چیمپئنز ٹرافی 2025 کا اہم ٹاکرا، افغانستان آسٹریلیا کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ سکے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کا 10ویں میچ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ گروپ بی میں آسٹریلیا اور افغانستان کے درمیان اہم اور فیصلہ کن مقابلہ ہوگا جس کا فاتح سیمی فائنل کا ٹکٹ کٹا لے گا۔
اسٹیو اسمتھ کی قیادت میں آسٹریلیا کی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے میدان میں اترے گی جبکہ افغانستان کے کپتان حشمت اللہ شاہدی بھی سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے پر اعتماد ہیں۔
بارش کے باعث میچ نہ ہو سکا تو افغانستان ایونٹ سے باہر ہو جائے گا کیونکہ افغانستان کے تین پوائنٹ ہوں گے جبکہ آسٹریلیا کے 4 پوائنٹ ہو جائیں گے۔ میچ نتیجہ خیز ہونے کی صورت میں جو ٹیم کامیابی حاصل کرے گی وہ سیمی فائنل میں بھارت اور نیوزی لینڈ کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں: افغانستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ کو ہرا کر چیمپیئنز ٹرافی سے باہر کردیا
افغانستان کے کپتان حشمت اللہ شاہدی نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف جیتنے کے لیے پرعزم ہے۔ اگر ہم انگلینڈ کو ہرا سکتے ہیں تو آسٹریلیا کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ ہماری ٹیم کا مورال بلند ہے، اور ہم ایک سادہ مگر مؤثر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔
حشمت اللہ شاہدی نے مزید کہا کہ ان کی ٹیم صرف گلین میکسویل پر نہیں بلکہ پوری آسٹریلوی ٹیم پر حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے۔ ہم کسی ایک کھلاڑی کے خلاف نہیں، بلکہ آسٹریلیا کی پوری ٹیم کے خلاف کھیل رہے ہیں۔ ہمارے پاس معیاری اسپن باؤلرز موجود ہیں، جو کسی بھی ٹیم کے خلاف مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی 2025: بارش کے باعث آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان میچ منسوخ
انگلینڈ کے خلاف اہم فتح کے بعد، قوی امکان ہے کہ افغانستان تیسرے مسلسل میچ کے لیے اپنے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہ کرے اور ایشیائی حالات میں اپنی اسپن کی طاقت کو قائم رکھیں۔ راشد خان، محمد نبی اور نور احمد کا تڑکا آسٹریلوی ٹیم کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
1۔ ابراہیم زادران، 2۔ رحمان اللہ گرباز (وکٹ کیپر)، 3۔ صدیق اللہ اٹل، 4۔ رحمت شاہ، 5۔ حشمت اللہ شاہدی (کپتان)، 6۔ عظمت اللہ عمرزئی، 7۔ محمد نبی، 8۔ گلبدین نائب، 9۔ راشد خان، 10۔ نور احمد، 11۔ فضلِ حق فاروقی
آسٹریلیا کی لائن اپ کی پیش گوئی کرنا کچھ مشکل ہوگا لیکن وہ اپنے بولنگ اٹیک میں تبدیلی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جس نے انگلینڈ کے خلاف 351 رنز دیے تھے۔ بولنگ آل راؤنڈر شان ایبٹ کو بھی منتخب کیا جاسکتا ہے، جو بیٹنگ کو مضبوط کرتا ہے، اور لیگ اسپنر تنویر سنگھا کو بھی منتخب کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: قبول کرتے ہیں کہ چیمپیئنز ٹرافی میں شائقین کی توقعات پر پورا نہیں اترسکے، محمد رضوان
آسٹریلیا اسکواڈ (ممکنہ):1۔ میتھیو شارٹ، 2۔ ٹریوس ہیڈ، 3۔ اسٹیون اسمتھ (کپتان)، 4۔ مارنس لابشینے، 5۔ جاش انگلش (وکٹ کیپر)، 6۔ ایلکس کیری، 7۔ گلین میکسویل، 8۔ شان ایبٹ/اسپینسر جانسن، 9۔ بین ڈوارشس، 10۔ نیتھن ایلس، 11۔ ایڈم زامپا
پچ کی صورتحال:دونوں ٹیمیں لاہور کے حالات سے بخوبی واقف ہیں، جہاں پچ زیادہ تر بیٹنگ کے لیے سازگار رہی جبکہ تیز گیند بازوں کے لیے زیادہ مشکل رہی ہے۔
اعداد و شمار اور ممکنہ ریکارڈمیکسویل 4000 ون ڈے رنز سے 17 رنز دور ہیں۔ ان کا اسٹرائیک ریٹ 126.
راشد خان ایک وکٹ کے فاصلے پر ہیں تاکہ وہ 200 ون ڈے وکٹیں لینے والے افغانستان کے پہلے گیند باز بن جائیں۔ ان کا بولنگ ایوریج 20.4 ہے، جو ون ڈے تاریخ میں 9واں بہترین ہے (کم از کم 1000 گیندوں کا سامنا)۔
رحمت شاہ کو 37 رنز درکار ہیں تاکہ وہ 4000 ون ڈے رنز بنانے والے افغانستان کے پہلے بلے باز بن سکیں۔
آسٹریلیا نے افغانستان کے خلاف اپنے چاروں ون ڈے میچز جیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: موجودہ حالات میں پاکستان کی بہترین ٹیم منتخب کی، کوچ عاقب جاوید نے تنقید کو مسترد کردیا
ہم میچ جیتنا اور گروپ میں ٹاپ پر ختم کرنا چاہیں گے، مارنس لابشینےآسٹریلیا کے بلے باز مارنس لابشینے نے ممکنہ بارش کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہو جاتا ہے تو ہم سیمی فائنلز میں پہنچ جائیں گے، لیکن ظاہر ہے کہ ہم میچ جیتنا چاہیں گے اور گروپ میں ٹاپ پر ختم کرنا چاہیں گے۔
افغانستان: W.L.W.W.W
آسٹریلیا: W.L.L.L.L
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی آسٹریلیا آسٹریلیا اور افغانستان افغانستان قذافی اسٹیڈیم لاہورذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ا سٹریلیا ا سٹریلیا اور افغانستان افغانستان قذافی اسٹیڈیم لاہور حشمت اللہ شاہدی سیمی فائنل میں افغانستان کے افغانستان ا مزید پڑھیں ا سٹریلیا سٹریلیا ا کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
افغانستان!خواتین کے چائے،کافی اور قہوہ خانوں کی دلفریبیاں
امریکہ،یورپ اور ان کے دستر خوانی راتب خور ، امارت اسلامی کی حکومت پر افغان خواتین پر تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی کے جھوٹے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں،لیکن افغانستان میں قائم طالبان حکومت ان الزامات کے برعکس افغان خواتین کے اسلامی حقوق ،ان کی عزت وآبرو کی حفاظت کے ساتھ ان کی آزادی کو جس طرح سے یقینی بنا رہی ہے،اس کی ایک جھلک دلوں کو چھوتی اس تحریر میں دیکھی جا سکتی ہے، اس کابل ڈائری تک پہنچنے میں مددگار بننے والے استاد فریدون کا شکریہ کہ انہوں نے اس حساس موضوع پر بھی مثبت پیش رفت کی ،یہ کابل کی ایک گلی ہے، جہاں سے پہاڑوں کی سفیدی نظروں کو چھوتی ہے، یہاں ایک عمارت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر ہلکی سی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ اندر قدم رکھتے ہی ایک ایسی فضا سے سامنا ہوتا ہے، جس کی ہوا میں کافی کی روح افزا خوشبو، پودینے، سونف اور زعفران کے مرکب سے تیار قہوے کی دل فریب مہک اور دودھ والی چائے کی دل کو للچاتی بھاپ ایک ساتھ رقصاں ہیں۔ کابل کا یہ ’’گلِ نسترن‘‘صرف ایک قہوہ خانہ نہیں، بلکہ بدخشان کے دارالحکومت فیض آباد میں موجود Hidden Girls Cafe نامی خواتین کے کیفے کی طرح درحقیقت خواتین کی ایک ادبی بیٹھک ہے، جہاں صرف صنفِ نازک کی مسکراہٹیں، قہقہے اور کتابوں کے ورق ساتھی ہیں۔ امارتِ اسلامی کے زیرِ سایہ یہ مقام خواتین کو وہ آسودگی دے رہا ہے، جسے وہ ’’احترام کی چھائوں‘‘ کہتی ہیں۔قہوے کی پیالی میں سمٹا ہوا سماج،کافی، چائے اور قہوہ،یہ مشروبات صرف پیاس بجھانے یا ذائقے کی تسکین تک محدود نہیں، بلکہ ان کی خوشبو اور گرماہٹ میں ثقافت اور ادب کی گہری چھاپ موجود ہے۔
صدیوں سے قہوہ خانے اور چائے خانے صرف پینے پلانے کی جگہ نہیں رہے، بلکہ یہاں شاعر اپنے اشعار سناتے، ادیب اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے اور روشن خیال معاشرتی مسائل پر غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ ایک رائج جملہ ہے کہ ’’چائے کے بغیر شاعری ادھوری ہے‘‘ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’کافی خیالات کو جگاتی ہے اور گفتگو کو گرما دیتی ہے۔‘‘یہ معاشرتی اقوال چائے، کافی اور قہوے کے ادبی و سماجی رتبے کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک نوجوان دوشیزہ، جو خود کو ’’زبیدہ‘‘کہلواتی ہیں، کہتی ہیں۔ ’’یہاں چائے کی چسکیاں ہمارے جذبات کی ترجمان ہیں۔ جیسے اردو کے غالب نے کہا تھا ’’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ہمارے لئے دوا تویہی زعفرانی قہوہ ہے! ’’دوسری طرف کافی کی شوقین،زیبا قادری،نیلوفر عاکفیان کے شعر گنگناتی ہیں:
در کافہ رو بہ روی خیالم نشستہ ای
مثل ہمیشہ وعدہبہ فردا دہی مرا
یک جرعہ می شوم تہ فنجان قہوہات
تا بلکہ توی زندگیات جا دہی مرا
نیلوفر عاکفیان اپنی تخیلاتی دنیا کی تصویر کھینچتے ہوئے بتاتی ہے کہ محبوب اپنے وعدوں کے ساتھ اسی طرح سامنے بیٹھا ہے،جیسے ہر روز کل کی امید جگاتا ہے ، مگر یہ وعدے وقت کی نرمی میں گھل کر اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں۔ شاعرہ خود کو اس قہوے کے پیالے کی تہہ میں موجود ایک گھونٹ باور کرتی ہے۔ یعنی وہ چاہتی ہے کہ اپنی موجودگی کے مختصر، مگر معنی خیز قطرے سے محبوب کی زندگی میں جگہ بنا لے۔معاشرے میں مشہور ہے کہ ’’چائے مٹھاس ہے، کافی گرم جوشی اور قہوہ استقامت!‘‘یہ تینوں مشروبات افغان خواتین کی روزمرہ داستانوں کا حصہ ہیں۔افغان قہوہ خانے، ادب کی وہ محفلیں جہاں فارسی اور اردو چہکتی ہیں،امارت اسلامی میں خواتین کے لئے مخصوص ان کافی شاپس اور چائے خانوں میں خواتین نہ صرف سیاسی بحثوں میں حصہ لیتی ہیں بلکہ شاعری کی محفلیں بھی سجاتی ہیں،جہاں فارسی اور اردو کے الفاظ باہم گلے ملتے ہوئے دو تہذیبوں کو یکجہتی کا لباس پہناتے ہیں۔’’گلِ نسترن‘‘کے ایک کونے میں خواتین کی ایک محفل سجی ہے۔ فارسی شاعری کی دل دادہ ایک بزرگ خاتون ’’گل بختاور‘‘ حافظ شیرازی کے اشعار پڑھ رہی ہیں۔
’’اگر آن ترکِ شیرازی بدست آرد دل ما را
بخال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را‘‘
(اگر وہ شیرازی ترک ہمارا دل اپنے ہاتھ میں لے لے تو میں اس کے ہندوستانی خال(رخسار کے تِل)کے عوض سمرقند و بخارا بخش دوں!) جب یہ شعر قہوہ خانے کی فضا میں گونجتا ہے تو خواتین کے لیے یہ پیغام بن جاتا ہے کہ ’’عشق اور علم کی دولت زمینوں اور تختوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘ بزرگ خاتون نے اِس شعر کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ ’’حافظ کی شاعری ہمیں سکھاتی ہے کہ حسنِ فکر اور حسنِ عمل ہی وہ خال (رخسار کے تِل)ہیں، جو ہمیں سمرقند و بخارا سے بھی بلند مقام دیتے ہیں۔‘‘ حافظ شیرازی کے اس بلند تخیل ہی کی وجہ سے شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے حافظ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا
’’حافظِ شیراز! تو دردا شناسِ عشق بودی
ور نہ ایں سوز و گداز از تو کجا پیدا شد‘‘
اے حافظِ شیراز! تو عشق کے دکھوں کو پہچانتا تھا، ورنہ یہ سوز و گداز تیرے ہاں سے کیسے جنم لیتا؟ (بزرگ فارسی خاتون کا گنگنایا ہوا حافظ شیرازی کا یہ شعر نہ صرف عشق کی لازوالیت کا ترانہ ہے بلکہ اس انسانی جذبے کا استعارہ بھی ہے، جو مادیت پر روحانیت کو ترجیح دیتا ہے بالکل اس قہوہ خانے کی خواتین کی طرح، جو اپنے قہوے کے پیالوں میں علم و فن کے مرکزِ گم گشتہ سمرقند و بخارا کی روح تلاش کرتی ہیں۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگر،ہم عجم کی زبانوں میں کوئی دلہن تلاش کریں تو بجا طور پر فارسی ہی اس لائق ہے کہ اسے زبانوں کی دلہن کہا جائے۔ البتہ ادب کے وسیع ذوق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا بھی از حد ضروری ہے کہ برصغیر کے گلی کوچوں اور پادشاہی دیوانوں میں پروان چڑھی اردو کو فارسی دلہن کی ہمشیرہ کہنا مناسب ہوگا۔ جیسے اردو کے شاعر ’’اقبال اشہر‘‘کہتے ہیں:
اردو ہے مرا نام، میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہم راز ہوں غالب کی سہیلی
دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے مرا حسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کِھلی بن کے چنبیلی
اردو ہے مرا نام، میں خسرو کی پہیلی
اسی محفل میں شاعری کا شغف رکھنے والی چائے کی شوقین ’’ناہید‘‘کہتی ہیں :
بے وفائی کی خیر ہے لیکن
ہائے ظالم نے چائے نہ پوچھی
اس پر محفل میں ایک چلبلی اور شوخ لڑکی ’’بروانہ‘‘نے شعر اچھالا،گھر کی صفائی، کھانا اور بچوں کی دیکھ بھال،لڑکی کو چائے لانا بہت مہنگا پڑااس پر محفل میں موجود ’’گلِ بختاور‘‘ نے چٹکی لی کہ ’’ ناہید کو جس لڑکی نے چائے نہیں پوچھی تھی، وہ شائد،گھر کی صفائی، کھانا اور بچوں کی دیکھ بھال،جیسا مہنگا سودا نہیں کرنا چاہتی ہوگی۔‘‘ جس پر کِھلکھاتی صنفِ نازک کی یہ محفل زعفران زار بن گئی۔گرم مشروبات کے ساتھ لطیفوں کی روایات، اس کے علاوہ چائے کی چسکیوں کے ساتھ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی ان کی زندگی میں رنگ بھرتا ہے۔ہرات میں موجود Latte Caf (دودھ والی کافی) “Latte” اطالوی زبان میں ’’دودھ‘‘ کے معنی رکھتا ہے میں کافی کی چسکیاں لیتی’’شہناز عزیزی‘‘کہتی ہیں کہ ‘قہوہ خانوں کی رونق لطیفوں کے بغیر ادھوری ہے۔وہ ہنس کر بتاتی ہیں۔ ’’میرے شوہر کہتے ہیں کہ چائے پینے والے خواب دیکھتے ہیں، کافی والے انہیں پورا کرتے ہیں اور قہوہ والے دونوں کو نہ پینے کی نصیحت دیتے ہیںؑ!‘‘ ایک لطیفہ جو عموماً سنا جا سکتا ہے کہ چائے پینے والوں کی زندگی میں کبھی سکون نہیں رہتا، کیوں کہ چائے کا ہر نیا گھونٹ ایک نئی بحث کا آغاز ہوتا ہے!۔یہ ہنسی مزاح ان کے روزمرہ کے دکھوں کو ہلکا کرتا اور ایک خوش گوار ماحول پیدا کرتا ہے۔اسی لئے مشہور ہے کہ چائے نے مسکراتے ہوئے سبز قہوے سے پوچھا،کیا چیز مجھے اتنا اہم بناتی ہے؟
(جاری ہے)