ملاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ کا ہراسانی کا الزام، پروفیسر گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
ملاکنڈ (مانیٹرنگ ڈیسک) ملاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ نے پروفیسر پر مبینہ طور پر ہراسانی کا الزام لگا دیا، ملاکنڈ لیویز نے پروفیسر کے خلاف مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا اور ملزم کے موبائل فون سے ڈیٹا قبضے میں لے لیا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ ایڈمنسٹریشن آصف رحیم اور اے آئی جی
اسٹیبلشمنٹ سونیاشمروز پر مشتمل ہوگی، گورنر پختونخوا کا اظہار افسوس۔ لیویز ذرائع کے مطابق ملاکنڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے پروفیسر کو معطل کرکے انکوائری ٹیم تشکیل دیدی، طالبہ نے الزام لگایا تھا کہ پروفیسر مسلسل ان کو ہراساں کررہے ہیں۔ پروفیسر طالبہ کے گھر اپنی بیوی کے ہمراہ رشتہ بھی مانگنے گیا تھا جہاں پر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ لیویز ذرائع کے مطابق مبینہ ملزم پروفیسر کا تعلق پشاور سے اور طالبہ ملاکنڈ کی رہائشی ہے۔ میڈیا سیل یونیورسٹی آف ملاکنڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ نے فوری اور سخت اقدامات کیے ہیں، ملزم کو سردست معطل کردیا گیا۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہے، جنہیں تادیبی کارروائی کیلیے سینڈیکیٹ کو بھیجا جائے گا۔ غیر جانبدارانہ تحقیقات یقینی بنانے کیلیے پرعزم ہیں اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سکردو، عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کیخلاف احتجاجی مظاہرہ
یادگار چوک پر منعقدہ مظاہرے سے سید مظاہر حسین موسوی، محمد علی دلشاد، وزیر حسنین و دیگر نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین احسان ایڈووکیٹ سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاری ناقابل برداشت فعل ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے رہنماؤں کی گرفتاری کیخلاف سکردو میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ یادگار چوک پر منعقدہ مظاہرے سے سید مظاہر حسین موسوی، محمد علی دلشاد، وزیر حسنین و دیگر نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین احسان ایڈووکیٹ سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاری ناقابل برداشت فعل ہے۔ گلگت بلتستان کے حالات جان بوجھ کر خراب کئے جا رہے ہیں۔ لینڈ ریفارمز کے نام پر زمینیں ہتھیانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے۔ مقررین نے کہا کہ مائننگ اینڈ منرلز ایکٹ کے نام پر تماشہ لگایا جا رہا ہے، عوام ہوشیار رہیں۔ لینڈ ریفارمز بل اسمبلی میں لانے کے بعد حکومت بند گلی آگئی۔ زمینوں اور پہاڑوں کی قانون سازی عوام سے پوچھے بغیر بند کمروں میں نہیں کی جاسکتی۔