پاکستان کے پہلے خلا باز کی تربیت اور مشن پر روانگی کیلئےچین کیساتھ معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
پاکستان کے پہلے خلا باز کی تربیت اور چینی اسپیس اسٹیشن مشن پر روانگی کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔
سپارکو ترجمان کے مطابق اسپارکو کے چین کی مینڈ اسپیس ایجنسی کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔
سپارکو کے مطابق پاکستان کے پہلے خلا باز کو تیانگونگ چینی خلائی اسٹیشن کے مشن پر روانہ کیا جائے گا، دو پاکستانی خلا باز چین کے ایسٹروناٹ سینٹر میں تربیت حاصل کریں گے۔
سپارکو ترجمان کے مطابق خلا باز کو سائنسی پے لوڈ اسپیشلسٹ کے طور پر تربیت دی جائے گی۔
ترجمان سپارکو نے کہا کہ یہ خلا باز چین اسپیس اسٹیشن میں مخصوص سائنسی تحقیق کے لیے تیار ہوگا، خلا باز کے انتخاب کا عمل 2026 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
چین اسپیس اسٹیشن کے منصوبے کے مطابق آئندہ مشن میں شمولیت اختیار کرے گا، پاکستان کے پہلے خلا باز کا مشن جدید سائنسی تجربات پر مشتمل ہوگا۔
اسپارکو ترجمان کے مطابق یہ معاہدہ ایک تاریخی سنگ میل ہے، وفاقی وزیر احسن اقبال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی میں جدت دراصل استعداد کار میں اضافے اور تحقیق کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ڈی جی سی ایم ایس اے شی چیانگ نے کہا کہ چین خلائی تحقیق میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کےلیے پرعزم ہے۔ پروگرام میں پاکستان کی شمولیت مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اس سے باہمی سائنسی تبادلے اور امن کےلیے خلائی تحقیق کے وژن کو تقویت ملے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پاکستان کے پہلے خلا باز کے مطابق
پڑھیں:
پاور ڈویژن نے دو بجلی میٹرز پر پابندی کی خبروں کی تردید کر دی
اویس کیانی: پاور ڈویژن نے دو بجلی میٹروں پر پابندی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کو گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔
ترجمان پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ ایسی خبریں عوام میں بے چینی پھیلانے کی مذموم کوشش ہیں۔ ترجمان کے مطابق قانون اور شرائط کے مطابق رہائشی جگہ پر دوسرا بجلی میٹر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ اگر علیحدہ پورشن، الگ سرکٹ، دوسرا داخلی راستہ یا علیحدہ کچن موجود ہو تو دوسرا میٹر لگوانے کی اجازت ہے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی نگرانی کیلئے کنٹرول روم فعال
پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کے ناجائز استعمال اور سبسڈی کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں۔