فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل امتیاز حسین گیلانی کا دیامر کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اپنے دورے کے دوران فورس کمانڈر نے تانگیر میں پاک فوج کی جانب سے لگائے گئے فری میڈیکل کیمپ کا معائنہ کیا، جہاں انہوں نے مریضوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا اور میڈیکل ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔ اسلام ٹائمز۔ فورس کمانڈر ناردرن ایریاز (FCNA) میجر جنرل امتیاز حسین گیلانی نے آج ضلع دیامر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مختلف تعلیمی، سماجی، ترقیاتی سرگرمیوں میں شرکت کی اور امن وامان کا جائزہ لیا۔ فورس کمانڈر نے علمائے کرام، امن جرگہ کے ممبران اور عمائدین سے ملاقات کی اور علاقے میں امن و امان کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ فورس کمانڈر نے دیامر کے علمائے کرام کا علاقے میں امن وامان کے قیام میں کردار کو اجاگر کیا اور اسی طرح اپنی کوششوں کو جاری رکھنے پر زور دیا۔ فورس کمانڈر نے جی بی سکاوٹس و ایف سی این اے کے زیر انتظام ہونے والی دیامر والی بال سپورٹس چیمپئن شپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے۔ بعد ازاں انہوں نے بوائز ہائی اسکول جگلوٹ تانگیر کے طلباء سے ملاقات کی اور ان سے گھل مل گئے۔
انہوں نے طلباء کو تعلیمی میدان میں محنت اور لگن سے آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور مستقبل کے چیلنجز کے لیے خود کو تیار کرنے کی ہدایت کی۔ علاوہ ازیں فورس کمانڈر نے علاقے میں نوجوانوں سے خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر نوجوانوں نے فورس کمانڈر کو اپنے بیچ پا کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی ملاقاتوں سے فوج اور نوجوانان کے درمیان رشتہ اور مضبوط ہو گا۔ اپنے دورے کے دوران فورس کمانڈر نے تانگیر میں پاک فوج کی جانب سے لگائے گئے فری میڈیکل کیمپ کا معائنہ کیا، جہاں انہوں نے مریضوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا اور میڈیکل ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔ بعد ازاں فورس کمانڈر گلگت بلتستان نے پاک فوج اور جی بی سکاوٹس کی مشترکہ فوجی مشقوں کا بھی جائزہ لیا اور جوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فورس کمانڈر نے جائزہ لیا انہوں نے
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔