خطوط کی سیاست اور مفاہمتی امکانات
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
آجکل بانی پی ٹی کے کھلے خطوط کا خوب چرچا ہے۔ لکھنے اور بولنے والے اپنے اپنے انداز میں اس پر اپنا اپناتجزیہ بھی پیش کررہے ہیں۔ جب کہ سیاست دان اپنی اپنی پارٹی کو سامنے رکھ کر رائے دے رہے ہیں۔ ماضی میں ایسے خطوط اوپن نہیں کیے جاتے تھے لیکن اب شاید یہ کلچر تبدیل کردیا ہے۔بانی پی ٹی آئی نے تین فروری، آٹھ فروری اور 13 فروری کو یہ خطوط جاری کیے ہیں۔
آخری خط کی حیثیت ایک کھلے خط کی ہے جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔اس خط میں بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان جہاں خلیج پیدا ہوئی ہے، فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے بہت سے معاملات خراب ہوئے ہیں۔ بانی کی نظر میں ان کی پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ زیادتی کررہی ہے ، خط میں اس کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو مکمل طور پر دیوار سے لگانے کا نقصان صرف ایک جماعت کو ہی نہیں ہو رہا بلکہ جمہوری عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔
یہ خطوط تو اپنی جگہ رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی خطوط بھی لکھ رہے ہیں اور وہ مذاکرات بھی انھیں سے کرنا چاہتے ہیں، جنھیں خطوط لکھ رہے ہیں۔اب بھی یہ تین خطوط لکھ کر بنیادی طور پر انھوں نے اسٹیبلشمنٹ پر ہی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
آرمی چیف نے تو اس خط یا خطوط پر پوزیشن واضع کردی ہے ۔ان کے بقول اول توان کو اس طرز کے کوئی خطوط نہیں ملے اگرملے تووہ اسے نہیں پڑھیں گے بلکہ ان خطوط کو وہ وزیر اعظم کو بھیج دیں گے۔آرمی چیف نے جو کچھ کہا وہ درست ہے کیونکہ ان کے منصب کاتقاضہ ہے وہ یہ ہی کہیں جو انھوں نے کہا ہے۔ویسے آرمی چیف کا ان خطوط پر بیانات شہباز شریف کی حکومت کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے اور وزیر اعظم سمیت حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کی قیادت کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے ۔
پیغام دیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آج بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور آنے والے وقت میں اس کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیںہوگا۔حکومت کے لیے اہم پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور بانی پی ٹی آئی کے تعلقات نہ صرف خراب رہیں گے بلکہ ان میں کسی بھی سطح پر کوئی مفاہمت کے امکانات پیدا نہ ہوں گے۔یہ ہی وجہ ہے حکومتی حکمت عملی میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ پی ٹی آئی کا کوئی حکومت پر سیاسی دباؤ ہے۔
اصل میں تو اوپن لیٹر سے مراد یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد میں اس خط کی رسائی ممکن ہو سکے۔کیونکہ خط لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا ہے وہ صرف اسی کو نہیں سنانا چاہتا جس کو وہ مخاطب ہے۔ بلکہ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں ان تمام لوگوں کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے جن کو پاکستانی سیاست میں کوئی دلچسپی ہے۔کیونکہ بیانیہ کی اس جنگ میں مسلسل متحرک رہنا اہم ہوتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو داخلی اور خارجی سیاست میں ایک بڑی طاقت میں تبدیل کر یں تاکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان میں سیاسی ، معاشی اور ادارہ جاتی بحران ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے جانے والے خطوط پاکستان اور پاکستان سے باہر زیر بحث ہیں اور لوگ اپنے اپنے انداز پر اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔اس لیے خط کے مندرجات کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ان خطوط سے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے، اگر کچھ بات چیت چل بھی رہی تو اس کے امکانات مزید محدود ہوںگے۔ویسے بھی اب تک جو کچھ اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ ہوا ور اس میں جو بھی کردار شامل ہوئے کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اب عید کے بعد پی ٹی آئی قومی سطح دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی سیاسی تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہے۔مفاہمت کی ناکامی قومی سیاست کی ناکامی ہے اور اس سے جمہوری سیاست میںاورزذیادہ تلخیاں پیدا ہوںگی۔ویسے ہی پاکستان کی جمہوری سیاست مقدمہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے اور واقعی جمہوری سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں۔خطوط کی یہ سیاست سیاسی اور غیر سیاسی فریقین میں مزید تلخیاں اور ٹکراؤ کے ماحول کو پیدابھی کرے گا سیاست میں نئی پیچیدگیوں کو بھی پیدا کرے گا۔
اصولی طورپر توحکومت ہو یاحزب اختلاف یا اسٹیبلیشمنٹ سب کو اپنے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر ایک بڑے قومی،سیاسی اور جمہوری فریم ورک پرمتفق ہونا پڑے گا۔کیونکہ موجودہ ٹکراو اور محازآرائی کی سیاست کس کے بھی حق میں نہیں ہے اور سب کو اس ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سب نے ایک دوسرے کے مقابلے میں لنگوٹ کس لیے ہیں اور سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں اس انداز سے تبدیل کردیا ہے کہ کوئی کسی کے سیاسی وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم بات چیت اور مکالمہ کی سیاست سے بہت دور چلے گئے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی بقا جمہوری سیاست اور آئین و قانون کی بالادستی سمیت اداروں کی خود مختاری اور ہر ادارے کا اپنی اپنی حدودمیں ر ہ کر کام کرنے سے جڑاہوا ہے۔اگر ہم اس اصول کوبنیاد بناکراپنی ریاستی اورسیاسی ترجیحات کاتعین کرلیں توبہتری کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جو ہمیں ریاستی اور حکمرانی کے محاذ پر بڑے اہم مسائل درہیش ہیں اس علاج مہم جوئی اور ٹکراو کی سیاست سے ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ فیصلہ سا ز حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ مجموعی طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کیونکہ لڑائی اور ٹکراو کی سیاست میں ہم نے پہلے ہی بہت کچھ برباد کردیاہے اور اب بھی برباد کررہے ہیں۔
ہمیں اگر پاکستان کو سیاسی،انتظامی، قانونی، آئینی، سیکیورٹی اورمعاشی بنیادوں پر مستحکم کرنا ہے تویہ کام موجودہ سطح کی سیاست اوراس طرز عمل سے ممکن نہیں ہوگا۔ سیاست، معیشت میں بند دائروں کو کھولنے کے لیے بند راستوں کو کھولنا ہوگا مگر یہ تب ہی تو ممکن ہوگا جب ہم اپنے اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکلیں اور ریاستی سمیت عام آدمی کے مفادات کو زیادہ اہمیت دیںاور یہ ہماری قومی سطح کی ترجیحات کااہم حصہ ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی جمہوری سیاست اپنے اپنے سیاست میں پی ٹی آئی سیاست سے کی سیاست کے ساتھ رہے ہیں سے باہر کے لیے ہے اور
پڑھیں:
بھارت ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتا، حریت کانفرنس
حریت ترجمان نے کشمیری شہداء کے مشن کو ہر قیمت پر اسکے منطقی انجام تک جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ بھارتی قابض فورسز غیر قانونی گرفتاریوں، کریک ڈان اور دیگر مظالم کے ذریعے کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے ان کے منصفانہ سیاسی مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ذرائع کے مطابق حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں بھارتی مظالم میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں پر قدغن، جائیدادوں کی ضبطگی اور گھروں پر چھاپوں اور تلاشی کی مسلسل کارروائیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے 11جون 1991ء کے سانحہ چوٹا بازار کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ حریت ترجمان نے کشمیری شہداء کے مشن کو ہر قیمت پر اسکے منطقی انجام تک جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیا۔ 11 جون 1991ء کو سرینگر کے علاقے چوٹہ بازار میں بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے بلااشتعال فائرنگ کر کے خواتین اور بچوں سمیت 30 کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے تاکہ مستقبل میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کے سانحات کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فورسز ظلم و بربریت اور قتل عام کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتی۔ بھارتی حکام نے ہزاروں کشمیری سیاسی قیدیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قوانین کے تحت جیلوں میں نظربند کر رکھا ہے۔ حریت ترجمان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکرٹری حسین ابراہیم طحہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا فوری نوٹس لینے کی اپیل کی۔