کنگز کالج لندن کے آندریاس کریگ نے اجلاس سے قبل کہا کہ ہم عرب اسرائیل یا اسرائیل فلسطین تنازع کے ایک انتہائی اہم تاریخی موڑ پر ہیں، ممکنہ طور پر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا زمین پر نئے حقائق پیدا کر سکتا ہے جو ناقابل تلافی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ عرب رہنماؤں نے ریاض میں ملاقات ہوئی اور غزہ کی جنگ کے بعد تعمیر نو کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا گیا، تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز کا مقابلہ کیا جا سکے کہ امریکا، فلسطینی باشندوں کے بغیر غزہ پر قبضہ کرلے گا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ کے اس منصوبے کی متحدہ عرب ریاستیں مخالفت کر رہی ہیں، لیکن اس بات پر اختلافات موجود ہیں کہ غزہ پر حکومت کون کرے گا اور اس کی تعمیر نو کے لیے کس طرح مالی اعانت فراہم کی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن پر شائع ہونے والی ایک تصویر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دیگر خلیجی عرب ریاستوں مصر اور اردن کے رہنماؤں کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔

سعودی حکومت کے قریبی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملاقات ختم ہوگئی لیکن میزبان نے فوری طور پر حتمی بیان شائع نہیں کیا۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے دفتر نے کہا کہ وہ بحرین، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سعودی دارالحکومت سے جاچکے ہیں۔ اس سے قبل ایک سعودی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے بھی مذاکرات میں شرکت متوقع ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے اور اس کے 20 لاکھ سے زائد باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

مصر کا منصوبہ:
کنگز کالج لندن کے آندریاس کریگ نے اجلاس سے قبل کہا کہ ہم عرب اسرائیل یا اسرائیل فلسطین تنازع کے ایک انتہائی اہم تاریخی موڑ پر ہیں، ممکنہ طور پر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا زمین پر نئے حقائق پیدا کر سکتا ہے جو ناقابل تلافی ہیں۔ سعودی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اجلاس کے شرکا غزہ کے لیے ٹرمپ کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے تعمیر نو کے منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ غزہ کی پٹی کھنڈرات بن چکی ہے، اور حال ہی میں اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس کی تعمیر نو پر 53 ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی۔

11 فروری کو واشنگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا تھا کہ مصر آگے بڑھنے کے لیے ایک منصوبہ پیش کرے گا۔ سعودی ذرائع کا کہنا تھا کہ مندوبین مصری منصوبے کے ایک ورژن پر تبادلہ خیال کریں گے۔ سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری برادرانہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کو 4 مارچ کو مصر میں ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی سربراہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔

غزہ کی تعمیر نو کیلئے فنانسنگ:
عرب رہنما غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متبادل منصوبے کو ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ ٹرمپ نے فلسطینی باشندوں کو منتقل کرنے کے جواز کے طور پر اس کام کے پیمانے کی نشاندہی کی تھی۔ قاہرہ نے اب تک اپنی تجویز کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں، لیکن مصر کے سابق سفارت کار محمد ہیگازی نے 3 سے 5 سال کی مدت میں تین تکنیکی مراحل میں منصوبے کا خاکہ پیش کیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 6 ماہ تک جاری رہنے والے پہلے مرحلے میں جلد بازیابی اور ملبے کو ہٹانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں تعمیر نو اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے تفصیلی منصوبے مرتب کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی ضرورت ہوگی۔ آخری مرحلے میں رہائش اور خدمات کی فراہمی اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے ایک سیاسی ٹریک کا قیام دیکھا جائے گا، جو اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطین ہے۔ خلیجی امور سے واقف ایک عرب سفارت کار نے کہا کہ مصر کے منصوبے کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کی مالی اعانت کیسے کی جائے۔ 

عرب رہنماؤں کے لیے کسی مشترکہ وژن تک پہنچے بغیر ملاقات کرنا ناقابل فہم ہوگا، لیکن بنیادی بات اس وژن کے مندرجات اور اس پر عمل درآمد کی صلاحیت میں ہے۔ آندریاس کریگ نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے یہ ایک منفرد موقع ہے کہ وہ اس معاملے پر خلیج تعاون کونسل کے دیگر تمام ممالک کے علاوہ مصر اور اردن کو بھی اکٹھا کریں، تاکہ وہ اس بات کا جواب دینے کے لیے مشترکہ موقف تلاش کر سکیں کہ ٹرمپ کس قسم کا جبری بیان دے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: تعمیر نو کے لیے کی تعمیر نو کے لیے ایک نے کہا کہ تھا کہ غزہ کی

پڑھیں:

مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے

اسلام ٹائمز: آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تحریر: ضرار کھوڑو

کچھ روز قبل 26 مئی کو اسرائیل نے یومِ یروشلم منایا۔ یہ وہ دن ہے جب اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس دن کی تقریبات میں انتہائی دائیں بازو کے ہزاروں اسرائیلیوں کو سڑکوں پر نکل کر عربوں کو ہراساں کرنے کی قومی تفریح میں مشغول دیکھا گیا۔ اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کی موجودگی اور ان کی حمایت سے ہجوم نے مسلم کوارٹر کی جانب مارچ کیا جہاں انہوں نے ’عربوں کو موت دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کا مذاق اڑایا جبکہ اسلام اور اس کی معزز شخصیات کے خلاف گستاخانہ نعرے بلند کیے۔ یہ تمام سرگرمیاں اسرائیلی پولیس کے حفاظتی حصار میں کی گئی۔

ماضی کی روایات کے مطابق ان اسرائیلیوں نے الاقصیٰ کے احاطے پر بھی دھاوا بولا جہاں انہوں نے گانا گایا، رقص کیا اور تلمودی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے نکبہ اور فلسطینیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ نسل کشی کی حمایت کرنے والے ایک اہم نام اور صہیونی حکومت کے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموترخ نے بھی اس موقع پر تقریر کی اور ’فتح‘، قبضے’ اور ’آبادکاری‘ کو اپنے سب سے قیمتی مقاصد کے طور پر بیان کیا۔ ان کا ایک اور بیان جو ان کے سامعین کے کانوں میں شہد گھول گیا وہ ان کی جانب سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد الاقصیٰ کے مقام پر ’ٹیمپل‘ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی مسجد اقصیٰ کے زیرِزمین بڑی سرنگ پر ٹہلتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ سرنگیں آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے لیے بنائی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ زیرِزمین کھدائی کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ایسا کوئی آثارِ قدیمہ کا ثبوت تلاش کرنا ہے جو انہیں ٹیمپل ماؤنٹ (جسے عرب حرم الشریف کہتے ہیں) پر اپنے مکمل قبضے کا جواز فراہم کرسکے۔ یوں وہ آخرکار نام نہاد تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کی تعمیر کرسکیں۔

اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کیا تھے؟ تو پہلا ہیکل تقریباً 957 قبلِ مسیح میں تعمیر ہوا تھا جسے چند صدیوں بعد یروشلم کے محاصرے کے دوران سلطنت بابل نے تباہ کر دیا تھا۔ دوسرا ہیکل 538 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے بھی 70ء میں سلطنت روم کے خلاف یہودیوں کی خونریز اور بدقسمت بغاوت کے نتیجے میں رومی حکمرانوں نے تباہ کردیا تھا۔ دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے صرف اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی ہے جو آج ’ویلنگ وال‘ کہلاتی ہے جہاں تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو جانا پڑتا ہے اور یہاں ان کے لیے اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔

تو نئے ہیکل کی تعمیر کیوں؟ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کیوں ضروری ہے؟ بعض یہود مذہبی دھڑوں میں یہ غالب سوچ پائی جاتی ہے کہ مسیحا کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ مسیحا ممکنہ طور پر یہودی بالادستی کے ایک نہ ختم ہونے والے سنہری دور کا آغاز کرے گا جس میں دیگر تمام قومیں ان کی مرضی کی تابع ہوجائیں گی لیکن اس کے لیے پہلے مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس کے حق میں سب سے پہلی حقیقی آواز شلومو گورین نے اٹھائی جو اسرائیلی ’دفاعی‘ افواج کے سابق چیف ربی تھے۔ 1967ء میں وہ 50 یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں دعاؤں کی غرض سے لے گئے اور وہاں ہیکل کی تعمیرِنو کا مطالبہ کیا۔

یہ وہ دور تھا جب اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں عرب آبادی کو قطعی طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں شاندار فتح کے باوجود اپنے عرب ہمسایوں کو ایک اور جنگ کا جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کسی حد تک احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ربی شلومو گورین کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے چیف ربیوں نے حکم دیا کہ یہودیوں کے لیے رسمی ناپاکی کی وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ٹیمپل میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ ان رسمی ناپاکی کی وجوہات کو اس کالم میں بتانا انتہائی مشکل ہے۔

سرکاری حکم نامے کے باوجود زیرِزمین کھدائی (اسرائیل کی مذہبی وزارت کے زیرِاہتمام) کا کام اسی سال شروع ہوا اور مسلم کوارٹر کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد بھی یہ کام جاری ہے۔ لیکن 2025ء کا اسرائیل 1967ء کے اسرائیل سے انتہائی مختلف ہے کیونکہ یہ ایک قابض بالادست طاقت بن چکی ہے جو فلسطینیوں کی قومیت کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت تو انتہائی مذہبی منافرت اور تشدد سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ اس کے رنگ میں ڈوبا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بھی اسرائیل ایسا ہی کرتا رہے گا۔

آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ انجیلی مسیحیوں کے مطابق وہ یہودیوں سمیت پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے (پھر چاہے وہ تبدیلی آگ اور تلوار سے ہی کیوں نہ لائی جائے) لیکن فی الحال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔

اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914867/the-third-temple

متعلقہ مضامین

  • اسپیکر قومی اسمبلی کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے شاہی ظہرانے میں شرکت، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • وزیراعظم کا ترکیہ کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ، اہم فیصلوں پر عملدر آمد پر اتفاق
  • مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
  • ’کنارہ عالم‘، ریاض کے قریب صحرا میں واقع دل کو چھو لینے والا مقام
  • امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے: شیری رحمٰن
  • سعودی ولی عہد کا مسلم ممالک کے قائدین کیلیے ظہرانہ، ایاز صادق، طاہر اشرفی سمیت دیگر کی شرکت
  • ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دینا ذہنی غلامی و ذہنی بیماری ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟
  • شہباز شریف اور محمد بن سلمان کی ملاقات، دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق