کچرے سے بنی آرائشی اشیا جو گھر کو چار چاند لگادیں
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
محمد مشتاق احمد
کچرے میں موجود پلاسٹک کو آگ لگا کر تلف کرنا ماحول کے لیے خطرناک ہوتا ہے جبکہ اسی پلاسٹک کو کام میں لاتے ہوئے اس سے خوبصورت اشیا بنالی جائیں تو وہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور دیرپا بھی ثابت ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ای ویسٹ اپنی ری سائیکلنگ کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف
کراچی میں جاری پھولوں کی نمائش میں ایک اسٹال پلاسٹک سے بنی اشیا کا بھی ہے۔ یہاں سجی ہر شے اس پلاسٹک سے بنائی گئی ہے جو کچرا بن چکا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پلاسٹک اشیا نمائش پلاسٹک کی اشیا پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کراچی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پلاسٹک اشیا نمائش پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کراچی
پڑھیں:
چُھٹکی
سردیوں کی پہلی بارش نے ٹھنڈ کی شدت کو مزید بڑھا دیا تھا، وہ اور اس کا چھوٹا سا پوڈل ہیٹر کے سامنے بیٹھے تھے، اس کے باوجود سردی ہڈیوں میں یوں سرایت کر رہی تھی جیسے نوکیلے کانٹے چبھ رہے ہوں۔
اچانک اسے اُس کی یاد آئی، وہ جو گلی کے نکڑ پر خالی پلاٹ میں کئی برسوں سے ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔
میڈیکل کالج آتے جاتے یا اپنے پوڈل کو واک کراتے ہوئے اکثر اُس پر نظر پڑ جاتی، آنکھوں میں ایک ایسی اداسی، ایسا دکھ کہ دل چیر دے، وہ ہر بار سر جھٹک دیتا۔
’ایسی اداس آنکھیں تو جا بجا ہیں، سب کے بارے میں سوچا جائے تو جئیں گے کیسے۔‘
دن گزرتے گئے، وہ وہیں خالی پلاٹ میں براجمان رہی، دن بھر کہیں سے کچھ کھانے پینے کو ڈھونڈتی، مگر شام ڈھلے پھر اپنے اسی مسکن پر لوٹ آتی۔
کچھ دنوں سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے پیٹ کا حجم بڑھنے لگا ہے، رفتہ رفتہ وہ پھولنے لگا۔ ایک صبح اماں نے اسے آواز دی:
’ہائے بیٹا، رات بہت برا خواب دیکھا، میرا دل ہول رہا ہے، بندو قصائی سے پھیپھڑے کلیجی لے آؤ، صدقہ دوں تو ذرا من ہلکا ہو۔ اللہ ہر بری بلا سے بچائے۔‘
اس نے دل میں سوچا، اس صدقے کی اصل حقدار تو وہ پیٹ والی ہی ہے۔
قصائی سے گوشت لیا اور سیدھا اسی خالی پلاٹ کی طرف چل پڑا۔
وہ آنکھیں موندے نیم بے ہوش سی پڑی تھی اور شاید دھیرے دھیرے سسک بھی رہی تھی، پیٹ ایسا جیسے ابھی پھٹ جائے۔
اس نے سرخ گوشت کی تھیلی آہستہ سے اس کے سامنے رکھی، ایک نظر اس پر ڈالی اور الٹے قدموں واپس آگیا۔
رات بھر موسلا دھار بارش ہوتی رہی، موسم کی شدت بڑھتی گئی۔ اس نے بستر میں دبکے پوڈل کو دیکھ کر سوچا، ’اس بیچاری کا کیا بنے گا اتنی ٹھنڈ میں؟‘
صبح وہ پوڈل کے ساتھ چہل قدمی کو نکلا تو قدم خود بخود اسی پلاٹ کی جانب اٹھ گئے۔
پلاٹ کے ایک کونے میں وہ بے جان پڑی تھی، اور اس کے آس پاس پانچ چھ ننھے وجود کلبلا رہے تھے۔
اس نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو، ’اب میرا کچھ نہیں، ان کا خیال رکھنا۔‘
اس کا کلیجہ کٹ گیا۔
ننھا پوڈل ان بچوں پر زور زور سے بھونکنے لگا جیسے اپنی اہمیت جتا رہا ہو، لیکن وہ ذرا نہیں غرائی، اپنے محسن کے پیارے پر وہ کیونکر غصہ کر سکتی تھی۔
وہ دوڑ کر گھر آیا، جو کچھ کھانا بچا تھا ایک تھیلی میں ڈالا اور بھاگ کر دوبارہ اسی پلاٹ میں پہنچا۔
ماں جلدی جلدی کھانے پر منہ مارنے لگی، بچے اس کے پستانوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا، اپنے کتے کو واک پر لے کر جاتا تو ہاتھ میں گھر کا بچا ہوا کھانا، ہڈیاں، سوکھی روٹیاں بھی ساتھ ہوتیں، ان ننھنی جانوں کے لیے۔
کبھی گھر میں کچھ نہ ہوتا تو قصائی سے چھیچھڑے لے آتا، ابالتا اور ان کے آگے رکھ دیتا۔
بچے خوشی سے چاؤں چاؤں کرتے دوڑتے آتے، لپک لپک کر کھانے لگتے۔
وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہوئے، بکھر گئے، لیکن ایک بچی ماں کے ساتھ چپکی رہی، لاغر سی۔ اس نے اس کا نام رکھا ’چھٹکی‘۔
چھٹکی بھوری کتھی رنگ کی تھی، جیسے ہی وہ آتا، وہ دم ہلاتی دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی۔ پوڈل کے ساتھ مستی کرتی لیکن پوڈل اس پر خوب گرجتا برستا پر چھٹکی کی دم اس کے بھونکنے پر بھی مسلسل ہلتی رہتی۔
وہ اسے سہلاتا تو چھٹکی زمین پر لیٹ جاتی، پیروں سے لپٹ جاتی،
ایک دن وہ محلے کے ڈاکٹر کے پاس گیا۔
’ڈاکٹر صاحب، اس کو شاید الرجی ہو گئی ہے، بہت کھجا رہی ہے، کوئی دوا دے دیں۔‘
ڈاکٹر نے ابرو چڑھائے، ’دوا کا نام لکھ دیتا ہوں، مگر پلانا تمہارا کام۔ میں جانوروں کا ڈاکٹر نہیں ہوں، اور ان آوارہ کتوں سے مجھے دور ہی رکھو۔‘
وہ پرچی لے آیا، دوا سرنج میں بھری، کھانے کے ساتھ چھٹکی کو پلائی۔ چھٹکی بنا چوں چراں منہ کھول کر دوا پی لیتی۔
رفتہ رفتہ ٹھیک ہونے لگی۔ ماں کی صحت ڈھل رہی تھی، مگر چھٹکی دن بدن قد نکال رہی تھی، تندرست اور چست ہو رہی تھی۔
ایک دن وہ بو سونگھتے سونگھتے سیدھی اس کے دروازے تک پہنچ گئی۔ ’ارے چھٹکی! تُو یہاں کیسے آگئی؟‘ چھٹکی دم ہلاتی، پیروں سے لپٹ گئی۔
’کھانا کھائے گی میری چھٹکی؟‘
’کوں کوں‘!
وہ ہنس دیا۔
’اچھا، ٹھہر، ابھی لایا‘!
اس نے جلدی سے مٹی کی پرانی پلیٹ میں کھانا نکالا اور باہر آیا تو دیکھا چھٹکی ادھ کھلے دروازے سے اندر بڑی حسرت بھری نظروں سے جھانک رہی تھی۔
سامنے لاؤنج کے صوفے پر پوڈل آرام سے بیٹھا مزے سے کچھ کھا رہا تھا۔ وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سوچنے لگا۔’ فرق صرف انسانوں میں نہیں، جانوروں کے ساتھ برتا جاتا ہے، اونچ نیچ، امیری غریبی، اعلیٰ و کم تر نسل‘!
اس نے چھٹکی کے سامنے کھانے سے بھری پلیٹ رکھ دی، چھٹکی نے پیٹ بھر کے کھایا، پھر گھر کے باہر کٹورے سے سڑپ سڑپ پانی پیا، ایک شکر گزار نظر اس پر ڈالی اور دم ہلاتی واپس چلی گئی۔
اب یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ آتی، کھانا کھاتی، پیار سے سہلوا کے چلی جاتی۔
ایک روز وہ باہر نکلا تو دیکھا، چھٹکی دروازے کے پاس سمٹی بیٹھی ہے۔ ’ارے میری چھٹکی آئی ہے‘!
اس کے پکارنے پر چھٹکی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، مگر اٹھلانے کے بجائے فوراً سمٹ کر ایک طرف ہوگئی۔
وہ اکڑوں بیٹھ کر اسے سہلانے لگا تو زمین پر کچھ لال سا دکھائی دیا۔۔۔ خون۔
اس نے چونک کر غور سے دیکھا، چھٹکی کے اگلے پیر کی ایک انگلی کٹی ہوئی تھی، اور اس زخم سے مسلسل خون رس رہا تھا۔
’افف۔۔۔ یہ کیا ہوا چھٹکی؟‘ وہ بےاختیار بول اٹھا۔
چھٹکی درد سے کپکپا رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں عجب سا بھروسہ تھا۔
وہ تیزی سے اندر گیا، مرہم، پٹی اور دوا لے آیا، اور نہایت نرمی سے اس کے زخم پر پٹی باندھنے لگا۔
’وحشی ظالم لوگ۔۔۔‘ وہ دل ہی دل میں انسانوں کو گالیاں دینے لگا۔
چھٹکی خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، جیسے اپنے مسیحا کو پہچانتی ہو جانتی ہو۔
ایک دن اماں نے اسے دیکھ کر کہا:
’بیٹا، انسانوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں، تم نے کتوں سے دوستی پال لی ہے؟‘
وہ مسکرا دیا۔
’اماں، انسان کے پاس زبان ہے، دماغ ہے، ہاتھ ہیں۔
یہ بے زبان تو ہم پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔
اگر ہم بھی ان کا آسرا نہ بنیں تو کون بنے گا؟‘
پھر کئی دن گزر گئے، چھٹکی نہ آئی۔
وہ خالی پلاٹ گیا، پارک گیا، مگر کہیں نظر نہ آئی۔
دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔
ایک رات وہ دوست کے ساتھ گلی میں کھڑا بات کر رہا تھا کہ سامنے سے چھٹکی آتی دکھائی دی۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے قریب آئی، سر جھکائے خاموش کھڑی ہوگئی۔
’چھٹکی! کہاں تھی تو اتنے دن؟‘
وہ کوں کوں کرتی، اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔
اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
اور تبھی اس کی نظر پڑی، چھٹکی کے لٹکے ہوئے پستانوں پر۔
’ارے۔۔۔ میری چھوٹی سی چھٹکی۔۔۔ اماں بن گئی تُو؟‘
وہ سر جھکائے کھاتی رہی۔
وہ بار بار اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا جاتا، اور آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جاتے۔
اس نے سوچا بچے جننے کا دکھ صرف انسانوں کا نہیں، جانور بھی اسی اذیت سے گزرتے ہیں۔
چھٹکی نے گھر کے قریب پارک میں تین بچے دیے تھے۔ اب وہ روز آتا، کھانا ڈالتا، پانی رکھتا۔ چھٹکی کی آنکھوں میں وہی شکر گزاری ہوتی، جو کبھی اس کی ماں کی آنکھوں میں تھی۔
شہر میں کتوں کی آبادی روکنے کے لیے مہم زوروں پر تھی، انہیں زہر دے کر مارا جا رہا تھا۔
وہ سوچ میں گم رہتا، ’اگر انسانوں میں تھوڑا سا بھی رحم باقی ہوتا تو یہ بے زبان یوں نہ مرتے۔‘
ہر بار خالی پلاٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے چھٹکی کی ماں کی آنکھیں یاد آجاتیں۔ اداس، مگر شکر گزار!
جو لفظوں سے نہیں، نگاہوں سے بات کرتی تھیں۔
یہ انسان قدرت کی سب سے ظالم مخلوق ہے کیسے کسی جاندار کو اتنی بے دردی سے زہر دے کر سسکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے؟
اب اسے ہر وقت چھٹکی اور اس کے بچوں کی فکر ستانے لگی تھی، روز جب وہ چھٹکی کو زندہ سلامت اور اس کے بچوں کو رینگتا ہوا دیکھتا تو اس کے اندر جیسے زندگی لوٹ آتی۔
میڈیکل کالج کا آخری سال اختتام کے قریب تھا، آج صبح وہ معمول کے مطابق تیار ہو کر کالج جانے نکلا ہی تھا کہ پارک کے سامنے بڑے سے کوڑے دان کے گرد اسکول کے بچوں کا ہجوم دیکھ کر ٹھٹھک گیا، دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایک انجانی گھبراہٹ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے کوڑے دان کی طرف بڑھا،
بچے اسے آتا دیکھ کر ایک طرف ہو گئے۔
کوڑے دان کے اندر سینکڑوں مرے ہوئے کتے ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر تھے، انہی کے بیچ چھٹکی اور اس کے ننھے بچے بھی پڑے تھے۔
چھٹکی کے منہ سے اب بھی سفید جھاگ نکل رہا تھا، اور اس کے پستان دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews انسان آوارہ کتے چھٹکی ظلم وی نیوز