کلیدی معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری، وزارت خزانہ کی رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
کلیدی معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری آرہی ہے، ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ جبکہ افراط زر اور پالیسی ریٹ میں کمی سے معاشی بہتری کی عکاسی ہورہی ہے،فروری میں افراط زر کی شرح دو سے تین فیصد تک جبکہ مارچ میں 3 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ یہ بات وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ میں کہی گئی ہے جس کے مطابق جنوری میں ترسیلات زر کا حجم 3.
جنوری میں برآمدات کا حجم 2.940ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال جنوری کے 2.680ارب ڈالرکے مقابلے میں 9.7فیصد زیادہ ہے، درآمدات کا حجم 5.455ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال جنوری کے 4.669ارب ڈالرکے مقابلے میں 16.8فیصد زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کے 7 ماہ میں ترسیلات زر، برآمدات و درآمدات میں اضافہ ریکارڈ، وزارت خزانہ
غیر ملکی سرمایہ کاریحسابات جاریہ کے کھاتو ں کا خسارہ 420ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ جنوری میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 194 ملین ڈالر جبکہ مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 99.2ملین ڈالر رہا۔
زرمبادلہ کے ذخائرجولائی سے جنوری تک کی مدت میں زرمبادلہ کے ذخائرکا حجم 15.948ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔
ایکسچینج ریٹ14 فروری کو ایکسچینج ریٹ279.21 روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال 14 فروری کو 279.32روپے تھا۔
معصولاتجولائی سے دسمبرتک کی مدت میں ایف بی آر کی مجموعی محصولات کا حجم 6497.4ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت 5149.6ارب روپے کے مقابلے میں 26.2فیصد زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دسمبر 2024 میں مہنگائی کی شرح 4.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جو ساڑھے 6 برس کی کم ترین سطح ہے، وزارت خزانہ
جنوری میں ایف بی آرکے محصولات کا حجم 872.6ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال جنوری کے 680.3ارب روپے کے مقابلے میں 23.8فیصد زیادہ ہے۔ جولائی سے دسمبر تک نان ٹیکس ریونیو کا حجم 3602 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 1979.1ارب روپے کے مقابلے میں 82فیصد زیادہ ہے۔
مالی خسارہجولائی سے دسمبرکے دوران مالی خسارے کا حجم 1537.9ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 2407.8ارب روپے کے مقابلے میں 36.1فیصد کم ہے۔ پرائمری بیلنس کا حجم 3603.7ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے 1812.2ارب روپے کے مقابلے میں 98.9فیصد زیادہ ہے۔
نجی قرضہیکم جولائی سے 14 فروری تک کی مدت میں نجی شعبے کو 742.1ارب روپے کے قرضہ جات فراہم کیے گئے جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 246.8ارب روپے تھے۔
پالیسی ریٹگزشتہ سال جون کے اختتام پر پالیسی ریٹ 22فیصد تھا جو 7 جنوری 2025کو کم ہوکر12فیصد ہوگیا ہے۔
مہنگائی کی شرحوزارت خزانہ کے مطابق جنوری میں صارفین کے لیے قیمتوں کا عمومی اشاریہ 2.4فیصد ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال جنوری میں 28.3فیصد تھا۔
جولائی سے جنوری تک کی مدت میں صارفین کے لیے قیمتوں کا اوسط ماہانہ اشاریہ6.5فیصد ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 28.7فیصد تھا۔
اسٹاک ایکسچینجوزارت خزانہ کے مطابق 25 فروری کوپاکستان سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس ایک لاکھ14 ہزار528پوائنٹس ریکارڈ کیا گیا جو24 فروری 2024کو63 ہزار306پوائنٹس تھا۔ ایک سال کی مدت میں 100 انڈیکس میں 80.9فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت خزانہ نے کون سے سرکاری ادارے ضروری قرار دیدیے؟
25 فروری کومارکیٹ کیپیٹلائزیشن کا حجم 50.5ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال 24 فروری کو 32.7فیصد تھا۔ ایک سال کی مدت میں سٹاک ایکسچینج کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن میں 54.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں 16.5 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی ہے۔
زرعی پیداواروزارت خزانہ کے مطابق زرعی پیداوارمیں اضافہ کے لیے حکومت مختلف اقدامات کررہی ہے، حکومت کسانوں کو تمام ممکنہ سہولیات کی فراہمی کےلیے پرعزم ہے تاہم سازگار موسمیاتی عوامل پیداوار ی ہدف کے لحاظ سے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔بارانی علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے ربیع کی فصلوں کےلیے دبائوکی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
صنعتوں کی بحالیبڑی صنعتوں کی پیداوار میں ماہانہ بنیادوں پر آئندہ چند ماہ کے دوران بحالی متوقع ہے، مشینری اور خام مال کی درآمدات میں اضافے سے صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں گی اسی طرح سیمنٹ کی کھپت میں بھی تیزی آرہی ہے۔
افراط زر کی شرح میں مزید کمی متوقعمہنگائی کے دبائو میں کمی کے نتیجے میں پالیسی ریٹ میں بھی بتدریج کمی آرہی ہے جس سے کاروباری اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ فروری میں افراط زر کی شرح دو سے تین فیصد تک جبکہ مارچ میں تین سے چار فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسٹاک ایکسچینج افراط زر پاکستان پالیسی ریٹ ڈالر سرمایہ کاری معاشی اشارے مہنگائی وزارت خزانہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹاک ایکسچینج افراط زر پاکستان پالیسی ریٹ ڈالر سرمایہ کاری مہنگائی روپے کے مقابلے میں سال کی اسی مدت تک کی مدت میں سرمایہ کاری پالیسی ریٹ جولائی سے میں اضافہ مالی سال فروری کو زیادہ ہے کے مطابق افراط زر کی شرح کا حجم کے لیے
پڑھیں:
صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔
اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔
(جاری ہے)
گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔
علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔
یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔
تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیمصنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔
اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
معلومات میں کمی کا مسئلہیو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔
یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔