی شعور کی ناپختگی کو مزید وسعت بخشی ہے۔ غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ (یا جسے اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاسکتا ہے) کی سرپرستی میں سیاسی شعور کو کچلنے کی مسلسل اور مستقل کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ دانش وروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور طلبہ کو جیلوں میں ٹھونسا گیا، عقوبت خانے سجائے گئے، اخبارات پر پابندیاں عائد کی گئیں اور مزدور یونینوں، طلبہ تنظیموں کو شجرہ ٔممنوعہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
ایسے میں ارباب اختیار کی جانب سے سیاسی شعور کو دبانے کی سب سے بڑی کوشش ’’طلبہ یونین‘‘ پر پابندی ہے۔ وہ طلبہ یونین جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں ـ ’’نرسری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جہاں سے ملک کی سیاسی قیادت جنم لیتی ہے۔ طلبہ یونین کی پابندی سے قوم کے اجتماعی سیاسی شعور کو شدیدترین نقصان پہنچتا ہے یہ نقصان اس قدر شدید تر ہے کہ اس سے پیدا ہونے والے بحران کے حل کے لیے ’غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی آل و اولاد پر انحصار کرتی ہے یا مجبوراً کھیل کے میدانوں کو کھنگالتی ہے اور ’’مسیحا ‘‘تراش لاتی ہے۔ عہدقدیم سے ہی مسیحا تراشنے کا عمل استبدادی قوتوں کا وتیرہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ بھی ان ہی مشاغل سے بھر پور ہے۔ نام نہاد عوامی قائدین کی فہرست طویل ہے۔ اس فہرست میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے سیاسی جد کو اعلانیہ ’’ڈیڈی‘‘ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔
طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ طلبہ کے سیاسی کردار سے تعلیم و تدریس کے معیار میں ابتری ہورہی ہے جس سے قوم و ملک کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جب کہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کو 40 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، اس کے باوجود ملک بھر میں تعلیمی صورت حال زبوں حالی کا شکار ہے ۔ اور صرف تعلیمی صورت حال ہی زوال پذیر نہیں ہے بلکہ اخلاقی و سماجی پہلوؤں کا بھی برا حال ہے، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں غنڈا گردی، نشے کا استعمال، ہراسانی اور دیگر جرائم کا ارتکاب معمول بن چکا ہے۔
تعلیمی اداروں میں بڑی طلبہ تنظیمیں ’’مافیا‘‘ کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں، جو چھوٹی تنظیموں پراپنی دھونس جماتی ہیں۔ یہ دھونس صرف چھوٹی اور کم زور تنظیموں کا ہی مقدر نہیں ہوتا بلکہ عام طلبہ جو اسی’’ رویے‘‘ کے ہی سبب سیاست سے کنارہ کش رہتے ہیں، ان کو بھی جھیلنی پڑتی ہے۔
جامعات کے اندر طالبات کی جنسی ہراسانی کی خبریں بھی معمول کی بات ہوچکی ہیں۔ گذشتہ برس کے اخبارات اٹھا کر دیکھے جائیں تو صورت حال کی مزید وضاحت ہوجائے گی۔ بعض جگہوں پر استادوں کے بھیس میں جنسی درندے برا جمان ہیں جب کہ ایسے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی بے حس نظر آتی ہے۔ ایسا ہے کہ بعض ا داروں میں تو انتظامیہ خود ہی ’’مافیا‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طلبہ یونین کے عدم وجود اور طلبہ سیاست پر ’’غیراعلانیہ ‘‘ پابندی کے سبب طلبا اپنے حقوق سے غافل ہیں اور انتظامیہ کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں جو انہیں لوٹنے، کھسوٹنے اور اپنی جباریت کے اظہار کے لیے متحرک ہے۔
بہر حال، مضمون طویل ہورہا ہے تو سطورِ بالا میں پوچھے گئے سوالات کا جواب پیش کرنا مناسب ہوگا۔ طلبہ کی کثیر تعداد کیوں ’’غیرسیاسی رویوں‘‘ کا شکار ہے؟ اس کی صریحاً ذمے داری ہمارے تعلیمی نظام پر ہے جو ’’عالمی نیولبر ل ازم‘‘ کے زیراثر پورے سماج کو ہی غیرسیاسی رویوں کی جانب دھکیل رہا ہے۔
کارپوریٹ سام راج کے سائے میں پلتے تعلیمی ادارے ایسی ’’معیاری تعلیم‘‘ فراہم کررہے ہیں کہ جو ’’وائٹ کالر روبو ٹک مزدور‘‘ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کررہی۔ عالمی استعمار کے زیرتسلط سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں نیولبرل ازم کا بھرپور پرچار کیا جارہے جس کی ابتدا غیرسیاسی رویوں کے جڑ پکڑنے اور انجام طلباء کا اپنے حقوق سے بیگانگی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ریاست بھی اپنی تمام مشینری کے ساتھ عالمی ایجنڈوں کو بروئے کار لانے میں پیش پیش ہے، اور استعماری قوتوں کی ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔
یہ سوال کہ طلبہ کے اندر ’’غیرجمہوری بیانیے‘‘ کیوں مقبول ہورہے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی تاریخی تسلسل میں سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ’’مردانِ آہن‘‘ کی آمریتوں کی داستان ہے، جنہوں نے اپنے خودساختہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جمہوری روایات و اقدار کا گلا گھونٹا ہے۔ بنیادی جمہوریت کے نظام سے لے کر اسلامی سوشلزم تک اور اسلامی جمہوریت سے اسلامی جدیدیت تک، آمروں نے’’ نظریات‘‘ کا سہارا لے کر نظریات سے عاری سیاست کو فروغ دیا ہے۔
غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ نے اپنے ’’لاڈلوں‘‘ کو مسندِاقتدار پر بٹھانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔ ریاست کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال نوجوانوں میں ایسے بیانیوں کو فروغ دینے میں ہوا ہے جو آمرانہ و پاپولسٹ طرزِسیاست کی طرف ابھارتے ہیں۔ ایسے میں طلبہ کے اندر غیرجمہوری بیانیوں کی مقبولیت پر تشویش کا اظہار خود اپنی ہی لاعلمی کا اعلان ہے۔
سطورِ بالا سے طلبہ کی سیاسی صورت حال کو سمجھنے میں کچھ حد تک مدد ملتی ہے اور مرض کی تشخیص کرکے ’’علاج‘‘ کی جانب بھی بڑھا جاسکتا ہے۔ پہلے ضروری ہے کہ مرض کی بہتر طور پر تشخیص کرلی جائے تاکہ کارگر و مفید علاج کی جانب بڑھا جاسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ تعلیمی اداروں میں غیرسیاسی رویوں سیاسی شعور طلبہ یونین پر پابندی کی سیاسی کی حیثیت صورت حال کے اندر کا شکار طلبہ کے کی جانب طلبہ کی ہے اور کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
کولمبیا یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ سے 221 ملین ڈالر کے تصفیے پر اتفاق
کولمبیا یونیورسٹی نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ اس نے وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت 221 ملین ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کا مقصد یونیورسٹی کے خلاف جاری تحقیقات کا تصفیہ اور وفاقی فنڈنگ کی بحالی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حق میں ’آزادی‘ کے نعروں پر واویلا کیوں؟
یونیورسٹی کے مطابق، اس رقم میں یہودی مخالف تعصب (اینٹی سیمیٹزم) سے متعلق تحقیقات کے تصفیے کے لیے 3 سال کے دوران 200 ملین ڈالر کی ادائیگی شامل ہے، جبکہ 21 ملین ڈالر امریکی مساوی روزگار کے مواقع کی کمیشن (EEOC) کو ادا کیے جائیں گے
یونیورسٹی کے بیان کے مطابق ’اہم بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ کولمبیا یونیورسٹی کی فیکلٹی کے تقرر، داخلے اور تعلیمی فیصلوں پر خودمختاری برقرار رکھتا ہے‘۔
اس معاہدے کے تحت مارچ میں بند یا معطل کیے گئے زیادہ تر وفاقی گرانٹس بحال کیے جائیں گے۔
قائم مقام صدر یونیورسٹی کلیئر شپ مین نے کہا ہے کہ ’یہ معاہدہ وفاقی نگرانی اور ادارہ جاتی غیر یقینی کی ایک طویل مدت کے بعد ایک اہم پیشرفت ہے‘۔
پس منظر: احتجاجات، پابندیاں اور دباؤیہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب صرف ایک روز قبل کولمبیا یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ 2024 کے موسمِ بہار اور مئی 2025 میں کیمپس میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والے درجنوں طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائیاں کی گئی ہیں، جن میں معطلی، پروبیشن، اخراج اور ڈگری کی منسوخی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے خلاف احتجاجات کے سلسلے میں کولمبیا یونیورسٹی 2024 میں ملک گیر مظاہروں کا مرکز بن گئی تھی۔
ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں ان کے انتظامیہ نے کولمبیا سمیت دیگر ممتاز جامعات پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ یہودی مخالف جذبات پر قابو پانے میں ناکام ہو رہی ہیں۔
ٹرمپ نے مارچ میں یونیورسٹی کی 400 ملین ڈالر سالانہ وفاقی گرانٹس بند کر دی تھیں، اور الزام لگایا تھا کہ فلسطین کے حامی مظاہرین نے کیمپس میں یہودی اور اسرائیلی طلبہ کو ہراساں کیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا: اسرائیل کے خلاف احتجاج ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں پھیل گیا، سینکڑوں گرفتار
تاہم مظاہروں میں شامل چند یہودی طلبہ سمیت دیگر طلبہ نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کیا۔
اصلاحات پر رضامندیوفاقی فنڈنگ کی بحالی کے لیے کولمبیا یونیورسٹی نے متعدد تنازع کا شکار پالیسی اقدامات پر عمل درآمد پر رضامندی ظاہر کی ہے، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
طلبہ کے خلاف نظم و ضبط کے ضابطے میں تبدیلی یہود دشمنی (antisemitism) کی تعریف میں ترمیم نئے یہودی فیکلٹی ارکان کی تقرری مشرق وسطیٰ کے نصاب کا جائزہ تنوع، مساوات اور شمولیت (DEI) سے متعلقہ پروگراموں کا خاتمہا
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں