اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) مصر کے سرکاری اخبار الاحرام نے کہا کہ اس ''عرب منصوبے‘‘ میں غزہ کے اندر ''محفوظ علاقے‘‘ قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جہاں فلسطینی ابتدائی طور پر رہ سکیں گے، جبکہ مصری اور بین الاقوامی تعمیراتی کمپنیاں غزہ پٹی کے ملبے کو ہٹا کر بنیادی ڈھانچہ دوبارہ تعمیر کریں گی۔

دو مصری حکام، عرب اور مغربی سفارت کاروں کے مطابق مصر اس حوالے سے نہ صرف یورپی ممالک بلکہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی بات چیت میں مصروف ہے۔ ایک مصری عہدیدار اور ایک عرب سفارت کار نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ وہ تعمیر نو کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں، جس میں غزہ کی تعمیر نو پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

عہدیداروں اور سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس منصوبے کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ اس تجویز پر ابھی بات چیت جاری ہے۔

صدر ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟

مصر کی جانب سے یہ تجویز امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے بعد سامنے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے غزہ کے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کو مصر یا اردن منتقل کرنے کا کہا تھا، جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے بعد امریکہ غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھال لے گا۔

فلسطینیوں نے بڑے پیمانے پر کہا ہے کہ وہ اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے، جبکہ مصر، اردن، قطر اور سعودی عرب نے بھی صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق یہ منصوبہ جبری بے دخلی کے مترادف ہے، جو ایک ممکنہ جنگی جرم ہے۔

یورپی ممالک نے بھی بڑے پیمانے پر ٹرمپ کے منصوبے کی مذمت کی ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس خیال کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس پر عمل درآمد کی تیاری کر رہا ہے۔ عرب ممالک کا منصوبہ اور امریکی ردعمل

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے، جو پیر 17 فروری کو سعودی عرب میں تھے، کہا ہے کہ امریکہ متبادل تجاویز سننے کے لیے تیار ہے۔

قبل ازیں روبیو نے جمعرات کو ایک امریکی ریڈیو پر کہا تھا اگر عرب ممالک کے پاس کوئی بہتر منصوبہ ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔

مصر کے الاحرام اخبار نے کہا کہ یہ ''عرب منصوبہ امریکی صدر ٹرمپ کی منطق کی تردید اور غزہ پٹی کے جغرافیائی اور آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے کسی بھی دوسرے تصور یا منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

‘‘

غزہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے کیوں کہ مارچ کے اوائل میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ختم ہو جائے گا۔ اسرائیل اور حماس کو اب دوسرے مرحلے پر بات چیت کرنا ہو گی، جس کا مقصد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تمام باقی ماندہ اسرائیلی افراد کی رہائی، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلاء اور طویل مدت تک جنگ کو روکنا ہے۔

غزہ کا مستقبل کیا ہو گا؟

غزہ کی تعمیر نو کے کسی بھی منصوبے کو دوسرے مرحلے کے معاہدے کے بغیر نافذ کرنا ناممکن ہو گا، جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ طویل المدتی سطح کے لیے غزہ پر حکومت کون کرے گا؟ اسرائیل اس علاقے میں ایک سیاسی یا فوجی قوت کے طور پر حماس کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر حماس ہی غزہ کی انچارج ہوئی تو یہ امکان کم ہی ہو گا کہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان غزہ کی تعمیر نو میں حصہ ڈالیں گے۔

غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کی کوششوں میں شامل دو مصری عہدیداروں کے مطابق ان کی تجویز یہ ہے کہ ایک ایسی مرکزی فلسطینی انتظامیہ قائم کی جائے، جو اس پٹی کو چلانے کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کی کوششوں کی نگرانی کرے اور وہ حماس یا فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ منسلک نہ ہو۔

عرب فورس کی تعیناتی کا معاملہ

غزہ میں عرب فورس کی تعیناتی کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر ایک مصری اہلکار اور ایک عرب سفارت کار نے کہا کہ عرب ممالک صرف اُسی صورت میں متفق ہوں گے، جب ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی ''واضح راستہ‘‘ موجود ہو گا۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کسی بھی فلسطینی ریاست کے ساتھ ساتھ حماس یا مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے غزہ پر حکمرانی کے لیے کسی بھی کردار کو مسترد کر دیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کوئی متبادل بھی پیش نہیں کیا۔

حماس اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار

دریں اثنا حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔

حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے اتوار کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کا گروپ حماس کی شرکت کے بغیر فلسطینی اتحاد کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے یا یہ کہ اس علاقے کو چلانے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی ایک کمیٹی بنائی جائے۔ مغربی ممالک 'عرب منصوبے کے ساتھ‘

ایک مغربی سفارت کار نے بتایا کہ فرانس اور جرمنی نے عرب ممالک کے اس خیال کی حمایت کی ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے کی جوابی تجویز پیش کی جائے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس ماہ کے شروع میں فرانسیسی صدر کے ساتھ ایک فون کال میں اپنی حکومت کی کوششوں پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔

مصری حکام میں سے ایک نے بتایا کہ مصری وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ اور یورپی یونین کے دیگر حکام کو بھی اس منصوبے سے آگاہ کیا۔

دو مصری حکام اور ایک عرب سفارت کار کے مطابق مصر، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے حکام اس ہفتے ریاض میں ہونے والے ایک اجتماع میں مصر کے اس منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے اور پھر رواں ماہ کے آخر میں عرب سربراہی اجلاس کے موقع پر اسے متعارف کرایا جائے گا۔

غزہ میں کتنی تباہی ہوئی ہے؟

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً ایک چوتھائی ملین مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ سڑکیں اور 80 فیصد سے زیادہ صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے یا یہ تباہ ہو چکی ہیں۔ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 30 بلین ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ مکانات کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 16 بلین ڈالر ہے۔

مصری حکام نے کہا کہ ''عرب منصوبے‘‘ میں تین مرحلوں پر مشتمل تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو نکالے بغیر پانچ سال تک کا وقت لگے گا۔ دو درجن سے زیادہ مصری اور بین الاقوامی فرمیں ملبہ ہٹانے اور پٹی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں حصہ لیں گی۔ حکام نے کہا ہے کہ تعمیر نو سے غزہ کی آبادی کو دسیوں ہزار نوکریاں بھی ملیں گی۔

ا ا / ا ب ا، ر ب (اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غزہ کی تعمیر نو بین الاقوامی کے لیے تیار منصوبے کی سفارت کار مصری حکام عرب ممالک نے کہا کہ کہا ہے کہ کے مطابق بتایا کہ کسی بھی کے ساتھ کرنے کے ٹرمپ کے گیا ہے

پڑھیں:

مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید

مصر کے سابق نائب صدر اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ مصر کے سابق نائب صدر محمد البرادعی جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں نے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر خاموشی کے باعث عرب ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: "عالمی سطح پر حکومتوں، تنظیموں اور ماہرین میں اس بات پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے جنگی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے انسانیت کے خلاف دیگر جرائم بھی انجام دیے ہیں۔ مزید برآں، کچھ ممالک جیسے کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، ترکی اور بولیویا نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے اور بنگلہ دیش، بولیویا، جزر القمر، جیبوتی، چلی اور میکسیکو جیسے ممالک نے عالمی فوجداری عدالت میں بھی اسرائیل کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔ لیکن عرب حکومتوں کی اکثریت نے اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہم ہی اس مسئلے کے حقیقی مدعی ہیں۔" انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں گا۔"
 
محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور بڑی تعداد میں صارفین نے ان کے اس پیغام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ عرب حکومتیں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے اظہار کو اپنے ملک کے اندر مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایک مصری صافر نے جواب میں لکھا: "اگر آپ، محترم ڈاکٹر صاحب، حقیقت بیان کرنے سے خوفزدہ ہیں تو ہم کیا کریں؟ عرب ڈکٹیٹرز نے اسرائیل کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اسے اپنی عوام کو ڈرا سکیں۔" ایک اور صارف نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ عرب حکومتیں بین الاقوامی اداروں کی مدد حاصل کرنے کی بجائے امریکہ سے مداخلت کی درخواست کرتی ہیں۔ اس نے مزید لکھا: "یہ صورتحال مجھے کچھ ایسے مخالفین کی یاد دلاتی ہے جو نظام کے اندر سے اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ یوں سزا پانے سے بچ سکیں۔" کلی طور پر محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور ان تمام پیغامات میں غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر عرب حکومتوں کی خاموشی قابل مذمت قرار دی گئی ہے۔
 
یاد رہے جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023ء میں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس رژیم نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام دے کر نسل کشی کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جیسے برازیل، نکارا گویا، کیوبا، آئرلینڈ، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور ترکی نے اس مقدمے کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ نے اکتوبر 2024ء میں عدالت کو 500 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی تھی جس میں غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔ غاصب صیہونی رژیم نے آئندہ دو ماہ میں اپنی دفاعیات عدالت میں پیش کرنی ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 2027ء میں عدالت کا حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل کے 11ویں ایڈیشن کی تیاریاں، پی سی بی کا نیا اقدام
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • بلدیاتی انتخابات، استحکام پاکستان پارٹی نے تیاریاں شروع کر دیں
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
  • مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
  • پنجاب میں وال چاکنگ پر مکمل پابندی عائد، صوبے بھر میں بیوٹیفکیشن منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ
  • لاہورمیں زیرِ زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے نیا منصوبہ شروع
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 
  • امریکا میں 5 لاکھ الّومارنے کے منصوبے پر کڑی تنقید