محکمہ صحت جی بی میں 45 ڈاکٹروں کے تبادلے
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
ڈاکٹر ہدایت حسین کو بطور ڈی ایم ایس پی ایچ کیو ہسپتال گلگت، جبکہ ڈاکٹر محمد زعیم ضیا کو پرنسپل ایچ آر ڈی سی گلگت مقرر کیا گیا ہے، جو ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ آفس گلگت بلتستان کا اضافی چارج بھی سنبھالیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ محکمہ صحت گلگت بلتستان میں 45 ڈاکٹروں کے تبادلے کر دیئے گئے ہیں، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹر ہدایت حسین کو بطور ڈی ایم ایس پی ایچ کیو ہسپتال گلگت، جبکہ ڈاکٹر محمد زعیم ضیا کو پرنسپل ایچ آر ڈی سی گلگت مقرر کیا گیا ہے، جو ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ آفس گلگت بلتستان کا اضافی چارج بھی سنبھالیں گے۔ اس طرح ڈاکٹر سید ذاکر حسین کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے سٹی ہسپتال گلگت، ڈاکٹر شمشاد بیگم کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے بیسن ہسپتال، ڈاکٹر سائمہ اختر کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے سٹی ہسپتال گلگت، ڈاکٹر نسیم فاطمہ کو تین ماہ کے لیے سٹی ہسپتال گلگت سے ہنزہ، ڈاکٹر حمید عالم کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے بیسن ہسپتال، ڈاکٹر فرحین خان کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے سٹی ہسپتال گلگت، ڈاکٹر فریدہ بتول کو سٹی ہسپتال گلگت سے پی ایچ کیو ہسپتال گلگت، ڈاکٹر ثناور عباس کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے سٹی ہسپتال گلگت تبادلہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر معراج احمد رانا کو سٹی ہسپتال گلگت سے استور ہسپتال، ڈاکٹر سدف کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت سے سٹی ہسپتال گلگت، ڈاکٹر حنا خان کو بیسن ہسپتال گلگت سے سٹی ہسپتال گلگت، ڈاکٹر احسان علی کو گاہکوچ ہسپتال سے سٹی ہسپتال گلگت، ڈاکٹر انعام اللہ خان کو انتظامی امور کی ذمہ داری کے ساتھ ہنزہ ہسپتال سے گوجال سول ہسپتال، ڈاکٹر بختاور زہرا کو سٹی ہسپتال گلگت سے استور ہسپتال، ڈاکٹر ماریہ جان کو دوبارہ ہنزہ ہسپتال، ڈاکٹر مالیحہ امین کو ڈی ایچ کیو ہسپتال خپلو، ڈاکٹر توصیف عباس کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت، ڈاکٹر وجاہت حسین کو کنسلٹنٹ پیڈیاٹرکس کے طور پر پی ایچ کیو ہسپتال گلگت، ڈاکٹر سیدہ فاطمہ زہرہ کو ڈی ایچ کیو ہسپتال استور، ڈاکٹر زینب ناصر کو ایس ایس جی ٹی ایچ گلگت، ڈاکٹر بشری پروین کو سی ایچ بیسن، اور ڈاکٹر عائشہ حیات کو پی ایچ کیو ہسپتال گلگت میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔
طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔
اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔
اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔