پیکا کی سپورٹ نہیں کرتا، لیکن جھوٹ پھیلانےکی سزا ہونی چاہیے: شرجیل میمن
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ اگر ہم مل کر کوشش کریں تو ملک میں سیاسی استحکام لاسکتے ہیں۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ دنیا میں حکومت اور کاروباری طبقہ مل کرکام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے بھی سندھ کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبوں کو سراہا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ حکومتیں اور سرمایہ کار مل کر کام کریں تاکہ عوام کو سہولتیں میسر ہو سکیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ متعارف کرا رہے ہیں، سندھ کے پبلک پرائیویٹ ماڈل کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی ہے۔
پی پی رہنما کا کہنا ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے پنک اسکوٹر پروگرام اسکیم لا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے شاندار جگہ ہے، بڑی تعداد میں چینی سرمایہ کار پاکستان آ رہے ہیں۔
وزیرِ اطلاعات سندھ نے کہا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے دنیا کی توجہ حاصل کر رہا ہے، سندھ حکومت ون ونڈو سہولت دینے کا عزم رکھتی ہے۔
شرجیل میمن نے مزید کہا کہ ذہنی طور پر پیکا کی سپورٹ نہیں کرتا، لیکن جھوٹ پھیلانےکی سزا ہونی چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب، کے پی، بلوچستان سب ملک کے حصے ہیں، جہاں اچھا کام ہو اس کی تعریف کرنی چاہیے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شرجیل میمن نے نے کہا کہ
پڑھیں:
غزہ: رقصِ مرگ
آپ ماضی اور حال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جنگیں کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ ہر دو فریق کے لیے مزید تباہی و بربادی کا سامان لے کر آتی ہیں۔ فریقین کو ہر صورت مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے جس کی تازہ مثالیں پاک بھارت اور اسرائیل ایران جنگیں ہیں۔ دونوں مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔
امریکی صدر متعدد بار اپنے اس کردار کا مختلف مواقعوں پر تذکرہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی، ورنہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور خوف ناک جنگ میں تبدیل ہو جاتی۔ انھوں نے ایران کے خلاف جارحیت روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تو جنگ بندی ممکن ہوئی لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فلسطین کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت روکنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور مردوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے روزانہ 80/70 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سفاکی، بربریت اور شقی القلبی کا عالم یہ ہے کہ اس نے پورے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ گھر، بازار، مکان، اسپتال اور اسکول غرض غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہیں ہے۔ ہر عمارت بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ نیتن یاہو امدادی کاموں میں بھی رخنہ اندازی کر رہا ہے۔
غذا کے حصول کے لیے برتن لیے قطاروں میں کھڑے معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث بھوک سے نڈھال ہو کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ اسرائیلی وحشت کا رقص رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ شدید عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے محدود پیمانے پر امدادی سامان کے لیے راہداری دے دی ہے اور چند گھنٹوں کی رسمی طور پر بمباری روکنے کا بھی عندیا دیا ہے، لیکن غزہ کی صورت حال انتہائی نازک اور سنگین ہو چکی ہے تمام عالمی اداروں کی رپورٹیں غزہ کی بگڑتی ہوئی حالت پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسف کے ذمے دار ادارے متعدد بار وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر امدادی سامان کو بروقت مظلوم فلسطینیوں تک نہ پہنچایا گیا تو غزہ میں غذائی قلت اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لیے پرامید ضرور ہیں لیکن مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے اور تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے۔ جب کہ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ غزہ پر کسی صورت مکمل اپنا کنٹرول حاصل کرکے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر دیا جائے۔ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے زائد تعداد زخمیوں کی ہے جو بمباری سے تباہ ہونے والے اسپتالوں کے باعث علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حد درجہ دکھ اور المیہ یہ ہے کہ تدفین کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں، چار و ناچار اجتماعی قبروں میں شہدا کو دفن کیا جا رہا ہے، لیکن قیام امن اور دنیا میں انسانی حقوق کے ذمے دار ملکوں اور اداروں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام ہیں۔
محض زبانی کلامی باتیں کی جا رہی ہیں اور نام نہاد ہمدردی کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں صورت حال کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ فرانس نے بجا طور پر یہودی آبادکاروں کے تشدد کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے لیکن انتہائی حیرت و افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی گہرے مراقبے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عرب دنیا مظلوم فلسطینیوں کے حقوق اور ان پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ 80 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے، قحط کا رقص مرگ جاری ہے اور مسلم امہ پر خاموشی طاری ہے۔
حماس اسرائیل جنگ میں عالم اسلام کے کردار پر بڑے سوالیہ نشانات ہیں۔ پوری دنیا میں تقریباً 57 اسلامی ممالک ہیں جن میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے، مسلمانوں کی باقاعدہ ایک تنظیم ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کے نام سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔ گزشتہ تقریباً پونے دو سال سے اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں پر توپوں، طیاروں اور میزائلوں سے آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے، فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
کوئی عمارت، اسکول، اسپتال، بازار اور پناہ گاہ سلامت نہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت اور اس کے سفاکانہ مظالم کے خلاف غیر مسلم عوام مظاہرے اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم نے اپنے طور پر کیا اقدامات اٹھائے؟ تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک اگر متحد ہو کر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے امریکا پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے بغل بچہ اور کٹھ پتلی اسرائیل کو بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم سے باز رہے تو یقینا ایک موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی قیادت اپنے اپنے مفادات کے زیر اثراسرائیل کے خلاف بھرپور اور موثر اقدمات اٹھانے سے قاصر ہے۔
گزشتہ پونے دو سال میں او آئی سی کا ایک بھی سربراہ اجلاس نہیں بلایا گیا کہ جس کے نتیجے میں کوئی جامع عملی اقدامات اٹھائے جاتے اور فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات کی کوئی راہ نکلتی۔او آئی سی محض نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے کوئی ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے مسلم امہ کی بے حسی فلسطینیوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے، وہاں صہیونی بربریت میں اضافہ ہو رہا ہے نتیجہ چار سُو موت رقصاں ہے۔