شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔ تجزیہ و تحلیل: ڈاکٹر امین پرتو
بہت سے ممالک کو خدشہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام جو ماضی میں داعشی ہی تھے کے شام پر مسلط ہونیکے بعد، اب بھی داعش کی باقیات کے لئے ممکن ہے کہ دوبارہ دولت اسلامیہ یا خلافت کو قائم کرنیکی کوشش کرینگے۔ بالخصوص جب کرد ملیشا اپنے علاقوں میں داعشی دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور جولانی کے زیر اثر شام کی فورسز لبنان کی سرحد پر مصروف ہیں اور ان کی ترجیحات میں شام میں موجود داعش کے جنگجووں سے لڑنا ابھی شامل نہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ جولانی داعشی عناصر کے لئے نرمی برت رہے ہیں۔ ہر صورت میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ شام میں طاقت کا خلا اب بھی باقی ہے۔ اب خدشہ یہ پایا جا رہا ہے کہ داعش اس طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔
داعش نے بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام میں فوج کے چھوڑے ہوئے فوجی اڈوں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے اور فوج کے ہتھیاروں کے ڈپووں پر قبضے کے علاوہ نئے اور بڑی مقدار میں جدید ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے۔ اب ان کے لئے فرات کے مغرب میں زیادہ اور آسان نقل و حرکت ہے، خاص طور پر شام کے صحرا میں، اور کردوں اور ترک فوج کے درمیان لڑائی نے فرات کے مشرق میں ان کی کارروائیوں کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کر دیا ہے۔ تاہم، یہ کہنا ضروری ہے کہ داعش کی دستے ان کے کمانڈر کئی وجوہات کی بناء پر اداس اور مایوسی کا شکار ہیں اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ بشار الاسد کی معزولی کے بعد اپنی کارروائیوں اور طاقت کو بڑھانے کے لیے استعمال کر پائیں گے۔
داعش کی مایوسی کے اسباب:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ داعش نے شام کی بعثی حکومت اور اہل سنت آبادی کے درمیان اختلاف اور دوری کو اپنے لئے قابل اطمینان سمجھا اور دعویٰ کیا کہ وہ واحد قوت ہے جو شام میں سنیوں کے دشمنوں سے لڑتی رہی ہے اور ادلب میں نہیں جا چھپی۔ بعث حکومت یعنی بشار الاسد اور شامی اہل سنت کے درمیان دوری ہی سنی نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کی بڑی وجہ تھی، یہی باعث رہا کہ داعش بہت زیادہ جانی نقصانات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اب جبکہ اہل سنت شام میں تبدیلی کے بعد خاموش ہو گئے ہیں تو داعش کے لئے شام میں پنپنے کا امکان نہیں بچا، داعش کے حریفوں نے اسد کا تختہ الٹ دیا، اور داعش اب ان کیخلاف کھڑا ہونے کے قابل نہیں، نہ ہی کوئی طاقت کا خلا باقی ہے، جسے داعش پر سکے۔
دوم یہ کہ شام میں غربت اور فقر کیوجہ سے نوجوان داعش بھرتی ہو رہے تھے۔ غربت، بے روزگاری اور افلاس میں لوگوں کے پاس پیٹ پالنے کے لئے ایک آپشن داعش میں مل جانا تھا کہ کم از کم بھوک سے بچ سکیں اور زندہ رہ سکیں۔ لیکن یہ امکان آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ شام کی نئی حکومت کے لیے غیر ملکی امداد میں اضافے، خانہ جنگی کے خاتمے، پناہ گزینوں کی واپسی، اقتصادی پابندیوں کے ممکنہ خاتمے اور بعثی دور کے سخت گیر سیاسی نظام کے بعد شام کی اقتصادی صورت حال میں بہتری آئے گی۔ نتیجتاً، داعش کی بھرتی کی سماجی اور اقتصادی بنیاد بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔
تیسری وجہ یہ کہ داعشی عناصر اپنے جیسے ہی ایسے متبادل کا سامنا کر رہے ہیں، جس کے مقابلے میں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ شامی عوام ابوبکر البغدادی کی خلافت، اس کی افتاد پسندی، اور داعش کے وحشیانہ تشدد جیسے خیالات کو بالکل قبول نہیں کر رہے ہیں، جس میں انفرادی اور سماجی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شام کی نئی حکومت نے بظاہر یہ کر دکھایا ہے کہ وہ داعش کی طرح نہیں ہے اور یقیناً یہ اس حکومت کے لیے خوش آئند بھی ہوگا۔ نتیجے کے طور پر، داعش، جو ماضی میں سنیوں کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اب خود کو ایسی صورت حال اور مخمصے سے گزر رہی ہے کہ کس طرح انہیں شامی سنیوں کا دشمن نہ سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ، جب کہ جولانی حکومت کی اپنی سیاسی روش سے عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے (حالانکہ ان کے لئے اب بھی بہت زیادہ احتیاط اور شک باقی ہے)، داعش کے پاس بیانیہ اور نظریاتی سطح پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
چوتھا یہ ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو دبانے کے لیے اسد سے کہیں زیادہ دباؤ ڈالے گی۔ شام کی پچھلی حکومت اصولی طور پر ملک کے بڑے حصوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں تھی، لیکن نئی حکومت بتدریج تمام علاقوں پر عملداری حاصل کر رہی ہے (سوائے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے)۔ ایسا لگتا ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو مزید سختی سے دبا کر عالمی رائے عامہ اور مغربی حکومتوں کے لیے زیادہ قابل قبول ماحول فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ شام میں مسلسل عدم تحفظ، تنازعات اور خانہ جنگی کی وہ فضا جو داعش میں شمولیت، ان کی نقل و حرکت اور دیگر مسلح گروہوں کی طرح داعش کے گروہ میں شمولیت کی بنیاد فراہم کرتی تھی، ختم ہو چکی ہے۔ نئی رجیم کی طرف سے مختلف گروہوں کے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں شامی فوج میں ضم کرنے سے داعش کو شام کے غیر مستحکم ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شام کی نئی حکومت بشار الاسد ہے کہ داعش ہے کہ شام نہیں ہے داعش کی داعش کے کو مزید میں کا رہی ہے کے لیے کے لئے ہے اور اور ان کے بعد
پڑھیں:
عید پر گندگی: عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کی کارکردگی پر مرتضیٰ وہاب کو کرارا جواب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کی صفائی کرنے سے بھی قاصر ہے جبکہ پنجاب میں ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد ورکرز فیلڈ میں موجود ہیں اور آلائشوں کی بروقت صفائی یقینی بنا رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق وزیر اطلاعات پنجاب نے مرتضیٰ وہاب کے عید کے دن دیے گئے بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پنجاب پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے عوام بدترین گندگی، تعفن اور ناقص صفائی کے باعث پریشان ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں صوبے بھر میں آلائشوں کی بروقت صفائی کے لیے موثر نظام وضع کیا گیا ہے، اور عوام کی جانب سے تعریف و دعائیں موصول ہو رہی ہیں،پنجاب کے لوگ مریم نواز کو دعائیں دے رہے ہیں جبکہ سندھ کی تعفن زدہ فضا میں لوگ اپنی ہی حکومت کو کوس رہے ہیں۔‘‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا ہر جگہ جانا ضروری نہیں، کیونکہ انتظامیہ، وزرا اور 1 لاکھ 40 ہزار ورکرز گراؤنڈ پر متحرک ہیں جبکہ سندھ میں وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم عید کے دنوں سے غائب ہے۔‘‘
انہوں نے مرتضیٰ وہاب کو مشورہ دیا کہ وہ پنجاب کی کارکردگی پر تنقید کے بجائے اپنے شہر کی حالت پر توجہ دیں۔ ’’آپ صرف کراچی کو بھی صاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، 16 سال سے سندھ میں حکومت ہے مگر کارکردگی صفر ہے۔‘‘
عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ یہ بات میڈیا مینجمنٹ کی نہیں بلکہ وہی کچھ دکھایا جا رہا ہے جو حقیقت میں نظر آ رہا ہے۔ ’’میڈیا عوامی آنکھ ہے، جو دیکھ رہا ہے وہی دکھا رہا ہے، حسد کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔‘‘
جماعت اسلامی کی شدید تشویش
دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان نے بھی شہر کی صفائی ستھرائی کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’عید کا دوسرا دن ہے، لیکن کراچی کی گلیاں آلائشوں سے بھری پڑی ہیں، تعفن سے شہری شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اختیار نہ دے کر شہر کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ’’عوام کی خدمت کے دعوے محض کاغذوں تک محدود ہیں، کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔‘‘
منعم ظفر خان نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر تمام ٹاؤنز میں صفائی کے لیے اضافی مشینری اور افرادی قوت فراہم کی جائے تاکہ شہریوں کو بیماریوں اور بدبو سے نجات دلائی جا سکے۔