فلسطینی جدوجہد پر مبنی دستاویزی فلم 'نو ادر لینڈ' نے آسکر ایوارڈ جیت لیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
فلسطینیوں کی جدوجہد پر مبنی دستاویزی فلم 'نو ادر لینڈ' نے اس سال بہترین دستاویزی فلم کا آسکر ایوارڈ جیت لیا ہے۔ یہ فلم فلسطینی اور اسرائیلی فلم سازوں کی مشترکہ کاوش ہے، جس میں مقبوضہ مغربی کنارے میں آبادکاروں کے تشدد اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی گھروں کی مسماری کو اجاگر کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال ریلیز ہونے کے بعد 'نو ادر لینڈ' نے برلن فلم فیسٹیول اور نیویارک فلم کریٹکس سرکل ایوارڈز سمیت متعدد اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر، فلسطینی کارکن باسل ادرا نے اپنی ایوارڈ تقریر میں عالمی برادری سے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا، "دو ماہ قبل میں باپ بنا ہوں اور میری امید ہے کہ میری بیٹی کو وہ زندگی نہ جینی پڑے جو میں جی رہا ہوں، ہمیشہ خوف میں، ہمیشہ آبادکاروں کے تشدد، گھروں کے انہدام اور جبری بے دخلیوں سے ڈرتے ہوئے۔"
فلم کے شریک ڈائریکٹر، اسرائیلی صحافی یوفال ابراہم نے اپنی تقریر میں امریکی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اور اس کے عوام کی ہولناک تباہی کو ختم ہونا چاہیے اور 7 اکتوبر کو ظالمانہ طور پر یرغمال بنائے گئے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک ساتھ اپنی آوازیں بلند کرتے ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں، لیکن ہم برابر نہیں ہیں۔ ہم ایسے نظام میں رہتے ہیں جہاں میں آزاد ہوں، لیکن باسل کی زندگی فوجی قوانین کے تحت برباد کی جا رہی ہے۔
'نو ادر لینڈ' اُس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جو فلسطینی دہائیوں سے سہہ رہے ہیں اور جس کی اب بھی مزاحمت کر رہے ہیں۔ فلم سازوں کا عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ اس ناانصافی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو بند کروائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نو ادر لینڈ
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بمباری تھم نہ سکی، مزید 16 فلسطینی شہید
صیہونی فوج نے رہائشی عمارتوں پر حملے تیز کر دیئے، مزید 16 فلسطینی شہید ہوگئے، درجنوں عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے پیر کے روز غزہ شہر پر کیے گئے شدید فضائی اور زمینی حملوں میں کم از کم 16 فلسطینی شہید ہو گئے، جبکہ درجنوں عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اس دوران ہوا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے جنگ کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
روبیو کا یہ دورہ قطر میں عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس کے ساتھ ہوا، جس میں کچھ ممالک امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں اور یہ اجلاس حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے خلیجی ملک قطر میں مقیم حماس کے رہنماؤں پر حملے کے ردعمل میں بلایا گیا تھا۔
مقامی صحت حکام نے تصدیق کی ہے کہ تازہ ترین حملوں میں دو رہائشی مکانات اور ایک خیمہ نشانہ بنے، جہاں ایک بے گھر فلسطینی خاندان عارضی طور پر مقیم تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی افواج نے غزہ کے مختلف علاقوں پر حملے کیے، جس سے شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ سڑکوں اور کھلے میدانوں میں قائم کیمپوں میں رہائش پذیر ہزاروں افراد کو جنوب کی طرف محفوظ علاقوں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ یہ کارروائیاں حماس کو شکست دینے اور غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ تاہم، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی جانب سے ان حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، جنہیں ”جبری اجتماعی بے دخلی“ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، جنوبی غزہ کے نام نہاد ”انسانی زون“ میں حالات انتہائی خراب ہیں، جہاں خوراک، پانی اور طبی سہولتوں کی شدید قلت ہے اور پناہ گزین بدترین صورتحال کا شکار ہیں۔
غزہ کے علاقے صبرا کی رہائشی 50 سالہ خاتون غادہ، جو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا ”کیا آپ جانتے ہیں کہ نقل مکانی کیا ہے؟ یہ روح کو جسم سے نکالنے کے مترادف ہے، یہ ذلت ہے، موت کی ایک اور شکل ہے۔“
ادھر اسرائیلی افواج گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرقی غزہ کے کم از کم چار علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے تین علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اب یہ افواج شہر کے مرکز کی طرف بڑھ رہی ہیں اور ان کا اگلا ہدف مغربی علاقہ ہو سکتا ہے، جہاں زیادہ تر بے گھر افراد نے پناہ لی ہوئی ہے۔