برلن کے ٹیسلا پلانٹ میں مبینہ آتشزدگی کی تحقیقات شروع
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 فروری 2025ء) جرمن دارالحکومت برلن میں ایک تعمیراتی سائٹ پر آتشزدگی کے متعدد واقعات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ان واقعات کی ذمہ داری مبینہ طور پر ٹیسلا کے ایک پلانٹ کی توسیع کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے قبول کی ہے۔
جرمن پولیس کے مطابق منگل کی علی الصبح برلن کے مشرقی علاقے میں' آگ لگائے جانے کے متعدد واقعات‘ رپورٹ ہوئے، جن کے نتیجے میں 'تعمیراتی کرینیں اور ڈوئچے بان کی سگنل کیبلز‘ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس حملے کا ممکنہ مقصد کیا تھا؟برلن کے علاقے لانڈسبرگر آلے میں رونما ہونے والے ان واقعات کے بعد فائر بریگیڈ کا عملہ بروقت جائے وقوعہ پر پہنچ گیا اور آگ پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
(جاری ہے)
بتایا گیا ہے کہ تقریبا ایک گھنٹے کے آگ پر قابو پا لیا گیا تھا۔ اس دوران وہاں ٹریفک بری طرح متاثر ہوئی۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق 'اس آتشزدگی کا سیاسی مقصد ہونے کا شبہ ہے‘۔جرمنی میں میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک انتہائی بائیں بازو کے گروہ نے ایک ویب سائٹ پر ایک گمنام خط پوسٹ کیا، جس میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
مبینہ طور پر اس گروہ نے تعمیراتی کمپنی اسٹراباگ کو نشانہ بنایا، جو برینڈن برگ کی میونسپلٹی گریونہائیڈ میں واقع ٹیسلا کے ایک پلانٹ کی توسیع میں شامل ہے۔ امریکی ارب پتیایلون مسک کی الیکٹرک گاڑیاں بنانے کا یہ پلانٹ برلن سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔
گروہ کا دعویٰ ہے کہ کمپنی ٹیسلا پلانٹ کے لیے ایک فریٹ یارڈ بنا رہی ہے، جسے ریاستی ریل آپریٹر کمپنی ڈوئچے بان چلائے گی اور اس منصوبے کے لیے بڑی تعداد میں درختوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔
ایلون مسک اور جرمنی کا معاملہ کیا ہے؟ارب پتی اور ایکس (سابقہ ٹویٹر) کے مالک ایلون مسک نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (AfD) کی عوامی حمایت کر کے بائیں بازو کے حلقوں میں غصہ پیدا کر دیا ہے۔
خاص طور پر حالیہ اتوار کو ہونے والے وفاقی انتخابات کے تناظر میں، جس میں اے ایف ڈی تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئےٹیسلا نے سن 2022 میں جرمنیمیں یہ پلانٹ کھولا تھا، جو یورپ میں اپنی نوعیت کا واحد پلانٹ ہے۔
سن 2023 کے آخر میں ٹیسلا نے اس مقام پر اپنی پیداوار کو دگنا کر کے سالانہ ایک ملین گاڑیوں تک لے جانے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
اس فیکٹری میں تقریباً 12,000 ملازمین کام کرتے ہیں۔تاہم مقامی آبادی کی مخالفت کے بعد اس کمپنی نے ان منصوبوں کو محدود کر دیا تھا مگر یہ تجویز اب بھی مقامی باشندوں اور ماحولیاتی کارکنوں میں ناراضی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
مارچ سن 2024 میں ایک مشتبہ آتشزدگی کے حملے کے بعد اس مینوفیکچرنگ پلانٹ کو عارضی طور پر بند بھی کرنا پڑ گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری ایک انتہائی بائیں بازو کے گروہ نے قبول کی تھی۔
ماحولیاتی کارکنوں نے بھی اس توسیعی منصوبے کے خلاف احتجاج کے طور پر قریبی جنگلات میں درختوں پر گھر بنا لیے ہیں جبکہ ماحولیاتی تنظیمیں اس منصوبے کے خلاف مظاہرے کر رہی ہیں۔
جان سلک ( ع ب / ا ا)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
سندھ محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کی تحقیقات متنازع
بااثر مافیا کے دبائو پر لیٹرز میں ردوبدل، افسران کنفیوژن کا شکار، قتل اور اغوا کی دھمکیاں
سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کی انتظامی نااہلی بے نقاب، شفاف احتساب خواب بن گیا
سندھ کے ضلع جیکب آباد میں اسکول اسپیشل بجٹ میں کروڑوں روپے کی مبینہ خوردبرد کی تحقیقات کے دوران محکمہ تعلیم میں سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک کروڑ 35 لاکھ روپے کی اسکول مخصوص بجٹ کی انکوائری میں بااثر مافیا کے دبائو پر محکمہ تعلیم سندھ کے سیکرٹری نے 14 دن بعد پرانی تاریخ 16 اکتوبر میں ایک نیا لیٹر جاری کر کے انکوائری ٹیم کے رکن کو ہٹا دیا رپورٹ کے مطابق، ابتدائی لیٹر صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ کی ہدایت پر جاری ہوا تھا، جس میں ڈائریکٹر پرائمری لاڑکانہ کی سربراہی میں حق نواز نوناری (سابق ڈپٹی ڈی ای او)اور ٹی ای او فی میل جیکب آباد شامل تھے یہ ٹیم مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات کر رہی تھی تاہم بااثر ریٹائرڈ ڈائریکٹر عبدالجبار دایو کے دبائو پر نیا لیٹر جاری کیا گیا، جس میں حق نواز نوناری کو ہٹا کر ڈی ای او پرائمری کو شامل کیا گیاانکوائری سے ہٹائے گئے حق نواز نوناری نے انکشاف کیا کہ انہیں اور ان کے بیٹے کو عبدالجبار دایو کی جانب سے قتل اور اغوا کی دھمکیاں دی گئیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں اب خود کو اس انکوائری کا حصہ نہیں سمجھتا، اور کوئی رپورٹ جمع نہیں کرائوں گا۔ذرائع نے کہاکہ محکمہ تعلیم میں اس قسم کی تبدیلیاں شفاف احتساب پر سوالیہ نشان ہیں۔ سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کی انتظامی کمزوری نے بدعنوان عناصر کو مزید مضبوط کر دیا ہے، جس سے تعلیمی نظام کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔