غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ بنائے جارہے ہیں،عوامی تحریک
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)عوامی تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار، مرکزی رہنما لال جروار، مرکزی نائب صدر ستار رند، ضلع نوشہروفیروز کے صدر لطیف بھٹی، جنرل سیکرٹری حسین سومرو اور دیگر رہنماؤں نے نوشہروفیروز پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کارپوریٹ فارمنگ،6 نئے کینال، لاقانونیت، بہاریوں، برمیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے خلاف عوامی تحریک کی جانب سے آج (19 فروری کو) تنگوانی میں ریلی اور 20 فروری کو شکارپور میں کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ رہنماؤں نے کہا کہ پیپلز پارٹی بلاول کو وزیرِاعظم بنانے کے لیے سندھیوں کی نسل کشی کے منصوبوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ ایک طرف سندھ کے پانی اور زمینوں کو پیپلز پارٹی کی قیادت نیلام کر رہی ہے تو دوسری طرف سندھی عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے بہاریوں، بنگالیوں، ہندوستانیوں اور برمیوں کو شناختی کارڈ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی بھی ان سندھ دشمن سازشوں میں پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے کے لیے غیرملکیوں کو سندھی عوام پر مسلط کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں لاقانونیت کو فروغ دے کر صوبے کے امن و امان کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ غیرقانونی غیرملکیوں کو سندھ پر مسلط کر کے یہاں ایک اور اسرائیل بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ عالمی سامراجی قوتیں بھارت، افغانستان اور بنگال کے جرائم پیشہ گروہوں کو سندھ میں آباد کرنا چاہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار کی لالچ میں سندھ کے وجود پر حملہ کیا ہے اور صوبے کی آبادیاتی ترکیب (ڈیموگرافی) کو تبدیل کرنے کی سازش کی ہے۔ بہاریوں، برمیوں اور ہندوستانیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ سندھ دشمنی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ان سندھ دشمن اور ملک دشمن پالیسیوں کے خلاف عوامی تحریک سڑکوں پر نکل کر اس کے مکروہ چہرے کو عوام کے سامنے بے نقاب کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سندھیوں کی نسل کشی کے منصوبے کسی بھی صورت قبول نہیں کیے جائیں گے۔ سندھ کے عوام کی پُرامن جدوجہد نے تمام آمروں اور جابروں کو ہمیشہ ذلیل وخوار کیا ہے، اور پیپلز پارٹی کا بھی یہی انجام ہوگا۔ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کے وطن فروش ٹولے کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی شناختی کارڈ عوامی تحریک کر رہی ہے سندھ کے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔
صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔
پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔
بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔
سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔