ٹیسلا کے لیے مشکلات کے باوجود بھارتی مارکیٹ اہم کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) امریکی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا نے حال ہی میں بھارت میں ملازمتوں کی تشہیر شروع کر دی ہے۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر دارالحکومت نئی دہلی اور ملکی اقتصادی مرکز ممبئی دونوں کے لیے اسٹور مینیجر اور سروس ٹیکنیشن سمیت ایک درجن بھر آسامیاں مشتہر کیں۔ کمپنی کا یہ اعلان اس کے سی ای او ایلون مسک کی واشنگٹن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ون آن ون ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
ٹیسلا کی انتظامیہ کئی سالوں سے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کی مارکیٹ میں داخلے پر غور کر رہی ہے۔ گزشتہ سال بھارتی میڈیا پر ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں، جن کے مطابق ٹیسلا فیکٹری اور شو روم کے لیے موزوں مقامات کی تلاش کر رہی تھی۔
(جاری ہے)
بھارت میں الیکٹرک کاروں کی مارکیٹ ابھی اتنی بڑی نہیں اور ایسے میں یہ ٹیسلا کے لیے ترقی کا ایک اچھا موقع کیونکہ اسے چینی حریف کمپنیوں سے مقابلہ کرنے اور اپنی گاڑیوں کی سالانہ فروخت میں پہلی بار کمی کی وجہ سے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔
ایک اہم اور امید افزا مارکیٹبھارت کے پاس حجم کے لحاظ سے دنیا کی تیسری سب سے بڑی آٹوموٹیو مارکیٹ ہے۔ اور مودی حکومت کے پیش نظر بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے بڑے منصوبے ہیں۔ بیٹری اوکے ٹیکنالوجیز کے بانی اور سی ای او شبھم مشرا نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ 2030ء تک ملک میں نئی کاروں کی فروخت کا 30 فیصد حصہ الیکٹرک کاروں کا ہو۔
تاہم مشرا کے بقول، ''پھر بھی، اہم چیلنجز باقی ہیں۔''انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹیسلا کے ماڈل تھری کی موجودہ قیمت تقریباﹰ چالیس ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے یہ بھارتی مارکیٹ میں صارفیں کے لیے قابل برداشت حد سے کہیں زیادہ ہے، جہاں فروخت ہونے والی اسی فیصد کاروں کی قیمت اسی ہزار ڈالر سے کم ہے۔'' انہوں نے مزید کہا، ''ممکنہ طور پر تیس ہزار ڈالر سے کم لاگت کا مقابلہ کرنے والا ماڈل تیار کرنا ضروری ہو گا، جس میں بھارت کے چالیس ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت کا مقابلہ کرنے کے لیے بیٹری کے معیار کو برقرار رکھنے پر غیر متزلزل توجہ مرکوز کی جائے گی۔
''مشرا نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں کی ستر فیصد مارکیٹ پر قابض ٹاٹا موٹرز جیسے مقامی حریفوں سے بھی ٹیسلا کو ایک زبردست خطرہ ہے۔
ای ویز بنانے والوں کے لیے مراعات اور چیلنجزبھارت میں میں طویل عرصے سے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے زیادہ درآمدی ٹیکس لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مقامی مینوفیکچرنگ کی عدم موجودگی میں بھی ٹیسلا کو مارکیٹ میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔
تاہم پچھلے سال بھارت نے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے ایک پروگرام شروع کیا۔ اس پالیسی کے تحت ان عالمی کار سازوں کے لیے ای کاروں پر درآمدی ڈیوٹی میں کمی کردی گئی ، جنہوں نے 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے اور تین سال کے اندر مقامی پیداوار شروع کرنے کا عہد کیا تھا۔اس حکومتی اقدام کو ٹیسلا کو مقامی پلانٹ لگانے کی ترغیب دینے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم یہ پالیسی تمام الیکٹرک کار سازوں پر لاگو ہوتی ہے۔ ویتنامی کار ساز کمپنی ون فاسٹ نے پہلے ہی اس سال بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں کی فیکٹری لگانے پر دو بلین ڈالر خرچ کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ ان منصوبوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ملک کا چارجنگ انفراسٹرکچر ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت میں ای وی چارجنگ نیٹ ورک میں اضافہ ہوا ہے، جو 2022ء کے اوائل میں 1800 پبلک چارجنگ اسٹیشنوں سے بڑھ کر 2024ء کے وسط تک 16،000 سے زیادہ ہو گئے ہیں ہے۔ جیت کی صورت حال؟سوسائٹی آف انڈین آٹوموبائل مینوفیکچررز کے سابق ڈائریکٹر جنرل دلیپ چنائےکا کہنا ہے کہ چیلنجز کے باوجود ٹیسلا جدید ٹیکنالوجی لا کر، صارفین کی پسند میں اضافے اور مسابقت کو بڑھا کر بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں کے حصول میں تیزی لا سکتا ہے۔
چنائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگرچہ بھارتی صارفین کے لیے گاڑیوں کی قیمتوں کا تعین کرنے،اسے مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے اور چارجنگ انفراسٹرکچر کو آگے بڑھانے میں چیلنجز بدستور موجود ہیں لیکن یہ ٹیسلا اور بھارت دونوں کے لیے ایک جیت ہے۔
ٹیسلا کے لیے یہ ایک بڑھتی ہوئی مارکیٹ اور ایک نئی پیداوار کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کار ، ٹیکنالوجی تک رسائی اور ایک مضبوط الیکٹرک گاڑیوں کا نظام قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، جو صارفین کو زیادہ انتخاب کی پیشکش کرے گا۔''مرالی کرشنن ( ش ر⁄ ک م )
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں الیکٹرک گاڑیوں بھارت میں الیکٹرک میں بھارت گاڑیوں کی ٹیسلا کے کے لیے
پڑھیں:
حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
اسلام آباد:پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔
حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29 ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔
پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔
توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔
توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔