لاہور میں ڈاکٹر کا شارٹ ٹرم اغوا، ملزمان نے لاکھوں روپے لوٹ لیے
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
لاہور:
ماڈل ٹاؤن میں پولیس یونیفارم میں ملبوس تین ملزمان نے شہری کو اغوا کرکے لاکھوں روپے لوٹ لیے۔
مسلح ملزمان نے ڈاکٹر مختار حسین کو زبردستی گھر سے اغوا کرکے مختلف مقامات پر گھمایا اور اسلحے کے زور پر بینک سے رقم نکلوانے پر مجبور کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے گھر سے تین موبائل فون اٹھائے اور رنگ روڈ سمیت مختلف علاقوں میں لے جاکر ڈاکٹر مختار کو ذہنی اذیت دیتے رہے۔ بعد ازاں ملزمان نے پرس اور اے ٹی ایم کے ذریعے پانچ لاکھ روپے نکلوائے۔
واردات کے دوران تینوں ملزمان نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے جبکہ وہ شہری کو ایف آئی آر درج کروانے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے۔
لوٹ مار کے بعد ملزمان نے ڈاکٹر مختار کو فیروز پور روڈ پر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ماڈل ٹاؤن پولیس نے متاثرہ شہری کے بیان پر تین نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا
کبھی لاہور کے باسی چاروں موسموں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ خوشگوار گرمی، خنک خزاں، سردیاں اور بہار کی رونقیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے شہر کو صرف دو موسموں، دم گھٹاتی اسموگ اور جھلسا دینے والی گرمی تک محدود کر دیا ہے۔
پنجاب کے مختلف اضلاع سمیت لاہور میں شدید گرمی کی نئی لہر کا آغاز ہو چکا ہے اور محکمہ موسمیات نے آئندہ دس دنوں کے دوران غیر معمولی درجہ حرارت کی پیش گوئی کی ہے۔ اپریل میں عمومی طور پر درجہ حرارت 30 سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے، تاہم پچھلے چند سالوں میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل 2020 میں اوسط درجہ حرارت 33 ڈگری تھا، جو 2021 میں 35، 2022 میں 42، 2023 میں 35 اور 2024 میں 37 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ رواں برس 2025 میں یہ درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں بڑھتی آبادی اور تیز رفتار تعمیرات درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔ تحقیق کے مطابق 1990 سے 2020 کے دوران شہر کے بڑے حصے پر موجود سبزہ ختم ہو کر کنکریٹ، سڑکوں اور عمارتوں میں تبدیل ہو گیا۔ 2010 سے 2017 کے درمیان لاہور کا 70 فیصد درختوں کا احاطہ ختم ہو چکا ہے۔
پنجاب اربن یونٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں لاہور کا تعمیراتی رقبہ 438 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 759 مربع کلومیٹر تک جا پہنچا ہے جبکہ شہر کے مجموعی رقبے کا صرف 2.8 فیصد حصہ اب سبزہ زاروں پر مشتمل ہے۔ درختوں کی کٹائی کے باعث لاہور ’’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘‘ کا شکار ہو چکا ہے، جہاں عمارتیں اور سڑکیں دن بھر گرمی جذب کر کے رات کو اسے آہستہ آہستہ خارج کرتی ہیں، جس سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
محکمہ موسمیات کے ماہرین نے عالمی حدت، سبزہ زاروں کی کمی، صنعتی آلودگی اور ناقص شہری منصوبہ بندی کو گرمی کی لہروں کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ جامعہ پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ ’’جب کئی دن تک درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہتا ہے اور قدرتی ٹھنڈک کے ذرائع موجود نہ ہوں، تو گرمی کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘
شدید گرمی کی ممکنہ لہر کے پیش نظر، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے شہریوں کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں۔
شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ دن 11 بجے سے 4 بجے کے دوران غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، زیادہ پانی پئیں، ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں، ٹھنڈے مشروبات استعمال کریں اور بچوں و بزرگوں کا خصوصی خیال رکھیں۔ گرمی کی شدت سے چکر آنا، بخار، نقاہت، متلی یا بے ہوشی کی شکایت ہو تو متاثرہ شخص کو فوراً سائے میں لے جاکر پانی یا او آر ایس پلایا جائے، اور ضرورت پڑنے پر طبی امداد حاصل کی جائے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ عارضی احتیاطی تدابیر وقتی ریلیف تو دے سکتی ہیں، لیکن اس سنگین ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مستقل اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں، جن میں سبزہ زاروں کا تحفظ، نئے درختوں کی شجر کاری، موسمیاتی تبدیلی کو شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانا اور عوامی آگاہی شامل ہیں۔
اگر فوری اور جامع اقدامات نہ کیے گئے، تو گرمی کی یہ شدید لہریں لاہور جیسے بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن سکتی ہیں، جس کے اثرات نہ صرف انسانی صحت بلکہ معیشت، زراعت اور شہری زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہوں گے۔