یورپی سربراہان یوکرینی صدر زیلنسکی کے دفاع میں سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر جمہوری طریقے سے شفاف انتخابات کے بعد منتخب ہوئے تھے، انکو یوکرین میں جاری جنگ کیوجہ سے انتخابات کو التوا میں ڈالنا پڑا، ایسا برطانیہ میں جنگ عظیم دوئم کے وقت بھی ہوا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی وزیراعظم اور جرمن چانسلر یوکرین کے صدر کی حمایت میں ڈٹ گئے۔ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر جمہوری طریقے سے شفاف انتخابات کے بعد منتخب ہوئے تھے، ان کو یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے انتخابات کو التوا میں ڈالنا پڑا، ایسا برطانیہ میں جنگ عظیم دوئم کے وقت بھی ہوا تھا۔ اسی طرح جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ جنگ کے درمیان میں باقاعدہ نئے الیکشن نہیں کرائے جاسکتے تھے، جو کچھ ہوا، وہ یوکرین کے دستور کے مطابق تھا۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو غیر مقبول ترین شخص قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کی مقبولیت 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی صدارتی مدت مئی 2024ء میں ختم ہوگئی تھی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یوکرین کے صدر
پڑھیں:
روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے طاقتور حملہ، 5 ہلاکتیں اور 20 زخمی
روس نے یوکرین کے مختلف شہروں پر میزائلوں، ڈرونز اور بموں سے اب تک کے سب سے شدید حملے کیے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں روس نے 215 میزائل اور ڈرونز یوکرین پر داغے۔
یوکرینی دفاعی نظام نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 87 ڈرونز اور 7 میزائلوں کو فضا میں تباہ کرکے ناکارہ بنا دیا۔
یوکرین کے شہر خارکیف کے میئر نے بتایا کہ شہر پر حملہ روس کی جانب سے 2022 میں شروع کی گئی مکمل جنگ کے بعد سے اب تک کا سب سے طاقتور حملہ تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خارکیف پر 48 ایرانی ساختہ ڈرونز، دو میزائل اور چار گائیڈڈ بم فائر کیے گئے۔
خیال رہے کہ یوکرین کا شہر خارکیف، روسی سرحد سے صرف 50 کلومیٹر دور واقع ہے اور گزشتہ شب حملے کا مرکز رہا۔
روس کے یوکرین پر ان حملوں میں رہائشی عمارتیں اور دیگر شہری انفرا اسٹریکچر بری طرح متاثر ہوئے جب کہ 5 ہلاکتیں ہوئیں اور 25 زخمی بھی ہوئے۔
روس نے ان حملوں کو یوکرین کے دہشت گردانہ اقدامات کا جواب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پچھلے ہفتے یوکرین نے ڈرون حملوں میں روس کے حساس عسکری ہوائی اڈوں پر نیوکلیئر صلاحیت والے طیاروں کو نقصان پہنچایا تھا۔
جس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ان حملوں کا سخت جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔
یوکرین نے جنگ بندی کے لیے 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز دی ہے جس پر بات چیت پیر کے روز استنبول میں ہوئی تھئی۔
تاہم روس نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ مسئلہ ملک کی بقاء سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہمارے قومی مفاد، سلامتی اور مستقبل کا معاملہ ہے۔
صدر پیوٹن نے یوکرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چار متنازع علاقوں سے دستبردار ہو، نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کرے اور مغربی فوجی تعاون کو ختم کرے۔
تاہم یوکرینی صدر نے ان تجاویز کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اس کے برعکس تین طرفہ سربراہی اجلاس کی تجویز دی جس میں وہ پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہوں۔
تاہم اس پر بھی روس کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا گیا۔