نیو یارک میں ایلون مسک کے خلاف احتجاج پر 9 افراد گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
نیویارک: ہفتے کے روز نیویارک میں ٹیسلا شوروم کے باہر مظاہروں کے دوران پولیس نے 9 افراد کو گرفتار کر لیا۔ یہ مظاہرے ایلون مسک کی وفاقی ملازمین کی برطرفیوں میں مبینہ شمولیت کے خلاف کیے گئے۔
’ٹیسلا ٹیک ڈاؤن‘ نامی اس احتجاج میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی، جو امریکا بھر میں ٹیسلا کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا حصہ تھا۔ مظاہرین نے سڑکیں بلاک کر دیں اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "ٹیسلا جلاؤ، جمہوریت بچاؤ" اور "امریکا میں آمریت نامنظور"۔
ایلون مسک، جو کہ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں "ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی" (DOGE) کے سربراہ ہیں۔ وہ وفاقی حکومت کے دائرہ کار کو محدود کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے اور سینکڑوں امدادی معاہدے ختم کر دیے گئے ہیں۔
100,000 سے زائد وفاقی ملازمین یا تو نوکریاں چھوڑ چکے ہیں یا برطرف کیے جا چکے ہیں، جن میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے ماہرین، سائنسی محققین اور توانائی فراہم کرنے والے عہدیداران شامل ہیں۔
مظاہروں کے منتظمین نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ٹیسلا کے شیئرز فروخت کریں اور کمپنی کا بائیکاٹ کریں۔ معروف اداکار اور فلمساز ایلکس ونٹر نے کہا کہ "مسک کو ٹیسلا سے الگ کرنا، اس حکومت کے پیسے اور طاقت پر کاری ضرب ہوگا۔"
ٹیسلا اور وائٹ ہاؤس کے ترجمانوں نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
واشنگٹن :صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بارپھر خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکہ کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔
جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکہ کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اٹھایا۔عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکہ، ریڈیو فری ایشیا اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔
جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔
وائس آف امریکہ VOA کی وائٹ ہاوس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم وائس آف امریکہ کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔
امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکہ سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔وائٹ ہاوس نے ان اداروں پر ” ٹرمپ مخالف” اور “انتہا پسند” ہونے کا الزام لگایا تھا۔وائس آف امریکہ نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔