Islam Times:
2025-07-25@10:52:43 GMT

شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل

اسلام ٹائمز: اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔ تجزیہ و تحلیل: ڈاکٹر امین پرتو

بہت سے ممالک کو خدشہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام جو ماضی میں داعشی ہی تھے کے شام پر مسلط ہونیکے بعد، اب بھی داعش کی باقیات کے لئے ممکن ہے کہ دوبارہ دولت اسلامیہ یا خلافت کو قائم کرنیکی کوشش کرینگے۔ بالخصوص جب کرد ملیشا اپنے علاقوں میں داعشی دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور جولانی کے زیر اثر شام کی فورسز لبنان کی سرحد پر مصروف ہیں اور ان کی ترجیحات میں شام میں موجود داعش کے جنگجووں سے لڑنا ابھی شامل نہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ جولانی داعشی عناصر کے لئے نرمی برت رہے ہیں۔ ہر صورت میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ شام میں طاقت کا خلا اب بھی باقی ہے۔ اب خدشہ یہ پایا جا رہا ہے کہ داعش اس طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔

داعش نے بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام میں فوج کے چھوڑے ہوئے فوجی اڈوں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے اور فوج کے ہتھیاروں کے ڈپووں پر قبضے کے علاوہ نئے اور بڑی مقدار میں جدید ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے۔ اب ان کے لئے فرات کے مغرب میں زیادہ اور آسان نقل و حرکت ہے، خاص طور پر شام کے صحرا میں، اور کردوں اور ترک فوج کے درمیان لڑائی نے فرات کے مشرق میں ان کی کارروائیوں کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کر دیا ہے۔ تاہم، یہ کہنا ضروری ہے کہ داعش کی دستے ان کے کمانڈر کئی وجوہات کی بناء پر اداس اور مایوسی کا شکار ہیں اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ بشار الاسد کی معزولی کے بعد اپنی کارروائیوں اور طاقت کو بڑھانے کے لیے استعمال کر پائیں گے۔

داعش کی مایوسی کے اسباب:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ داعش نے شام کی بعثی حکومت اور اہل سنت آبادی کے درمیان اختلاف اور دوری کو اپنے لئے قابل اطمینان سمجھا اور دعویٰ کیا کہ وہ واحد قوت ہے جو شام میں سنیوں کے دشمنوں سے لڑتی رہی ہے اور ادلب میں نہیں جا چھپی۔ بعث حکومت یعنی بشار الاسد اور شامی اہل سنت کے درمیان دوری ہی سنی نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کی بڑی وجہ تھی، یہی باعث رہا کہ داعش بہت زیادہ جانی نقصانات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اب جبکہ اہل سنت شام میں تبدیلی کے بعد خاموش ہو گئے ہیں تو داعش کے لئے شام میں پنپنے کا امکان نہیں بچا، داعش کے حریفوں نے اسد کا تختہ الٹ دیا، اور داعش اب ان کیخلاف کھڑا ہونے کے قابل نہیں، نہ ہی کوئی طاقت کا خلا باقی ہے، جسے داعش پر سکے۔

دوم یہ کہ شام میں غربت اور فقر کیوجہ سے نوجوان داعش بھرتی ہو رہے تھے۔ غربت، بے روزگاری اور افلاس میں لوگوں کے پاس پیٹ پالنے کے لئے ایک آپشن داعش میں مل جانا تھا کہ کم از کم بھوک سے بچ سکیں اور زندہ رہ سکیں۔ لیکن یہ امکان آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ شام کی نئی حکومت کے لیے غیر ملکی امداد میں اضافے، خانہ جنگی کے خاتمے، پناہ گزینوں کی واپسی، اقتصادی پابندیوں کے ممکنہ خاتمے اور بعثی دور کے سخت گیر سیاسی نظام کے بعد شام کی اقتصادی صورت حال میں بہتری آئے گی۔ نتیجتاً، داعش کی بھرتی کی سماجی اور اقتصادی بنیاد بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔

تیسری وجہ یہ کہ داعشی عناصر اپنے جیسے ہی ایسے متبادل کا سامنا کر رہے ہیں، جس کے مقابلے میں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ شامی عوام ابوبکر البغدادی کی خلافت، اس کی افتاد پسندی، اور داعش کے وحشیانہ تشدد جیسے خیالات کو بالکل قبول نہیں کر رہے ہیں، جس میں انفرادی اور سماجی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شام کی نئی حکومت نے بظاہر یہ کر دکھایا ہے کہ وہ داعش کی طرح نہیں ہے اور یقیناً یہ اس حکومت کے لیے خوش آئند بھی ہوگا۔ نتیجے کے طور پر، داعش، جو ماضی میں سنیوں کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اب خود کو ایسی صورت حال اور مخمصے سے گزر رہی ہے کہ کس طرح انہیں شامی سنیوں کا دشمن نہ سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ، جب کہ جولانی حکومت کی اپنی سیاسی روش سے عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے (حالانکہ ان کے لئے اب بھی بہت زیادہ احتیاط اور شک باقی ہے)، داعش کے پاس بیانیہ اور نظریاتی سطح پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

چوتھا یہ ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو دبانے کے لیے اسد سے کہیں زیادہ دباؤ ڈالے گی۔ شام کی پچھلی حکومت اصولی طور پر ملک کے بڑے حصوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں تھی، لیکن نئی حکومت بتدریج تمام علاقوں پر عملداری حاصل کر رہی ہے (سوائے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے)۔ ایسا لگتا ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو مزید سختی سے دبا کر عالمی رائے عامہ اور مغربی حکومتوں کے لیے زیادہ قابل قبول ماحول فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ شام میں مسلسل عدم تحفظ، تنازعات اور خانہ جنگی کی وہ فضا جو داعش میں شمولیت، ان کی نقل و حرکت اور دیگر مسلح گروہوں کی طرح داعش کے گروہ میں شمولیت کی بنیاد فراہم کرتی تھی، ختم ہو چکی ہے۔ نئی رجیم کی طرف سے مختلف گروہوں کے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں شامی فوج میں ضم کرنے سے داعش کو شام کے غیر مستحکم ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شام کی نئی حکومت بشار الاسد ہے کہ داعش ہے کہ شام نہیں ہے داعش کی داعش کے کو مزید میں کا رہی ہے کے لیے کے لئے ہے اور اور ان کے بعد

پڑھیں:

بی جے پی کا بی سی سی آئی کو حکومت کے ماتحت کرنے کا فیصلہ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پارلیمنٹ میں نیشنل اسپورٹس گورننس بل پیش کرنے والی ہے، جس کے ذریعے انڈین کرکٹ بورڈیعنی بی سی سی آئی سمیت 45  قومی اسپورٹس فیڈریشنز کو حکومت کی نگرانی میں لایا جائے گا، بل کے قانون بننے کے بعد بی سی سی آئی کو مجوزہ نیشنل اسپورٹس بورڈ سے تسلیم شدہ حیثیت حاصل کرنا ہوگی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام قومی اسپورٹس فیڈریشنز کی طرح، BCCI کو بھی اس بل کے ایکٹ بننے کے بعد ملکی قانون کی پابندی کرنی ہوگی، وہ وزارت سے مالی امداد نہیں لیتے، لیکن پارلیمنٹ کے ایکٹ ان پر بھی لاگو ہوں گے، وہ دیگر فیڈریشنز کی طرح خودمختار ادارہ رہیں گے۔

تاہم اگر کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو وہ مجوزہ نیشنل اسپورٹس ٹربیونل میں حل کیا جائے گا، جو انتخابات سے لے کر سلیکشن تک کے مسائل کا تصفیہ کرے گا، یہ پیش رفت خاصی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ بی سی سی آئی ایک خودمختار ادارہ ہے جو 1975 کے تمل ناڈو سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

بی سی سی آئی 45 تسلیم شدہ فیڈریشنز میں شامل نہیں، جن میں بڑے اولمپک کھیل اور مقامی کھیل جیسے یوگاسنہ، کھو کھو اور اٹیا پٹیا شامل ہیں، مجوزہ بل کے تحت ایک نیشنل اسپورٹس بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو فیڈریشنز کی منظوری، معطلی اور ان کی نگرانی کرے گا، اس بورڈ کے اراکین بشمول چیئرمین کو مرکزی حکومت مقرر کرے گی۔

یہ بورڈ کھلاڑیوں کے حقوق کے تحفظ اور شفاف و بروقت انتخابات کو بھی یقینی بنائے گا۔ کسی فیڈریشن کی معطلی یا منظوری ختم ہونے کی صورت میں، بورڈ کو عارضی انتظامی کمیٹی تعینات کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا، تاہم بل کا مقصد فیڈریشنز پر حکومت کا کنٹرول حاصل کرنا نہیں بلکہ ’شفاف نظام اور اخلاقی گورننس کو یقینی بنانا‘ ہے۔

کیا راجر بنی بطور صدر برقرار رہیں گے؟

بل میں ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی عہدے کے لیے عمر کی بالائی حد 70 سے بڑھا کر 75 سال کر دی گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ 70 سے 75 سال کی عمر کے افراد، اگر بین الاقوامی قوانین اجازت دیں، تو مکمل مدت کے لیے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

اگر بی سی سی آئی کو نیشنل اسپورٹس فیڈریشن کے دائرہ اختیار میں لایا گیا تو چند روز قبل ہی 70 سال کی عمر مکمل کرنیوالے موجودہ صدر راجر بنی اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں، فی الحال بی سی سی آئی کے آئین کے مطابق کوئی بھی فرد 70 سال کی عمر کے بعد کسی عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا، تاہم نیشنل اسپورٹس فیڈریشن بننے کی صورت میں یہ اصول تبدیل ہو سکتا ہے۔

مزید یہ کہ، تمام نیشنل اسپورٹس فیڈریشن ادارے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے دائرہ کار میں بھی آ جائیں گے۔

نیشنل اسپورٹس ٹربیونل کی تشکیل

بل میں ایک علیحدہ ادارے ’نیشنل اسپورٹس ٹربیونل‘ کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے، جو کھیلوں کے نظام میں شامل فریقین، مثلاً افسران، کھلاڑیوں اور کوچز، کے مابین تنازعات کا فوری اور مؤثر حل فراہم کرے گا، مجوزہ ٹربیونل کے فیصلوں کو صرف سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔

تاہم، یہ ٹربیونل اولمپک، پیرا اولمپک، ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز یا بین الاقوامی فیڈریشنز کے زیر اہتمام مقابلوں سے متعلق تنازعات پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکے گا، اسی طرح، اینٹی ڈوپنگ کے معاملات بھی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے کیونکہ ان کے لیے نیشنل اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے تحت آزاد ڈسپلنری اور اپیل پینل موجود ہیں۔

اسی دن حکومت ایک نیا ’نیشنل اینٹی ڈوپنگ بل‘ بھی متعارف کروا رہی ہے، یہ بل ایسے وقت میں آ رہا ہے جب بھارت نے 2023 میں 5000 سے زائد نمونوں کی جانچ کرنے والے ممالک کی ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی فہرست میں پہلا مقام حاصل کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بی جے پی بی سی سی آئی

متعلقہ مضامین

  • قوم پرستی اور علیحدگی پسند
  • پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • پی ٹی آئی کو سلام ، مایوس نہ ہوں آپ کے مقدمات کا بھی میرے کیس جیسا انجام ہو گا ، جاوید ہاشمی کا سزائوں پر ردعمل
  • مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • بی جے پی کا بی سی سی آئی کو حکومت کے ماتحت کرنے کا فیصلہ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟
  • مایوس نہ ہوں، آپ کے مقدمات کا انجام بھی میرے کیس جیسا ہوگا:جاوید ہاشمی 
  • مستقبل میں پروٹیکٹڈ صارفین کی کٹیگری ختم ‘ بے نظرانکم سپورٹ پروگرام پر تعین کیلا جائیگا ِ سکر ٹر یک پاور 
  • ’’ سیاسی بیانات‘‘
  • پائیدار ترقی محض خواب نہیں بلکہ بہتر مستقبل کا وعدہ ہے، گوتیرش