Express News:
2025-11-03@14:34:22 GMT

وینا ملک اپنی والدہ سے صرف 10 سال چھوٹی ہے، حقیقت کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

معروف اداکارہ، ماڈل اور ٹی وی میزبان وینا ملک نے اپنی سالگرہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر اپنی عمر سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی تردید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوگل پر ان کی عمر 48 سال درج ہے جو حقیقت کے برعکس ہے اور اس کے مطابق وہ اپنی والدہ سے صرف 10 سال چھوٹی ہیں۔ وینا ملک نے اپنی اصل عمر بتانے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ بتایا کہ ان کی سالگرہ 20 فروری کو ہوتی ہے۔

شادی کے حوالے سے وینا ملک نے واضح کیا کہ فی الحال ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن اگر قسمت میں لکھا ہوا تو وہ اسے روک نہیں سکتیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ گلوکاری اور نعت خوانی میں بھی قسمت آزما چکی ہیں لیکن زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ سیاست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ خود کو غیر سیاسی سمجھتی ہیں۔

کرکٹ کے بارے میں وینا ملک نے کہا کہ پاکستان میں ہر کوئی، چاہے کرکٹ کی بنیادی معلومات نہ بھی رکھتا ہو، اس کھیل کا شوقین ہے، اور وہ خود بھی کرکٹ کی بڑی مداح ہیں۔

حال ہی میں، وینا ملک نے انسٹاگرام پر ایک نامعلوم نوجوان کے ساتھ تصاویر شیئر کیں، جس پر مداحوں نے مختلف قیاس آرائیاں کیں۔ تاہم، اداکارہ نے ان تصاویر کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی۔

واضح رہے کہ وینا ملک نے 2013 میں اسد بشیر خٹک سے شادی کی تھی، جس سے ان کے دو بچے ہیں۔ 2017 میں ان کی علیحدگی ہو گئی تھی، اور اس کے بعد سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کرتی رہی ہیں۔

وینا ملک نے مزید بتایا کہ انہیں تاحال شادی کے لیے متعدد پیشکشیں موصول ہوتی ہیں، لیکن ان کا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ حسن پرست ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کا شریک حیات دراز قد اور خوبصورت ہو۔

ان تمام باتوں کے باوجود، وینا ملک نے اپنی اصل عمر بتانے سے گریز کیا اور انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو غلط قرار دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں وینا ملک نے

پڑھیں:

نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی

حمیداللہ بھٹی

ہمارامزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہوجاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی ا ورہیجان کو فروغ ملے اِس کی وجہ عدم برداشت ، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے۔ اگرکوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیزخبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اورمزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقاکوبھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔ایسامزاج بالغ نظر معاشرے کانہیں ہوسکتا ۔مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پرفوراََ یقین کرلیتے ہیں۔اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کاحصہ بن گیاہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پربھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھراِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقاکو بتاتاہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اورنفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیںصرف اپنے مزاج کے مطابق سنناہی پسند ہے ۔
ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگرذرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہورہوا ہے یہ توبالکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ لہٰذاسوشل میڈیانے معاشرے کوجھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادرپدرآزاد کردیاہے ۔یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے ۔دنیامیںیہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے توجلدہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اوربرداشت و رواداری پر مبنی زمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں ۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خودکودوسرے ملک کاکہیں اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں ۔اگر کوئی ایسے کسی فعل کامرتکب ہوتونہ صرف اِداروں کامعتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کابُرامناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ہرگز نہیں۔یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے ۔اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے ۔اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا ۔اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگرپاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی علمبردارہے ۔یہ امن کے بجائے لڑائو،گھیرائو اور جلائو پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جاناسمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟کیونکہ ایسے چہروں کوعزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کادرس ملتا ہے ۔
اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہمارے حکمرانوں کوکہیں عزت واہمیت ملے تویہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کواُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کوسیاسی ،علاقائی ،لسانی یاقومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تواظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کوعزت ملنے پر غمزدہ ہواجائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔
بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کاارتکاب کیا جس کاجواب پاک فوج نے دندان شکن دیادشمن کی جارحیت پر موثر،شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میںہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیاجاتا تھا اب پاکستان پر فداہے ۔ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ،روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت وطاقت ہے تینوں بڑی عالمی طاقتوںکو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کردینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جواب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہواگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کوبھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت وتکریم کاحقدار ٹھہرے۔
شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدوہونے کی نوبت نہ آئے حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرزملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بارسمجھانے اوردہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجاربھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے توافغانستان کے چند ہزارگوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حیثیت ؟ کا ش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں۔ ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
٭٭٭

 

متعلقہ مضامین

  • ہنگو:دوآبہ میں پولیس قافلے پر دھماکے سے متاثرہ گاڑی کے قریب سیکورٹی اہلکار و مقامی افراد جمع ہیں، چھوٹی تصویر میں دھماکے میں زخمی ہونیوالے ایس ایچ او دوآبہ عمران الدین کو اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • وینزویلا کے اندر حملے زیر غور نہیں ہیں‘ ٹرمپ کی تردید
  • شوبز کی خواتین طلاق کو پروموٹ نہ کریں: روبی انعم
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ