درآمد کوئلے سے بجلی 16 روپے یونٹ بن رہی ہے مقامی کوئلے سے لاگت 4 روپے آئیگی، پاور ڈویژن
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آ باد:
پاور ڈویژن حکام نے کہا ہے کہ مقامی کوئلے سے بجلی کی لاگت 4 روپے فی یونٹ آئے گی، اس وقت امپورٹڈ کوئلے سے بجلی کی لاگت فی یونٹ 16 روپے فی یونٹ ہے، آئل کے ذریعے بجلی بنانے کی لاگت فی یونٹ 30 سے 32 روپے ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی توانائی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی محمد ادریس کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
پاور ڈویژن کی رپورٹ میں لیسکو صارفین پر 78 لاکھ اضافی یونٹس کے بوجھ کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر قائمہ کمیٹی نے اضافی 78 لاکھ یونٹس کے معاملے پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔
رکن کمیٹی رانا محمد حیات نے کہا کہ تین چار سال سے بل اور واپڈا کے اخراجات بھی بڑھتے جا رہے ہیں، ہماری حکومت ہے ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے، بتائیں تو سہی کہ لوگوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ریلیف کب دیں گے، قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ مقامی کوئلے سے بجلی کتنی سستی پڑے گی۔
پاور ڈویژن حکام نے بتایا کہ مقامی کوئلے سے بجلی کی لاگت 4 روپے فی یونٹ آئے گی، اس وقت امپورٹڈ کوئلے سے بجلی کی لاگت فی یونٹ 16 روپے فی یونٹ ہے، آئل پر بجلی بنانے کی لاگت 30 سے 32 روپے فی یونٹ آتی ہے۔
سید مصطفی' کمال نے پوچھا کہ ہائیڈل اور تھرمل بند کرکے کوئلے پر جائیں گے تو آگے پلان کیا ہوگا؟ اگر آگے چل کر کوئلے کے پلانٹس کا بھی مسئلہ ہوا تو کیا کریں گے؟
سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ کوئلے کے پلانٹس ہم مختصر وقت میں لگا سکتے ہیں، ہم پاور پلانٹس کیلئے اگلے دس سال کیلئے جدید فورکاسٹنگ کر رہے ہیں، اگلے تین سال میں آئل والے پاور پلانٹس میں سے بہت سے بند ہو جائیں گے۔
رکن اسمبلی و کمیٹی ملک انور تاج نے پوچھا کہ چوری اور نقصانات کو کم کرنے کیلئے انڈر گراؤنڈ کا کوئی پلان ہے؟ اسلام آباد میں بجلی انڈر گراؤنڈ ہے اس لیے چوری اور نقصانات کم ہیں۔
سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ بجلی انڈر گراؤنڈ کرنا مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے، فیصل آباد میں بجلی انڈر گراونڈ نہیں لیکن نقصانات اور چوری کم ہے، لیسکو نے پچھلے سال 82 ارب روپے کے نقصانات کیے ہیں۔
رانا محمد حیات نے کہا کہ لیسکو والے 20 گھنٹے تو فیڈر بند کر دیتے ہیں پھر نقصانات کیسے ہوگئے؟
مصطفی' کمال نے کہا کہ جتنی مرضی نجکاری کرلیں مناپلی ختم نہ کی تو نقصان کم نہیں ہوں گے، جب تک مقابلہ نہیں ہوگا ڈسکوز کی مناپلی ختم نہیں ہوگی، کے الیکٹرک کی نجکاری کی گئی لیکن اس کی بھی تو مناپلی ہے، کراچی کے لوگ صرف کے الیکٹرک سے بجلی لینے پر مجبور ہیں، ایک کمپنی ٹھیک نہیں تو دوسری کے پاس جانے کا آپشن تو ہو۔
سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ اسی لیے تو ہم بجلی کی آزاد مارکیٹ بنانے پر کام کر رہے ہیں، صارفین کمپنیوں سے اپنی مرضی سے بجلی خرید سکیں گے، بہت جلد بجلی صارفین اپنے میٹر کی خود ریڈنگ کرنے کے قابل ہوں گے، تمام ڈسکوز کی موبائل ایپس کی تیاری پر کام کر رہے ہیں، صارفین میٹر ریڈنگ کی تاریخ پر خود موبائل سے تصویر بنا کر بھیج سکیں گے۔
سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ آئم ایم ایف سے بجلی بلوں پر ٹیکسز کم کرنے پر بات کر رہے ہیں، صرف بجلی بلوں سے ایف بی آر کو 8 سے 9 سو ارب روپے ٹیکس جا رہا ہے، ٹیوب ویلز کو سولر پر شفٹ کرنے کیلئے بلا سود قرضوں پر کام کر رہے ہیں۔
سیکریٹری نے بتایا کہ اسلام آباد میں 8 لاکھ میٹرز تبدیل کر دیے گئے ہیں، اسلام آباد میں مزید 12 لاکھ میٹرز کو اسمارٹ میٹرز سے تبدیل کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مقامی کوئلے سے روپے فی یونٹ کر رہے ہیں
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭