فوج اہم غزہ راہداری سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی اہلکار
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 فروری 2025ء) اس پیش رفت سے چند گھنٹے قبل ہی حماس نے 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے چار اسرائیلی مغویوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کی تھیں۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ رواں ہفتے کے آخر میں ختم ہو رہا ہے اور اس سے پہلے مغویوں کی باقیات کی واپسی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا یہ آخری تبادلہ تھا۔
اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے دوسرے اور مشکل مرحلے پر بات چیت کا آغاز ہونا ابھی باقی ہے۔ بہت سے معاملات کا انحصار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وِٹکوف کے دورے پر ہے، جو آنے والے دنوں میں اس خطے کا دورہ کرنے والے ہیں۔
اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک مختصر بیان میں تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا ہے کہ وہ اپنے مذاکرات کاروں کو قاہرہ بھیج رہے ہیں۔
(جاری ہے)
جنگ بندی معاہدے کی 'واضح خلاف ورزی‘دوسری جانب ایک اسرائیلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا ہے کہ مصر سے غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اسرائیلی فوج کا نام نہاد فلاڈیلفی کوریڈور (صلاح الدیں محور) میں رہنا لازمی ہے۔
غزہ سیزفائر کی راہ میں حائل فلاڈیلفی کوریڈور اتنا اہم کیوں؟
اسی طرح اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے مقامی رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا ہے کہ انہوں نے اس راہداری کے حالیہ دورےکے دوران وہاں سرنگیں دیکھی ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
مصر کا کہنا ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہی اپنی سائیڈ پر اسمگلنگ کے مقصد سے بنائی گئی ایسی سرنگوں کو تباہ کر دیا تھا اور اس نے اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک فوجی بفر زون بھی قائم کر رکھا ہے۔
غزہ میں شدید سردی کے سبب چھ شیر خوار بچوں کی اموات
حماس نے کہا ہے کہ اس راہداری میں بفر زون کو برقرار رکھنے کی کوئی بھی اسرائیلی کوشش جنگ بندی معاہدے کی ''کُھلی خلاف ورزی‘‘ ہو گی۔
اس عسکریت پسند گروپ کا کہنا ہے کہ معاہدے پر قائم رہنا ہی اسرائیل کے لیے غزہ میں قید درجنوں مغویوں کی رہائی کا واحد راستہ ہے۔جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو پہلے مرحلے کے آخری دن یعنی ہفتے کو فلاڈیلفی راہداری سے انخلاء شروع اور اسے آٹھ دن کے اندر مکمل کرنا ہے۔ مصر کی طرف سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، جو اپنی سرحد کے ساتھ غزہ کی حدود میں کسی بھی اسرائیلی موجودگی کی مخالفت کرتا ہے۔
چار اسرائیلی مغویوں کی باقیات کی شناختاسرائیلی یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے فورم کے مطابق جمعرات کو، جن مغوی اسرائیلیوں کی باقیات واپس کی گئی ہیں، وہ انہی کی ہیں، جن کے نام دیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک اسرائیلی کی لاش حماس کے عسکریت پسند اس وقت اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے، جب انہوں نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
اسرائیل کے مطابق باقی تین مغوی غزہ میں مارے گئے تھے۔اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے کہا ہے کہ ایسی تلخ خبر ملنے پر اسرائیلیوں کے دل دہل جاتے ہیں، ''اس تکلیف دہ لمحے میں، یہ جان کر کچھ سکون ہے کہ انہیں اسرائیل میں عزت کے ساتھ سُپرد خاک کیا جائے گا۔‘‘
فلسطینی قیدیوں کی واپسیحماس نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ شب 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ زیادہ تر قیدی غزہ واپس لوٹے گئے ہیں، جہاں انہیں سات اکتوبر کے حملے کے بعد بغیر کسی الزام کے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ درجنوں قیدی مغربی کنارے پہنچے، جہاں ان کا استقبال ان کے رشتہ داروں اور ہجوم نے کیا۔
ا ا / ع ب، ک م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی معاہدے فلسطینی قیدیوں اسرائیل کے مغویوں کی کی باقیات کہا ہے کہ
پڑھیں:
اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ جاری رہے گی، اسرائیلی جنرل کی وارننگ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں جلد پیش رفت نہ ہوئی تولڑائی بلاتعطل جاری رہے گی۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے جمعے کو غزہ میں افسران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میرا اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ کیا ہم یرغمالیوں کی رہائی کے کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو جنگ بغیر رکے جاری رہے گی۔
‘‘اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں زامیر کو غزہ کے ایک کمانڈ سینٹر میں افسران اور فوجیوں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا۔
(جاری ہے)
یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے سات اکتوبر سن 2023 کے دہشت گردانہ حملوں کے دوران اسرائیل سے اغوا کیے گئے 251 افراد میں سے 49 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے اسرائیلی فوج کے مطابق 27 ہلاک ہو چکے ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسند گروہوں نے اس ہفتے یرغمالیوں کی دو ویڈیوز جاری کیں، جن میں انہیں کمزور اور نڈھال حالت میں دکھایا گیا ہے۔امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں جاری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات گزشتہ ماہ تعطل کا شکار ہو گئے تھے، جس کے بعد اسرائیل میں کچھ حلقوں نے فوجی کارروائی مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر بین الاقوامی اور ملکی بالخصوص یرغمالیوں کے اہل خانہ کی جانب سے بڑھتے مطالبات کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کرے۔
عالمی ادرارہ خوراک و دیگر امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے باعث غزہ کے عوام تباہ کن قحط کا سامنا کر رہے ہیں، تاہم جنرل زامیر نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''دانستہ بھوک سے مارنے کے الزامات کا حالیہ سلسلہ جھوٹا، منظم اور وقتی حملہ ہے، جس کا مقصد اخلاقیات کی علمبردار فوج آئی ڈی ایف کو جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرانا ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''غزہ کے شہریوں کی ہلاکتوں اور تکالیف کی اصل ذمہ دار حماس ہے۔‘‘
حماس کے سات اکتوبر کو کیے گئے حملوں میں مجموعی طور پر 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں زمینی کارروائی کے آغاز سے اب تک 898 اسرائیلی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔
جبکہ حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 60,332 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بیشتر عام شہری تھے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو معتبر قرار دیتی ہے۔
ادارت: آفتاب عرفان / عاطف بلوچ