سندھ بلڈنگ، ڈی جی اسحاق کھوڑو کی کرم نوازی ذوالفقار راؤ ناظم آباد پر قابض
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
عمارتوں پر نمائشی انہدامی کاروائیاں محض مال بٹورنے کا ذریعہ ہیں، جرأت سروے
ناظم آباد کے مختلف پلاٹ 9/15C 20/10اور3B 2/18پر نمائشی کا رروائیاں
ناظم آباد پر قابض اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار راؤ پر ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو کی کرم نوازیاں جاری ہیں جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ناظم آباد میں خود ساختہ سسٹم تشکیل دے کر نمائشی انہدام کی آڑ میں دس سے پندرہ لاکھ روپے فی پلاٹ بٹورنے کا سلسلہ تیز کر دیا گیاہے۔ سروے پر موجود نمائندہ جرأت کو حقائق بتاتے ہوئے متاثرہ شخص کا کہنا ہے کہ پہلے بیس لاکھ وصول کرنے کے عوض بالائی منزل کی تعمیر کا اجازت نامہ دیا گیا تھا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد ذوالفقارراؤ اپنی ٹیم کے ہمراہ سائٹ پر تشریف لائے اور انہدام سے محفوظ رکھنے کے مزید پندرہ لاکھ روپے طلب کئے جس کا میں فوری طور پر انتظام نہ کر سکا ،پھر بڑی منت سماجت کے بعد بیرونی حصوں کی معمولی توڑ پھوڑ کر کے مخصوص زاویوں سے تصاویر بنانے کے بعد آٹھ لاکھ بٹور کر چلتے بنے ۔سروے پر موجود نمائندہ جرأت نے دیکھا کہ منہدم کی جانی والی عمارتوں پر نمائشی انہدامی کاروائیاں محض مال بٹورنے کا ذریعہ ہیں ۔اس وقت ناظم آباد میں پلاٹ نمبر 3D 7/33F 16/135C 9/15C 20/10 اور3B 2/18 پر نمائشی انہدامی کاروائیاں کی گئی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں بننے والی غیر قانونی بالائی منزلوں پر نمائشی انہدامی کاروائیاں کی گئیں تھیں جن کی ازسرنو تعمیر کا عمل بھی شروع کروایا جاچکا ہے جس پر اہل علاقہ میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے جس کی تفصیلات آئندہ شمارے میں شائع کی جائیں گی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پر نمائشی انہدامی کاروائیاں
پڑھیں:
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا
پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی
پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، محکمۂ آبپاشی
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی۔محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 4600کیوسک جبکہ ڈائون اسٹریم میں محض 190کیوسک اخراج کیا جا رہا ہے ۔ 2023ء کے اپریل میں کوٹری بیراج اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 8900کیوسک اور 2024ء کے اپریل میں 5000کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی، یہ اعداد و شمار ہر سال پانی کم سے کم ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔محکمۂ آبپاشی کے مطابق پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے ، صرف پینے کا پانی دستیاب ہے ۔محکمہْ زراعت کے مطابق پانی کی کمی کے اثرات فصلوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔خریف کے سیزن میں سندھ کے اندر گزشتہ 5 سال کے دوران پونے 5 سے سوا 6 لاکھ ہیکٹر پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ اسی طرح 2 لاکھ 79 ہزار سے 2 لاکھ 95 ہزار ہیکٹر پر گنے کی فصل کاشت کی گئی، 7 لاکھ 8 ہزار سے 8 لاکھ 11 ہزار ہیکٹر تک چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت جاری رہی تو سندھ کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔محکمہْ آبپاشی، زراعت اور آبادگاروں کو امید ہے کہ بارشیں ہونے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔