کھوسہ صاحب آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ،آپ نے ٹوڈی سیکشن ختم کرنے کا کیاقدم اٹھایا؟جسٹس جمال کا استفسار
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کےٹرائلز کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کھوسہ صاحب تاریخ میں جائیں تو آپ کی بڑی لمبی پروفائل ہے،آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں،آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے ٹوڈی سیکشن ختم کرنے کا کیاقدم اٹھایا،ہماری طرف سے بے شک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کر دے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کےٹرائلز کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہا ہے، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ قرآن پاک اور دین اسلام میں بھی عدلیہ کی آزادی کا ذکر موجود ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی خلفائے راشدین کے دور میں بھی تھی،لطیف کھوسہ نے کہا کہ خلیفہ وقت کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ آتا تھاوہ وقت بھی تھا،سیکشن ٹو ڈی کا قانون 1967میں لایا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا آئین میں قانون سازی کرنے پر کوئی ممانعت ہے،لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس کیلئے انہیں 21ویں ترمیم کرنا پڑی،سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ملٹری ٹرائل میں ججز اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا، اس لئے 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کی گئی،جسٹس امین الدین نے کہاکہ کھوسہ صاحب، آپ پھر دوسرے طرف چلے گئے ہیں۔
چیمپئنزٹرافی؛قومی ٹیم کن کھلاڑیوں کیساتھ میدان میں اترے گی؟جانیے
لطیف کھوسہ نے کہاکہ میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کررہا،ساری عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے،سیکشن ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے،ملٹری ٹرائل خفیہ کیا جاتا ہے،جسٹس امین الدین نے کہاکہ خواجہ حارث نے بتایا کہ شفاف ٹرائل کا پورا طریقہ کار ہے،پروسیجراگر فالو نہیں ہوتا تو وہ الگ ایشو ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کھوسہ صاحب تاریخ میں جائیں تو آپ کی بڑی لمبی پروفائل ہے،آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں،آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے ٹوڈی سیکشن ختم کرنے کا کیاقدم اٹھایا،ہماری طرف سے بے شک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کر دے۔
چیمپئنزٹرافی؛پاکستان اور نیوزی لینڈ میچ کاٹاس کتنے بجے ہوگا؟صحیح وقت جانیے
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ لطیف کھوسہ نے کھوسہ صاحب
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اپریل 2025ء ) سسپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹادیں۔ تفصیلات کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں، عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کوڈیڑھ سال گزرچکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کرہا‘، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی‘، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’کسی قتل اور زناء کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی‘۔(جاری ہے)
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا‘، جسٹس صلاح الدین پنہور ے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے‘۔ اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلئے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا، ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلئے مطمئن نہیں کرسکی‘۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، ہم تین رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، آٹھ سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا‘، بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کردیں۔