Express News:
2025-09-18@16:14:27 GMT

خطوط کی سیاست اور مفاہمتی امکانات

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

آجکل بانی پی ٹی کے کھلے خطوط کا خوب چرچا ہے۔ لکھنے اور بولنے والے اپنے اپنے انداز میں اس پر اپنا اپناتجزیہ بھی پیش کررہے ہیں۔ جب کہ سیاست دان اپنی اپنی پارٹی کو سامنے رکھ کر رائے دے رہے ہیں۔ ماضی میں ایسے خطوط اوپن نہیں کیے جاتے تھے لیکن اب شاید یہ کلچر تبدیل کردیا ہے۔بانی پی ٹی آئی نے تین فروری، آٹھ فروری اور 13 فروری کو یہ خطوط جاری کیے ہیں۔

آخری خط کی حیثیت ایک کھلے خط کی ہے جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔اس خط میں بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان جہاں خلیج پیدا ہوئی ہے، فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے بہت سے معاملات خراب ہوئے ہیں۔ بانی کی نظر میں ان کی پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ زیادتی کررہی ہے ، خط میں اس کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو مکمل طور پر دیوار سے لگانے کا نقصان صرف ایک جماعت کو ہی نہیں ہو رہا بلکہ جمہوری عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔

یہ خطوط تو اپنی جگہ رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی خطوط بھی لکھ رہے ہیں اور وہ مذاکرات بھی انھیں سے کرنا چاہتے ہیں، جنھیں خطوط لکھ رہے ہیں۔اب بھی یہ تین خطوط لکھ کر بنیادی طور پر انھوں نے اسٹیبلشمنٹ پر ہی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

 آرمی چیف نے تو اس خط یا خطوط پر پوزیشن واضع کردی ہے ۔ان کے بقول اول توان کو اس طرز کے کوئی خطوط نہیں ملے اگرملے تووہ اسے نہیں پڑھیں گے بلکہ ان خطوط کو وہ وزیر اعظم کو بھیج دیں  گے۔آرمی چیف نے جو کچھ کہا وہ درست ہے کیونکہ ان کے منصب کاتقاضہ ہے وہ یہ ہی کہیں جو انھوں نے کہا ہے۔ویسے آرمی چیف کا ان خطوط پر بیانات شہباز شریف کی حکومت کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے اور وزیر اعظم سمیت حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کی قیادت کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے ۔

پیغام دیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آج بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور آنے والے وقت میں اس کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیںہوگا۔حکومت کے لیے اہم پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور بانی پی ٹی آئی کے تعلقات نہ صرف خراب رہیں گے بلکہ ان میں کسی بھی سطح پر کوئی مفاہمت کے امکانات پیدا نہ ہوں گے۔یہ ہی وجہ ہے حکومتی حکمت عملی میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ پی ٹی آئی کا کوئی حکومت پر سیاسی دباؤ ہے۔

اصل میں تو اوپن لیٹر سے مراد یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد میں اس خط کی رسائی ممکن ہو سکے۔کیونکہ خط لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا ہے وہ صرف اسی کو نہیں سنانا چاہتا جس کو وہ مخاطب ہے۔ بلکہ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں ان تمام لوگوں کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے جن کو پاکستانی سیاست میں کوئی دلچسپی ہے۔کیونکہ بیانیہ کی اس جنگ میں مسلسل متحرک رہنا اہم ہوتا ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو داخلی اور خارجی سیاست میں ایک بڑی طاقت میں تبدیل کر یں تاکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان میں سیاسی ، معاشی اور ادارہ جاتی بحران ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے جانے والے خطوط پاکستان اور پاکستان سے باہر زیر بحث ہیں اور لوگ اپنے اپنے انداز پر اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔اس لیے خط کے مندرجات کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ان خطوط سے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے، اگر کچھ بات چیت چل بھی رہی تو اس کے امکانات مزید محدود ہوںگے۔ویسے بھی اب تک جو کچھ اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ ہوا ور اس میں جو بھی کردار شامل ہوئے کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اب عید کے بعد پی ٹی آئی قومی سطح دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی سیاسی تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہے۔مفاہمت کی ناکامی قومی سیاست کی ناکامی ہے اور اس سے جمہوری سیاست میںاورزذیادہ تلخیاں پیدا ہوںگی۔ویسے ہی پاکستان کی جمہوری سیاست مقدمہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے اور واقعی جمہوری سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں۔خطوط کی یہ سیاست سیاسی اور غیر سیاسی فریقین میں مزید تلخیاں اور ٹکراؤ کے ماحول کو پیدابھی کرے گا سیاست میں نئی پیچیدگیوں کو بھی پیدا کرے گا۔

اصولی طورپر توحکومت ہو یاحزب اختلاف یا اسٹیبلیشمنٹ سب کو اپنے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر ایک بڑے قومی،سیاسی اور جمہوری فریم ورک پرمتفق ہونا پڑے گا۔کیونکہ موجودہ ٹکراو اور محازآرائی کی سیاست کس کے بھی حق میں نہیں ہے اور سب کو اس ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سب نے ایک دوسرے کے مقابلے میں لنگوٹ کس لیے ہیں اور سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں اس انداز سے تبدیل کردیا ہے کہ کوئی کسی کے سیاسی وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم بات چیت اور مکالمہ کی سیاست سے بہت دور چلے گئے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی بقا جمہوری سیاست اور آئین و قانون کی بالادستی سمیت اداروں کی خود مختاری اور ہر ادارے کا اپنی اپنی حدودمیں ر ہ کر کام کرنے سے جڑاہوا ہے۔اگر ہم اس اصول کوبنیاد بناکراپنی ریاستی اورسیاسی ترجیحات کاتعین کرلیں توبہتری کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جو ہمیں ریاستی اور حکمرانی کے محاذ پر بڑے اہم مسائل درہیش ہیں اس علاج مہم جوئی اور ٹکراو کی سیاست سے ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ فیصلہ سا ز حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ مجموعی طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کیونکہ لڑائی اور ٹکراو کی سیاست میں ہم نے پہلے ہی بہت کچھ برباد کردیاہے اور اب بھی برباد کررہے ہیں۔

ہمیں اگر پاکستان کو سیاسی،انتظامی، قانونی، آئینی، سیکیورٹی اورمعاشی بنیادوں پر مستحکم کرنا ہے تویہ کام موجودہ سطح کی سیاست اوراس طرز عمل سے ممکن نہیں ہوگا۔ سیاست، معیشت میں بند دائروں کو کھولنے کے لیے بند راستوں کو کھولنا ہوگا مگر یہ تب ہی تو ممکن ہوگا جب ہم اپنے اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکلیں اور ریاستی سمیت عام آدمی کے مفادات کو زیادہ اہمیت دیںاور یہ ہماری قومی سطح کی ترجیحات کااہم حصہ ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی جمہوری سیاست اپنے اپنے سیاست میں پی ٹی آئی سیاست سے کی سیاست کے ساتھ رہے ہیں سے باہر کے لیے ہے اور

پڑھیں:

اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے متنازع میچ ریفری اینڈی پائیکرافٹ کی جانب سے معافی مانگنے کے بعد کہا ہے کہ کئی لوگوں نے میچ ریفری کے معاملے میں تعاون کیا، مسلسل اس ایشو کو دیکھ رہے تھے، خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا فیصلہ ہوگا۔
محسن نقوی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، مجھے امید ہے آئندہ ہم کرکٹ پر فوکس کریں گے سیاست پر نہیں، ہمارا وقت کرکٹ پر لگنا چاہیے سیاست پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم سے امید ہے، وہ عمدہ پرفارمنس دکھائے گئی، قوم کو کہوں گا کہ ٹورنامنٹ کے آخر تک انہیں سپورٹ کریں، اگر کھلاڑیوں کی خامیاں ہوں گی تو ضرور انہیں دور کریں گے، ہمارے پاس سلیکٹرز کا پینل ہے جو پرفارمنس کا جائزہ لے گا، میرا وعدہ ہے کہ کہیں کمزوری نظر آئی تو اُسے دور کریں گے۔
اس موقع پر سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف رہا کہ کھیل میں سیاست نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے سیاست کی، ہم نے سیاست نہیں کھیلی، ہم نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، پاکستان نے میچ ریفری کی معافی کا کہا ہے اور وہ معافی آچکی ہے۔
سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے، اینڈی پائیکرافٹ لگتا ہے بھارت کے فیورٹ ہیں، اینڈی پائیکرافٹ مستقل فکسر ہیں، وہ 90 مرتبہ بھارت کے میچز میں میچ ریفری رہے ہیں، جو کہ حیرت انگیز بات ہے۔
رمیز راجہ نے مزید کہا کہ یہ ہماری فتح ہے، ایک نازک صورتحال بن گئی تھی، خوشی ہوئی کہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا گیا، جتنی بھی بات کرنی ہو، اسے پاکستان ٹیم کی پرفارمنس کے ذریعے جواب دینا ہوگا، جو بھی ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں وہ آپ فیلڈ میں بتائیں کہ ہم کتنے گریٹ کرکٹ نیشن ہیں۔
رمیز راجہ نے مزید کہا کہ پوسٹ میچ میں کی گئی بات مجھے بہت بُری لگی، اس کا ذمہ دار کون ہوگا، جو معافی آئی ہے، وہ اچھا اقدام ہے، کرکٹ کو کرکٹ ہی رہنے دینا چاہیے، یہ پولیٹیکل پلیٹ فارم بن جائے گا تو یہ سلسلہ پھر رکے گا نہیں، محسن نقوی نے بتایا کہ اس معاملے کی انکوائری ہوگی، اس کے ذمہ داران کا پتا لگا جائے گا۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • میچ ریفری تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی،محسن نقوی
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی
  • حریت پسندکشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ  داعی اجل کو لبیک کہہ گئے
  • ْپاکستان اورفلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • پاکستان اور چین کے درمیان زراعت، ماحولیات اور ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟