اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 فروری ۔2025 )پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی جامع ترقی ، توانائی کی حفاظت کو بڑھانے اور پسماندہ کمیونٹیز کو بااختیار بنا کر اور ان کی توانائی کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنا پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے. ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں گرین فنانس کے محقق فرحان واحد نے روشنی ڈالی کہ ملک کا توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑھتی ہوئی صنعتی مانگوں کا سامنا کرتے ہوئے حکومت توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مستقل چیلنج سے نبرد آزما ہے اور درآمد شدہ جیواشم ایندھن پر اپنے بھاری انحصار کو کم کرتی ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ انحصار نہ صرف قومی معیشت پر دباو ڈالتا ہے بلکہ ماحولیاتی خدشات کو بھی بڑھاتا ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے کہ شمسی، ہوا اور ہائیڈرو ملک کے لیے زیادہ پائیدار اور محفوظ توانائی کے مستقبل کی جانب ایک قابل عمل راستہ پیش کرتے ہیںتاہم قابل تجدید توانائی کے کامیاب انضمام اور توسیع کا انحصار صرف تکنیکی ترقی یا بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری پر نہیں ہے .

انہوں نے کہاکہ اکثر نظر انداز کیا جانے والا پہلو قابل تجدید توانائی کی منتقلی میں پسماندہ کمیونٹیز کی جامع شرکت ہے انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پسماندہ کمیونٹیزجن میں خواتین شامل ہیں شہری علاقوں میں کم آمدنی والے گھرانے اور دیہی آبادی توانائی کی غربت سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہے ان کے پاس اکثر قابل اعتماد بجلی تک رسائی نہیں ہوتی ہے جو ان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نقصانات کو جاری رکھتے ہیں.

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے ترقیاتی معاشی محقق اعتزاز حسین نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں پسماندہ کمیونٹیز کو حکمت عملی کے ساتھ شامل کرکے ملک بہت سارے فوائد کو کھول سکتا ہے جو کہ توانائی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے سے کہیں زیادہ ہے شمولیت جدت کو فروغ دے سکتی ہے اور ایسے حل پیدا کر سکتی ہے جو مقامی کمیونٹیز کی منفرد ضروریات کے لیے بہتر طور پر موزوں ہوں.

انہوں نے نشاندہی کی کہ پسماندہ کمیونٹیز اپنی توانائی کی ضروریات اور رکاوٹوں کے بارے میں انمول علم رکھتے ہیں جو قابل تجدید توانائی کے موثر منصوبوں کے ڈیزائن اور نفاذ میں رہنمائی کر سکتے ہیں اس کے علاوہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں تربیت اور ملازمتوں کی تخلیق کے ذریعے ان کمیونٹیز کو بااختیار بنانا مقامی معیشتوں کو تحریک دے سکتا ہے اور غربت کو کم کر سکتا ہے خواتین کو سولر پینل لگانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے آمدنی کے نئے مواقع پیدا کرنے اور ان کی معاشی آزادی کو فروغ دینے کی تربیت دی جا سکتی ہے اسی طرح کمیونٹی کی بنیاد پر قابل تجدید توانائی کے منصوبے، جیسے کہ مائیکرو گرڈ، دور دراز کے علاقوں کو قابل اعتماد بجلی فراہم کر سکتے ہیں، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور کاروبار کو فروغ دے سکتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کی ترقی انرجی مکس کو متنوع بنا کر اور غیر مستحکم عالمی جیواشم ایندھن کی منڈیوں پر انحصار کم کر کے توانائی کے تحفظ کو بڑھاتی ہے یہ تنوع قیمتوں کے اتار چڑھاو کے لیے ملک کی لچک کو مضبوط کرے گا پسماندہ کمیونٹیز کے اندر توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینے سے توانائی کی کھپت اور گھریلو توانائی کے بلوں کو کم کر کے دیگر ضروری ضروریات کے لیے وسائل کو آزاد کیا جا سکتا ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قابل تجدید توانائی کے پسماندہ کمیونٹیز کمیونٹیز کو توانائی کی انہوں نے کو فروغ سکتا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-5

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں توانائی کا بحران ہمیشہ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے۔ صنعتی ترقی، زرعی پیداوار، نقل و حمل، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کے معمولات تک، توانائی کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ پاکستان کو دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ پاکستان کے توانائی خود کفالت کے خواب کی نئی تعبیر بھی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا، جب سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ابتدائی ذخائر دریافت ہوئے۔ بعد ازاں سوئی گیس فیلڈ نے ملک کی صنعتی اور گھریلو ضروریات کو طویل عرصے تک سہارا دیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں اضافہ اور نئے ذخائر کی تلاش میں کمی نے بحران کی شدت کو بڑھایا۔ درآمدی تیل پر انحصار نے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کیا بلکہ مالیاتی خسارے کو بھی بڑھایا۔ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈرو، سولر اور وِنڈ انرجی پر توجہ ضرور دی گئی، لیکن تیل و گیس کی مقامی دریافت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 2025ء میں موصول ہونے والی حالیہ بولیوں کو ایک تاریخی پیش رفت کہا جا رہا ہے۔

وزارتِ توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے مطابق، پاکستان نے اٹھارہ سال کے طویل وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں آف شور تیل و گیس کی تلاش کے لیے لائسنسز جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستانی سمندری حدود میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اب اس عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس میں 23 آف شور بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بلاکس تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہیں جو توانائی کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق، لائسنس کے پہلے فیز میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو بعد ازاں ڈرلنگ کے مراحل میں بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ مقامی صنعتوں کے لیے بھی روزگار اور تکنیکی تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک توانائی کے بڑھتے ہوئے درامدی بل، ڈالر کے دباؤ، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں اگر سمندری حدود میں موجود ذخائر کی دریافت کامیاب رہتی ہے تو پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس بڈنگ رائونڈ میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں پاکستان کی معروف توانائی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، اور پرائم انرجی نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی اور نجی شعبے کی کئی بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شامل ہیں، جن میں تکنیکی مہارت، جدید آلات، اور عالمی تجربہ موجود ہے۔ یہ شراکت داری دراصل ایک ایسے معاشی ماڈل کی علامت ہے جس میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار باہمی تعاون سے وسائل کی تلاش، پیداوار اور تقسیم کے عمل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔

حکومت وقت کے وژن کے مطابق، پاکستان کی انرجی سیکورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی انحصار میں کمی اور مقامی وسائل کے بھرپور استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس وژن کے تحت حکومت نے انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت ِ عملی اپنائی، جو عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ اقدام نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مکران کوسٹ اور انڈس بیسن دونوں خطے عالمی توانائی نقشے پر نمایاں جغرافیائی امکانات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے برازیل، میکسیکو، ناروے، اور سعودی عرب نے اپنی توانائی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سمندری ذخائر سے استفادہ کیا۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہونے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ان دریافتوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تو پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی برآمد کرنے والا ملک بننے کی جانب بھی پیش رفت کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت غیر معمولی ہے، تاہم اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سمندری ڈرلنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات، جیسے آئل اسپِل یا سمندری آلودگی، ایک سنجیدہ معاملہ ہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف پالیسی فریم ورک ضروری ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، اگر حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا، صوبائی حکومتوں کو شراکت دار کے طور پر شامل رکھا، اور شفافیت کو یقینی بنایا تو پاکستان کی توانائی تاریخ میں یہ باب ایک انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ بحرِ عرب کی لہروں میں چھپے توانائی کے خزانوں کی تلاش کا عمل عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ کامیاب بولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے اپنے متوقع نتائج دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت میں استحکام، زرمبادلہ کی بچت، صنعتی ترقی، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ صرف سمندر میں تیل و گیس کی تلاش نہیں، بلکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی نئی صبح کی نوید ہے‘‘۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • پائیدار ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں، حکومتی معاشی ٹیم کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • میری ٹائم شعبے میں ترقی کا سب سے پہلے فائدہ ساحلی آبادیوں کو پہنچنا چاہیے، وفاقی وزیر احسن اقبال
  • تجدید وتجدّْ
  • پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • خالد مقبول صدیقی کا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کیلئے پنجاب اسمبلی کی حمایت کا اعلان
  • تجدید وتجدّْد
  • کراچی چڑیا گھر سے ریچھ رانو کو منتقل نہ کیا جا سکا
  • غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے، میرواعظ کشمیر