مظفرآباد، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ امتیاز احمد بدعنوانی پر ملازمت سے برطرف
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
عدالت عظمیٰ آزاد کشمیر نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ امتیاز احمد کو بدعنوانی پر ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔
عدالت عظمیٰ آزاد جموں و کشمیر نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ امتیاز احمد کو سرکاری ذمہ داریوں میں غفلت، بدعنوانی اور ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ملازمت سے برطرف کرنے کا حتمی فیصلہ سنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی خزانے کو ڈیڑھ کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے پر جج برطرف
عدالتی فیصلے کے مطابق راجہ امتیاز احمد کو آزاد جموں و کشمیر سول سروس قواعد کے تحتRemoval from Service کی سزا دی گئی، جس کی باقاعدہ منظوری عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں دی گئی۔
راجہ امتیاز احمد کے خلاف ماضی میں بھی مختلف نوعیت کی شکایات اور سزائیں ریکارڈ پر موجود تھیں۔ عدالت نے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ناقابلِ معافی قرار دیا اور قرار دیا کہ ایسی بدعنوانی کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ سرکاری ذمہ داریوں میں کوتاہی اور ضابطہ اخلاق کی مسلسل خلاف ورزی پر کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائے گی، خواہ وہ کتنا ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کالعدم قرار
اس فیصلے کے بعد راجہ امتیاز احمد کی سرکاری خدمات کا باضابطہ طور پر اختتام ہو گیا ہے، اور انہیں فوری طور پر ملازمت سے سبکدوش کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چند دن قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ امتیار احمد کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی اور وقار کو مجروح کرنے پر 3 دن قید کی سزا سنائی کر سزا سنائی گئی تھی، انہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے ریماکس دیے کہ جج راجہ امتیاز احمد نے منشیات کے مجرم کو خلاف قانون بری کیا۔
جج نے سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف 16 فروری 2023 کو ملزم کو بری کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آزاد کشمیر جج برطرف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سپریم کورٹ عدالت عظمیٰ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سپریم کورٹ عدالت عظمی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ جج راجہ امتیاز احمد پر ملازمت سے عدالت عظمی احمد کو
پڑھیں:
بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں‘ عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک )سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں، اور مالی لین دین کا ریکارڈ خود بخود آمدن نہیں کہلاتا، اکاؤنٹ میں موجود رقم کو بلاوجہ خفیہ آمدن قرار نہیں دیا جا سکتا۔چیف جسٹس یحیی خان آفریدی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کی جانب سے جاری تحریری فیصلہ جسٹس شفیع صدیقی نے تحریر کیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف رقم کی منتقلی آمدن کا ثبوت نہیں سمجھی جا سکتی، مالی لین دین کا ریکارڈ خودبخود آمدن نہیں کہلاتا، بغیر واضح اور قابل بھروسا ثبوت کے نوٹس جاری نہیں کیا جا سکتا، محض شک یا اندازے پر ٹیکس کی جانچ نہیں ہو سکتی، اکاؤنٹ میں موجود رقم کو بلاوجہ خفیہ آمدن قرار نہیں دیا جا سکتا۔فیصلے کے مطابق محکمہ ٹیکس کی نظرِ ثانی کی کارروائی غیرقانونی قرار دی جاتی ہے، آمدن ثابت کرنے کے لیے مخصوص اور ٹھوس معلومات لازمی ہیں، معلومات کا براہ راست تعلق ٹیکس کے قابل آمدن سے ہونا چاہیے، محض بینک کا ریکارڈ قانون کے تحت کارروائی کے لیے کافی نہیں، محکمہ ٹیکس کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے، شہری کو رعایت دے دی گئی، غیرمصدقہ معلومات پر مبنی کارروائی کو غلط قرار دے دیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے، ہر اطلاع کی جانچ پڑتال ضروری ہے، ہر کارروائی شفاف ثبوت پر مبنی ہونی چاہیے۔واضح رہے کہ درخواست گزار نے خداداد ہائٹس اسلام آباد کے خلاف ایف بی آر کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، ایف بی آر نے بینک اسٹیٹمنٹ کو آمدن قرار دے کر ازسرنو ٹیکس تشخیص کی کارروائی شروع کی تھی۔