Daily Sub News:
2025-06-09@13:14:37 GMT

بل گیٹس کو زندگی کے کس اہم فیصلے پر اب پچھتاوا ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

بل گیٹس کو زندگی کے کس اہم فیصلے پر اب پچھتاوا ہوتا ہے؟

بل گیٹس کو زندگی کے کس اہم فیصلے پر اب پچھتاوا ہوتا ہے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 21 February, 2025 سب نیوز

نیویارک(سب نیوز )مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس عرصے سے دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست کا حصہ ہیں مگر انہیں اب کس بات پر بہت زیادہ پچھتاوا ہوتا ہے؟بل گیٹس نے 1974 میں 20 سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ کے پہلے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالنے کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی کو چھوڑ دیا تھا۔اب انہوں نے تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کے فیصلے پر پچھتاوے کا اظہار کیا ہے۔اپنی سوانح حیات میں بل گیٹس نے بتایا کہ ہارورڈ کو چھوڑنے کے بعد وہ اکثر سوچتے تھے کہ واپس جاکر ڈگری مکمل کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ہارورڈ میں انہیں متعدد موضوعات جیسے نفسیات، معاشیات اور تاریخ وغیرہ کو کھنگالنا پسند تھا جبکہ وہ یونیورسٹی کے ذہین ساتھیوں کے ساتھ گہرائی میں جاکر تبادلہ خیال کرنا پسند کرتے تھے۔بل گیٹس نے تسلیم کیا کہ مائیکرو سافٹ کی بے مثال کامیابی کے باوجود وہ ہارورڈ میں فراہم کیے جانے والے تدریسی اور سماجی ماحول کو یاد کرتے ہیں اور اسے چھوڑنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہوتا ہے۔ایک انٹرویو کے دوران بل گیٹس نے بتایا تھا کہ ‘میں ہارورڈ میں لطف اندوز ہوتا تھا، کلاسز میں وقت گزارنا مجھے پسند تھا، کئی بار تو میں ایسی کلاسز میں بیٹھ جاتا تھا جو میرے نصاب کی نہیں ہوتی تھیں’

بل گیٹس نے بتایا کہ جب انہوں نیاور مائیکرو سافٹ کے شریک بانی پال ایلن نے اہم ٹیکنالوجیکل پیشرفت کی تو ان کے سامنے 2 راستے تھے کہ تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیں یا ہارورڈ میں رہ کر حریف کمپنیوں سے مقابلے میں پیچھے رہ جائیں۔ہائی اسکول میں بل گیٹس اور پال ایلن کا ماننا تھا کہ اگر مائیکرو پروسیسر تیار ہو جاتا ہے تو کمپیوٹنگ کی دنیا میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ان کے خیال میں مائیکرو پروسیسر کی بدولت مہنگی کمپیوٹر مشینیں چھوٹی اور سستی ہوجائیں گی اور عام افراد بھی انہیں خریدنے کے قابل ہوجائیں گے۔

اس وقت ایسا کوئی پروسیسر موجود نہیں تھا مگر جب بل گیٹس ہارورڈ یونیورسٹی چلے گئے تو 1974 میں پال ایلن نے بل گیٹس کو دنیا کی پہلی منی کمپیوٹر کٹ Altair 8800 کے بارے میں بتایا۔اس کو دیکھ کر دونوں نے فیصلہ کیا کہ اس منی کٹ کے لیے سافٹ وئیر تیار کیا جائے تو وہ ایک نئی انڈسٹری کی قیادت کرسکتے ہیں۔اس کے بعد کافی مہینوں تک بل گیٹس کو تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ مائیکرو سافٹ کو چلانے میں مشکلات کا سامنا ہوا اور انہوں نے اپنے ایک دوست رک ویلینڈ کو کمپنی سنبھالنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ ڈگری مکمل کرسکیں۔

مگر رک ویلینڈ نے انکار کیا تو بل گیٹس کو اندازہ ہوا کہ کوئی بھی فرد کمپنی کو اس طرح نہیں چلا سکتا جیسے وہ خود سنبھال سکتے ہیں۔تو انہوں نے ہارورڈ کو چھوڑ کر اپنی پوری توجہ مائیکرو سافٹ پر مرکوز کر دی۔وہ 2000 تک اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو رہے جس دوران مائیکرو سافٹ نے کمپیوٹر انڈسٹری کو بدل کر رکھ دیا جبکہ بل گیٹس خود دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہوگئے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مائیکرو سافٹ ہارورڈ میں بل گیٹس کو بل گیٹس نے فیصلے پر انہوں نے نے بتایا

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • مریخ کی کھوج۔۔۔۔
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے: شیری رحمٰن
  • سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ: 4 سیٹر رکشوں پر پابندی
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • بار بی کیو کے لیے کون سا کوئلہ اچھا ہوتا ہے؟
  • القسام کی کارروائی بچوں و خواتین کے خون اور گھروں کی تباہی کا انتقام ہے، حماس رہنماء
  • کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟