ٹریفک جام کی پریشانی؛ اُڑنے والی کار کی پہلی کامیاب پرواز
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
مستقبل اور ٹریفک جام کی پریشانی کا حل سمجھی جانے والی سواری فلائنگ کار نے اپنی پہلی کامیاب پرواز مکمل کرلی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق 2.5 کروڑ روپے مالیت کی یہ گاڑی عام سڑکوں پر بھی چلائی جاسکتی ہے اور گاڑی کے بونٹ اور ڈِگی میں پروپیلرز موجود ہیں جو کسی بھی وقت اسے فضا میں بلند کر سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنی الیف ایئروناٹکس نے اس گاڑی کی پہلی ویڈیو جاری کی ہے، جس میں یہ فضا میں اڑتی نظر آرہی ہے، یہ منظر کسی سائنس فکشن فلم جیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ کار ایک بار چارج ہونے پر 354 کلو میٹر سڑک پر چل سکتی ہے اور 177 کلو میٹر فضا میں پرواز کر سکتی ہے۔ یہ کار ڈسٹری بیوٹڈ الیکٹرک پروپلشن ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے، جس میں پروپیلر بلیڈز کو ایک میش لیئر سے ڈھانپا گیا ہے، جس کی مدد سے یہ زمین سے اوپر اٹھنے میں کامیاب رہی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق کمپنی نے اس آزمائش کے لیے الیف ماڈل زیرو کا ایک الٹرا لائٹ پروٹوٹائپ استعمال کیا۔ الیف کے سی ای او جم ڈوخوونی نے اس کامیابی کو رائٹ برادران کی 1903 میں ہونے والی پہلی پرواز سے تشبیہ دی اور کہا کہ یہ ڈرائیو اور فلائٹ ٹیسٹ کسی حقیقی شہری ماحول میں ٹیکنالوجی کا ایک اہم ثبوت ہے۔
کیلیفورنیا میں قائم یہ اسٹارٹ اپ 2026 کے آغاز تک اپنی ماڈل اے فلائنگ کار کی پیداوار شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسری جانب گاڑی کی پرواز کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے حیرت اور تجسس کا اظہار بھی کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔