اڈیالہ جیل کا 142 سالہ سفر، اب تک 4 مقدمات تبدیل، سابق وزرائے اعظم بھی قید رہے
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
راولپنڈی:
ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کا اڈیالہ جیل تک کا سفر 142 سال مکمل کر چکا ہے، اس جیل نے اب تک 4 مقامات تبدیل کیے اور پاکستان کے کئی سابق وزرائے اعظم یہاں قید رہے ہیں۔
ڈیڑھ صدی قبل راولپنڈی جیل کمیٹی چوک تیلی محلہ روڈ ٹرائینگلور پر تھی پھر تھوڑے عرصہ کیلیے موجودہ محکمہ تعلیم سیکریٹریٹ میں رہی اور 1882 میں راولپنڈی جیل موجودہ جناح پارک ،جوڈیشل کمپلیکس مقام پر تھی یہاں جیل 104 سال تک رہی، یہ ایک تاریخی جیل تھی جس میں تحریک پاکستان کے فریڈم فائٹرز بھی لاہور ممبئی ،دہلی حیدرآباد دکن، بھارتی پنجاب ڈھاکا چٹاگانگ سے گرفتار کر کے انگریز سرکار یہاں قید کرتی رہی۔
اس پرانی جیل میں علامہ مشرقی بھی قید رہے ، بھٹو کی پھانسی کے بعد اس کی تاریخی حیثیت مٹانے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے نئی جیل بنانے کا فیصلہ کیا 1988 میں یہ جیل مکمل مسمار کر دی گئی اور یہاں جناح پارک بنا دیا گیا اور اڈیالہ گاؤں کے قریب سنٹرل جیل راولپنڈی بنائی گئی۔
اڈیالہ جیل میں ابتدا میں 1927 قیدیوں کی گنجائش تھی جو 3500 تک چلی گئی، اس وقت 6 ہزار سے زائد قیدی ہیں، لشکر طیبہ کے ذکی الرحمان لکھوی ،سابق وزرائے اعظم نواز شریف ،یوسف رضا گیلانی ، شاہد خاقان عباسی ، مریم نواز ، شہباز شریف آ صف زرداری، ایان علی، ممتاز قادری، امریکی اداکار ایرک انتھونی( منشیات کیس) بھی قید رہے۔
آج کل یہ جیل تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی قید کے باعث مشہور ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قید رہے
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔