Daily Ausaf:
2025-04-26@03:27:51 GMT

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی،عالمی احتجاج اورتنقید

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

امریکاکی تجارتی پالیسی میں حالیہ ترامیم نے بین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچادی ہے۔ٹرمپ کی جانب سے چین،کینیڈااور میکسیکوسے درآمدات پراضافی ٹیرف عائدکرنے کے فیصلے نے تجارتی شراکت داروں کوناراض کردیاہے اورعالمی منڈی میں عدم استحکام پیداکردیاہے۔ٹرمپ کے ان اقدامات سے عالمی ماہرین کوخدشہ پیداہوگیاہے کہ دنیاایک نئے مہنگائی کے طوفان میں مبتلاہونے جارہی ہے جس سے خودامریکی عوام کے ساتھ ساتھ یورپ بھی اس سے شدیدمتاثرہوسکتاہے۔
مزید برآں ٹرمپ کی قیادت میں امریکاکی خارجہ ودفاعی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کاامکان ظاہر کیاجارہاہے۔کیاآئندہ مستقبل میں ٹرمپ انتخابی وعدوں کے مطابق نیٹوسے بھی لاتعلقی کااظہار کر سکتا ہے؟اگرایسا ہو اتو یورپی یونین سے پہلے ہی ڈنمارک کے جزیرہ گرین لینڈکے حوالے سے تعلقات کشیدہ ہورہے ہیں اور نیٹو ممبرہونے کی بناپرتمام نیٹوممبران ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اس حوالے سے امریکاکی دفاعی اورخارجہ پالیسی کوکس قدرنقصان ہوسکتاہے اوربالخصوص یوکرین کی جنگ میں ٹرمپ کیا کرداراداکرنے جارہا ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں بیانات پرعرب ممالک کوشدیدتشویش ہورہی ہے۔ نیٹو سے ممکنہ لاتعلقی،یوکرین جنگ میں امریکی کردار اور مشرق وسطیٰ میں پالیسی میں تبدیلیاں عالمی سطح پرسفارتی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔خاص طورپرڈنمارک کے جزیرہ گرین لینڈپرکشیدگی،نیٹوکے مستقبل،اورمشرق وسطیٰ میں غزہ کے معاملے پرٹرمپ کے بیانات نے دنیا بھر میں تشویش پیداکردی ہے اور اب ٹرمپ کی نئی جاری کردہ پالیسیوں سے جوعالمی تجارتی بحران پیداہوگیا ہے،یہ کس قدرخودامریکا،اس کے اتحادیوں اوردنیا کے دیگرممالک پراثرانداز ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین،کینیڈااور میکسیکو سے درآمدہونے والی اشیاء پربالترتیب25 فیصد اور 10 فیصد اضافی محصولات عائدکئے ہیں ۔ اس کابنیادی مقصد امریکی معیشت کوتحفظ دینااورغیرملکی مصنوعات پرانحصار کم کرناہے۔تاہم،اس کے نتیجے میں عالمی تجارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں اورمختلف ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ، امریکی صارفین پربھی قیمتوں میں اضافے کے دبائوکا امکان ہے،جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتاہے۔
جسٹن ٹروڈونے کہاہے کہ کینیڈاٹرمپ کی جانب سے کینیڈین درآمدات پرعائدکیے جانے والے محصولات کے جواب میں اپنے محصولات متعارف کرا دئیے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ کینیڈا ایسا نہیں چاہتا لیکن وہ امریکی اقدامات کاجواب دینے کے لئے تیار ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے امریکی فیصلے کوغیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے 155ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات پر جوابی25فیصد محصولات لگانے کااعلان کردیا ہے۔ 30 ارب ڈالرکی مصنوعات پرمنگل سے نافذالعمل ہوں گے جبکہ21 دن میں مزید125 ارب ڈالرکا اطلاق ہوگاتاکہ کینیڈین فرموں کوایڈجسٹ ہونے کاوقت مل سکے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیاوہ کینیڈین حوالہ دے رہے ہیں یا امریکی ڈالرکا۔اس حوالے سے وہ جلدہی میکسیکو کے صدرکلاڈیاشین بام سے بھی مشاورت کریں گے اورکینیڈین عوام سے خطاب کریں گے۔
ان کاکہناہے کہ یہ ردعمل’’دوررس‘‘ ہوگا اور اس میں امریکی بیئر،شراب،بوربون،پھلوں اورپھلوں کے جوس بشمول نارنجی کاجوس، سبزیاں، پرفیوم، کپڑے اورجوتے شامل ہوں گے ۔اس میں گھریلوسامان اورفرنیچراورلکڑی اورپلاسٹک جیسے سامان بھی شامل ہوں گے۔جسٹس ٹروڈوکاکہناہے کہ انہوں نے20جنوری کوٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعدان سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ابھی بات نہیں ہوئی۔ٹروڈونے دسمبرمیں فلوریڈاکے اپنے ریزورٹ مارلاگومیں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جب انہوں نے محصولات کوروکنے کی کوشش کی تھی۔
یادرہے کہ جسٹن ٹروڈواورٹرمپ کے درمیان کئی بارمتنازع تعلقات رہے ہیں لیکن ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران دونوں نے مل کر کام کیاتھا۔یہ پوچھے جانے پرکہ کیاان کے خیال میں امریکی محصولات واقعی امریکامیں فینٹانیل کے بہائوکوکم کرنے کی خواہش کی وجہ سے ہیں،جیساکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیاہے،ٹروڈونے کہا کہ امریکااورکینیڈاکی سرحد ،دنیاکی سب سے مضبوط اور محفوظ سرحدوں میں سے ایک ہے۔ امریکاجانے والے فینٹانل کاایک فیصدسے بھی کم حصہ کینیڈاسے آتاہے جبکہ امریکاجانے والے غیرقانونی تارکین وطن میں سے ایک فیصدسے بھی کم کینیڈاسے آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ مزیدکچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔کینیڈاکے خلاف یہ تجارتی کارروائی زندگیاں بچانے کے لئے مل کرکام کرنے کابہترین طریقہ نہیں ہے۔آئندہ چندہفتے کینیڈین اورامریکیوں کے لئے مشکل ہوں گے۔ امریکیوں کی اس تجارتی کارروائی اورہمارے ردعمل کے حقیقی نتائج ہماری سرحدکے دونوں طرف کے لوگوں اور کارکنوں پرمرتب ہوں گے۔ہم یہ نہیں چاہتے تھے لیکن ہم کینیڈاکے لوگوں کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اورنہ ہی کینیڈااور امریکا کے درمیان کامیاب شراکت داری سے پیچھے ہٹیں گے۔
ادھرچین کی وزارت تجارت نے بھی ٹرمپ کی جانب سے تمام چینی مصنوعات پر10فیصد محصولات عائد کرنے ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے اس غیر منصفانہ تجارتی پالیسی کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں مقدمہ دائرکرنے کااعلان کیاہے۔ چین کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ چین اس سے سخت عدم اطمینان کاشکارہے اوراس کی سختی سے مخالفت کرتاہے، اس طرح کے اقدامات چین اور امریکا کے درمیان معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کے لئے نقصان دہ ہ اورعالمی تجارتی تنظیم(ڈبلیوٹی او)کے قوانین کی ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ ہے۔چین اس امریکی غلط اقدام کے خلاف ضروراپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے جوابی اقدامات کرے گا۔ چین امریکاپر زور دیتاہے کہ وہ اپنی غلط سوچ کودرست کرے اوراس مسئلے کاسامناکرنے کے لئے چینی فریق کے ساتھ مل کرکام کرے،کھل کربات چیت کرے، تعاون کومضبوط بنائے اورمساوات،باہمی فائدے اور باہمی احترام کی بنیاد پراختلافات کو حل کرے۔
چین کی وزارت تجارت کے ترجمان ہی یاڈونگ کے مطابق ٹیرف کے معاملے پرچین کاموقف مستقل ہے اورمحصولات کے اقدامات نہ توچین، امریکا اور نہ ہی باقی دنیاکے مفادات کے لئے سازگار ہیں۔ چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہواکے مطابق چین نے شدید ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جوابی اقدامات کرے گا۔
یادرہے کہ امریکی صدرنے کینیڈااور میکسیکو سے درآمدات پر25 فیصداورچین سے درآمدات پر10 فیصداضافی ٹیرف لاگوکرنے کے حکم نامے پر دستخط کردئیے ہیں۔امریکی صدرکا کہناہے کہ ان محصولات کو ’’غیرقانونی غیرملکیوں اورمہلک منشیات کے بڑے خطرے کی وجہ سے نافذکیاہے، جس میں فینٹانل بھی شامل ہے‘‘۔میکسیکونے بھی اس اقدام پراحتجاج کیاہے اورممکنہ طورپرجوابی تجارتی اقدامات اٹھانے کاعندیہ دیاہے۔میکسیکوکی صدرکلاڈیا شین بام نے کہاہے کہ امریکاکی جانب سے میکسیکوکی تمام درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائدکرنے کے اعلان کے بعدوہ امریکا پرمحصولات سمیت دیگرجوابی اقدامات متعارف کرائیں گے۔انہوں نے وزیراقتصادیات کوہدایت کی ہے کہ وہ ’’پلان بی‘‘ پرعمل درآمدکریں،جس میں میکسیکوکے مفادات کے دفاع کے لئے ٹیرف اورنان ٹیرف اقدامات شامل ہوں گے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عالمی تجارتی مصنوعات پر درآمدات پر کی جانب سے نہیں ہے ٹرمپ کے کے ساتھ ٹرمپ کی سے بھی ہے اور کے لئے ہوں گے چین کی

پڑھیں:

امریکہ نئے دلدل میں

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر

یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔

امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔

اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیرخزانہ کی امریکی عہدیدار سے ملاقات، تجارتی عدم توازن دور کرنے کیلئےاقدامات پرزور
  • تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • عالمی برادری خطے میں بھارتی جارحیت اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کا نوٹس لے، سیکریٹری خارجہ
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر غور
  • چین نے امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات کیلئے رضامندی ظاہر کردی
  • ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو گئی، آئی ایم ایف
  • ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف
  • امریکی محکمہ خارجہ کا اپنے 100 سے زائد دفاتر کو بند کرنے کا اعلان