فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے چار اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی ہیں اور اب اسرائیل کی جانب سے معاہدے کے تحت 620 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابوعبیدہ نے بتایا ہے کہ یہ لاشیں کچھ دیر قبل ریڈ کراس کے سپرد کی گئیں اور اب فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ لاشیں اتساحی عیدان، ایتسیک الجریط، اوھاد یہلومی، اور شلومو منصور کی ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی سیکیورٹی اہلکار نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور اب ریڈکراس کا ایک قافلہ درجنوں رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کو لے کر اسرائیل کی اوفر جیل سے روانہ ہوا ہے، معاہدے کے تحت اسرائیل کی جانب سے 620 فلسطینی قیدیوں کی رہائی متوقع ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق 600 سے زائد فلسطینی قیدی جو پچھلے ہفتے رہا ہونے تھے لیکن اسرائیل کی جانب سے ان کی رہائی روک دی گئی تھی تاہم انہیں آج رہا کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے حماس اور اسرائیل کے درمیان 4 مزید یرغمالیوں کی لاشوں کے بدلے 620 فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا تھا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینی قیدیوں کی رہائی اسرائیل کی

پڑھیں:

جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟

فرانس کی ایک جیل میں 41 سال سے قید کاٹنے والے لبنانی استاد اور انقلابی کارکن جارج عبداللہ آخرکار آب بروز جمعہ رہائی پانے جا رہے ہیں۔ ان کی رہائی نہ صرف انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ایک فتح تصور کی جا رہی ہے بلکہ یہ فلسطینی کاز سے وابستگی اور نظریاتی مزاحمت کی ایک غیر معمولی مثال بھی ہے۔

 پس منظر: ایک استاد سے انقلابی بننے تک

جارج ابراہیم عبداللہ 1951 میں شمالی لبنان میں ایک مسیحی مارونی خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1970 کی دہائی میں وہ مارکسسٹ انقلابی نظریے سے متاثر ہوئے، اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہو گئے۔

لبنان میں جاری خانہ جنگی، فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے، اور 1982 کے صبرا و شتیلا قتلِ عام جیسے واقعات نے عبداللہ کو عملی مزاحمت کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے ایک زیرِ زمین انقلابی تنظیم Lebanese Armed Revolutionary Factions (LARF) قائم کی، جس کا مقصد اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف یورپ میں کارروائیاں کرنا تھا۔

 فرانس میں حملے اور گرفتاری

LARF نے 1982 میں فرانس میں 2 سفارتی قتل کی ذمہ داری قبول کی:

اسٹراسبرگ میں امریکی نائب سفیر چارلس رے کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

پیرس میں اسرائیلی سفارتکار یاکوو بارسیمانتوف کو نشانہ بنایا گیا۔

عبداللہ کو 1984 میں فرانس کے شہر لیون سے گرفتار کیا گیا۔ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے نشانے پر سمجھتے تھے، اور اسی خوف کے تحت پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو حوالے کیا۔ ابتدائی طور پر ان پر جعلی پاسپورٹ رکھنے اور مجرمانہ سازش کے الزامات لگائے گئے، لیکن بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے اسلحہ کا ذخیرہ برآمد ہوا، جس میں قتل میں استعمال ہونے والی بندوق بھی شامل تھی۔

سیاسی دباؤ اور انصاف میں تاخیر

1987 میں جارج عبداللہ کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ وہ 1999 سے مشروط رہائی کے اہل تھے، لیکن ان کی 11 سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔ ان کی رہائی میں امریکا اور اسرائیل کے دباؤ کو مرکزی رکاوٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

2013 میں فرانسیسی عدالت نے ایک موقع پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی تھی، لیکن اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فرانسیسی حکومت کو خط لکھ کر عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی سفارش کی۔
یہ خط بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آیا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے بعد ازاں ان کی رہائی کے لیے درکار اخراجی حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

 زندگی، نظریہ اور جیل میں مزاحمت

عبداللہ نے حالیہ دنوں میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی ذہنی حالت کو فلسطینی مزاحمت سے وابستہ رکھ کر سنبھالے رکھا۔ ان کی جیل کی کوٹھری میں چی گویرا کی تصویر، دنیا بھر سے حامیوں کی ارسال کردہ کارڈز اور خطوط، اور روزانہ کے اخبارات کا ایک ڈھیر موجود تھا۔

ان کا کہنا ہے ’اگر میرے پاس جدوجہد کا جذبہ نہ ہوتا، تو شاید میں پاگل ہو چکا ہوتا۔ ‘

وہ آج بھی خود کو مارکسسٹ لیننسٹ نظریات سے وابستہ قرار دیتے ہیں، اور ان کے حامی ہر سال ان کی جیل کے باہر مظاہرہ کرتے رہے۔ فرانس کے 3 بائیں بازو کے زیرِ انتظام بلدیاتی اداروں نے انہیں ‘اعزازی شہری’ بھی قرار دیا۔

 عدالتی فیصلہ اور رہائی کا حکم

2025 میں ایک تازہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جارج عبداللہ کی قید کی مدت اب ’غیر متناسب‘ ہے، اور وہ اب مزید خطرہ نہیں سمجھے جاتے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان کی رہائی کے فوراً بعد انہیں فرانس سے بے دخل کر کے لبنان بھیجا جائے گا۔

80 کی دہائی میں جارج عبداللہ دو فرانسیسی پولیس اہلکاروں کے درمیان کمرہ عدالت میں موجود  سیاسی، قانونی اور اخلاقی اثرات

عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے کہا:

’یہ ایک قانونی فتح ضرور ہے، لیکن یہ فرانس کی ریاستی ناانصافی اور امریکی دباؤ کے تحت انصاف کی پامالی کا بھی ایک ثبوت ہے۔‘

نوبیل انعام یافتہ ادیبہ انی ارنو نے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی اور انہیں ’ریاستی ظلم کا نشانہ‘ قرار دیا۔

فرانسیسی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ایو بونے نے تو یہاں تک کہا کہ جارج عبداللہ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو کسی قاتلِ مسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ امریکا ان کی رہائی کو روکنے میں جنونی حد تک شامل رہا۔

 ایک تاریخی نظیر

فرانسیسی اخبار Le Monde کے مطابق، اسرائیل میں سزائے عمر قید پانے والا کوئی بھی فلسطینی قیدی 40 سال سے زیادہ قید میں نہیں رہا — مگر جارج عبداللہ نے 41 سال قید کاٹی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جارج عبداللہ صرف ایک قیدی نہیں، وہ مزاحمت، نظریے اور انصاف کے لیے جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔ اُن کی رہائی، چاہے جتنی تاخیر سے ہو، عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا لمحہ ہے — اور فرانس جیسے جمہوری ملک کے انصاف اور آزادی کے دعوؤں پر ایک سوالیہ نشان۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جارج عبداللہ فرانس فلسطین لبنان

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار نے ڈاکٹر عافیہ کیس سے متعلق حوالے کی وضاحت جاری کردی
  • غزہ جنگبندی کے مذاکرات میں 3 اہم رکاوٹیں موجود ہیں، ترکیہ
  • حماس کو ’شکار کیا جائے گا‘، ٹرمپ وحشیانہ دھمکیوں پر اتر آئے
  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • مقبوضہ مغربی کنارے کے غیرقانونی الحاق کی اسرائیلی کوشش، پاکستان کی شدید مذمت
  • اسرائیل میں ایک تیز رفتار کار فوجیوں پر چڑھ دوڑی
  • اسرائیل میں ایک تیز رفتار کار فوجیوں پر چڑھ دوڑی؛ ہلاکتوں کا خدشہ
  • غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس