علم کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جو مضامین سب سے پہلے علم پھیلانے میں مفید ثابت ہوئے، ان میں تاریخ کا مضمون بھی شامل تھا۔ تاریخ کا مضمون نوجوان نسلوں کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے آگاہی کا فریضہ انجام ہی نہیں دیتا بلکہ نئی نسلوں کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے سبق حاصل کرنے اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کا بھی موقع فراہم کرتا ہے، یوں تاریخ کے مضمون کے ذریعے ہزاروں سال کے حالات سے قاری کو آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
انسانی معاشرہ اپنی تشکیل کے کچھ عرصے بعد طبقاتی سماج میں تبدیل ہوا تو تاریخ کے مضمون کو بالادست طبقات کی تاریخ بیان کرنے تک محدود رکھا گیا۔ کاغذ اور پریس کی ایجاد سے پہلے تاریخی واقعات زبانی انداز میں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے تھے مگر قصہ کہانیوں میں بادشاہوں اور امراء کے کارنامے بیان کیے جاتے تھے، پھر جب کتاب شایع ہونے لگی تو ان کتابوں میں بادشاہوں اور سپہ سالاروں کا ہی ذکر ہوتا تھا۔
جرمنی میں پیدا ہونے والے فلسفی کارل مارکس نے 20 ویں صدی میں طبقاتی سماج کے استحصال اور معاشرتی تضادات کو آشکار کیا اور جدلیاتی معدنیت کا نظریہ پیش کیا۔ 21 ویں صدی میں ترقی پسند تاریخ دانوں نے غریب طبقات کی تاریخ بیان کرنا شروع کی۔ سید سبط حسن اور عباس جلال پوری نے مارکسزم کی اردو میں تفصیل بیان کرنے کی روایت ڈالی۔ سید سبط حسن نے سماج کے ارتقاء اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کی تاریخ کو قلم بند کیا۔ سید صاحب نے مزاحمتی تحریکوں کو بھی اپنی کتابوں میں شامل کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اردو میں عوام کی تاریخ لکھنے کی روایت شروع کی۔ انھوں نے اپنی تحقیق کے ذریعے کئی ایسے بت پاش کیے جنھیں ایک جھوٹے بیانیے کی بناء پر تاریخ میں ہیرو کا کردار سونپ دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر مبارک علی پر جب یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیے گئے تو ان کی ساری توجہ تحقیق اور کتابیں تحریر کرنے کی طرف ہوگئی۔
ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ کے بے تحاشا موضوعات پر 100 سے زائد کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کو ساری زندگی اپنے اس بیانیے کی بناء پر معتوب کیا گیا اور گزشتہ ایک سال سے ان کی کتابیں مارکیٹ سے لاپتہ کی گئیں۔ ان کے غیر معیاری ایڈیشن مارکیٹ میں پھیلا دیے گئے۔ ادارہ نگارشات نے پرنٹنگ کے جدید معیار کے مطابق ڈاکٹر صاحب کی کتاب شایع کی ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی بیماری کے باوجود ہمیشہ پرعزم رہے، یوں اب نگارشات نے ان کی کتابیں عالمی معیار کے مطابق شایع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اب ڈاکٹر مبارک علی کی کئی نئی کتابیں نئے سرورق اور خوبصورت لے آؤٹ کے ساتھ مارکیٹ میں آگئیں۔
ان کی ایک مشہور کتاب ’’ تاریخ اور فلسفہ تاریخ‘‘ ہے۔ یہ کتاب 265 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان ’’تاریخ کیا ہے‘‘ ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ مؤرخوں کے لیے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کا سلسلہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جرمن فلسفی Oswald Spengler نے اپنی کتاب "Decline of the West" میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ موجودہ دور Post Modernism میں Constructionismاور Deconstructionism کے تحت تاریخ کو سمجھا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تاریخی واقعات کو فلسفیانہ طور پر اس قدر پیچیدہ کردیا جائے تو عام آدمی کے لیے اس کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ معروف فلسفی Tonbyeنے اپنی کتاب "A study of history"میں قوموں اور تہذیبوں کے عروج اور زوال کو چیلنج کے طور پر قبول کیا تھا۔ ڈاکٹر مبارک علی کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ تاریخ کیا ہے اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ ماضی میں انسانوں کی سرگرمیوں کی داستانیں۔ لیکن یہ داستانیں بکھری ہوئی اور بے ترتیب ہیں اور مؤرخ اس داستان کو سلسلہ وار بنا کر اور واقعات کو ایک دوسرے سے ملا کر اس میں مفہوم پیدا کرتا ہے۔
اس مرحلے پر ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں انسان نے جو کچھ کیا، کیا اس کا یہ عمل کسی منصوبہ کا پابند تھا؟ وہ کسی نظام اور قانون کے تحت تھا یا اس کا عمل بے ترتیبی، انتشار اور کسی مقصد کے بغیر تھا؟ ڈاکٹر مبارک علی نے لکھا ہے کہ اس سوال پر آکر مفکرین اختلافِ رائے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت کا استدلال ہے کہ انسانی عمل کے پس منظر میں ایک منصوبہ اور مقصد پنہاں رہا ہے۔
اس کے عمل کو جو اس کے ذریعے منحرف رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ تاریخ میں ان مفکرین نے پانچ قسم کے نظاموں کی نشاندہی کی ہے جن میں ایک گردش (Cycle) کا نظریہ ہے کہ انسانی تاریخ ایک دائرہ میں محوگردش رہی ہے۔ اس سے انسان کی مجبوری اور لاچاری ظاہر ہوتی ہے جو جبرکی حالت میں ایک نپے تلے راستہ پر چلتا رہتا ہے۔ اس کے ردعمل میں ترقی کا دوسرا نظریہ پیدا ہوا کہ انسان برابر آگے بڑھ رہا ہے۔
تیسرے نظریے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انسان نے ماضی میں کائنات کی تکمیل کرلی ہے۔ اس نظریے کو خصوصیت سے بڑے مذہبوں کے پیروکاروں کی حمایت حاصل ہے۔ چوتھے انسانی فطرت نہ بدلنے والی اور غیر تغیر پذیر اور ہمیشہ ایک سی ہی رہنے والی ہے۔ پانچویں نظریے کے مطابق یہ دنیا روبہ زوال ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ ابتداء میں صرف سیاسی شخصیتوں کو تاریخ میں اہمیت حاصل تھی، چونکہ یہ اقتدار اور طاقت کے مالک تھے۔ اس لیے مؤرخوں کی خدمات حاصل کرسکتے تھے۔ چنانچہ ان سیاسی شخصیتوں کو ہر عہد میں تاریخ کا مرکز بنا کر انھیں تاریخ کی تعمیر و تشکیل کرنے والا قرار دیا گیا۔ ان میں حکمرانوں، وزراء، سپہ سالار، امراء اور جاگیردار ہوتے تھے۔ ان کے کارناموں کے دائرہ میں جنگیں، فتوحات، انتظامِ سلطنت اور علم و ادب کی خدمات آتی تھیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ ایشیا وافریقہ کے ممالک میں جب یورپی ممالک کے خلاف آزادی کی تحریکیں اٹھیں تو ان میں بھی عظیم افراد کے کردار کو مسابقہ کے ساتھ پیش کیا گیا اور ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کو نظرانداز کر کے کامیابی کا سہرا چند افراد کے سر باندھا گیا کیونکہ یہ رہنما شخصیتیں اقلیت کی نمایندگی کر رہی تھیں اور ان کے افکار کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ اس لیے ان شخصیتوں کے گرد تقدس کا ہالہ بنا کر ان کے نظریات کو آفاقی درجہ دے کر انھیں مراعات اور فوائد کو باقی رکھا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے اس کتاب میں کئی فلسفیوں کے تاریخ کے بارے میں خیالات کو شامل کیا۔
مصنف نے اس ضمن میں پہلا انتخاب مشہور عربی فلسفی ابنِ خلدون کا کیا۔ عبدالرحمن ابنِ خلدون نے تاریخ کے واقعات اور حوادث کو سمجھنے کے لیے کچھ اصول اور قوانین دریافت کیے اور ان کی روشنی میں ان تاریخی واقعات کی بناء پر تفسیرکی۔ ابن خلدون سے پہلے تاریخ میں ہونے والے واقعات، تغیرات اور انقلابات کو صرف اس حد تک سمجھا جاتا تھا کہ قوموں کے عروج و زوال سے عبرت حاصل کی جائے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ ابنِ خلدون کے فلسفہ تاریخ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ماحول اور ماخذ پر ایک نگاہ ڈالی جائے۔ فلسفہ تاریخ کے یہ اصول دریافت کرتے ہوئے اس کے سامنے اسلامی تاریخ اور اس میں ہونے والے انقلابات سے ابنِ خلدون سلطنت کے زوال کے اسباب کے ساتھ ساتھ تمدن کے زوال کے اصول بھی واضح کرتا ہے۔ سلطنت کے زوال کے بعد شہروں کی بنیاد پڑتی ہے، شہر تمدن پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ قبیلہ حصولِ سلطنت میں ایک طویل جنگ سے گزرتا ہے، اس لیے فتح ان کی خواہش ہوسکتی ہے، دوسرا شہری آبادی میں اضافہ ہورہا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کارل مارکس کے نظریے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مارکسی نظریہ تاریخ اس کی مختلف تصانیف میں ملتا ہے جس میں The German Ideology, Poverty of Philosophy, The Communist Manifesto شامل ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کے کئی عوامل ہیں جو ہر انسان کو آگے کی جانب لے جا رہے ہیں، وہ کن مقاصد کی تکمیل کررہا ہے اور ان مقاصد کی تکمیل شعوری ہے یا غیر شعوری۔ ان سوالات کا جواب فلسفہ تاریخ میں مختلف نظریات کے تحت دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ میں کہ انسان تاریخ کے کی تاریخ کتاب کے میں ایک رہا ہے کے لیے اور ان
پڑھیں:
ڈاکٹر، مگر کونسا؟
آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!
ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔
پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔
ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔
ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔
یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔
ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔
ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔
جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟
آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔
ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟
جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔
ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔
اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔
اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔
وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔
ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس
ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی
ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔
اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟
باقی آئندہ
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں