راولپنڈی کے علاقے مورگاہ میں قائم اسکول جہاں غریبوں کے بچے زیرتعلیم ہیں
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
سحرش سدوزئی کا کہنا ہے کہ 2016 میں راولپنڈی کے علاقے مورگاہ میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک اسکول شروع کیا جس میں صرف 3 بچے تھے اور اب 200 سے زیادہ بچے اس اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس اسکول میں تمام وہ بچے پڑھ رہے ہیں جن کی مائیں لوگوں کے گھروں میں کام کررہی ہیں اور والد دیہاڑی دار مزدور ہیں۔
سحرش سدوزئی کے مطابق فریضہ کے نام سے شروع ہونے والا پراجیکٹ پرائمری تک بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان بچوں کی ابتدائی تعلیم ایسی ہوکہ آگے جاکر وہ باآسانی کسی بھی اسکول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔
سحرش نے بتایا کہ جب ان بچوں کو گلی میں کھیلتے دیکھتی تھی تو دل کرتا تھا ان بچوں کو تعلیم دلوا سکوں، یہی سوچ رکھتے ہوئے میں نے اسکول بنایا اور ان بچوں کو تعلیم دینے کا سفر شروع کیا۔ آہستہ آہستہ ایسے لوگ ہمارے ساتھ جڑگئے ہیں۔ اور اب ہم ایک باقاعدہ سسٹم کے ساتھ چل رہے ہیں، ایک مکمل اسکول جیسا ماحول بچوں اور والدین کو دے رہے ہیں۔ مزید دیکھیے اس ویڈیو میں رپورٹ میں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسکول راولپنڈی زیرتعلیم سحرش سدوزئی غریبوں کے بچے مورگاہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسکول راولپنڈی زیرتعلیم غریبوں کے بچے مورگاہ وی نیوز رہے ہیں بچوں کو ان بچوں
پڑھیں:
ندا یاسر کو ایک بار پھر اپنی ملازمہ کی چوری کی کہانی سنانے پر تنقید کا سامنا
کراچی(شوبز ڈیسک) اداکارہ و ٹی وی میزبان ندا یاسر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کی زد میں ہیں، اس بار وجہ بنی اُن کی ایک اور ملازمہ سے متعلق چوری کی کہانی جو انہوں نے اپنے پروگرام میں سنائی۔
حال ہی میں ندا یاسر نے اپنے مارننگ شو ’گڈ مارننگ پاکستان‘ میں ایک بار پھر اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کی تفصیلات بیان کیں۔
ندا یاسر نے بتایا کہ جب ان کے بچے بہت چھوٹے تھے اور وہ خود بھی کسی پیشہ ورانہ مصروفیت میں نہیں تھیں، تو اس وقت ان کی ایک سہیلی نے اپنے گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی کو ان کے گھر پر کام کے لیے رکھوا دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کا اسکول ان کے گھر سے کافی دور تھا، جب کہ ان کی سہیلی کے بچوں کا اسکول ان کے گھر کے قریب تھا۔
ندا یاسر کا کہنا تھا کہ صبح جب وہ اپنے بچوں کو اسکول لے کر جاتی تھیں تو انہیں اسکول میں رکنا پڑتا تھا، اس دوران گھر پر ان کی ملازمہ اکیلی ہوتی تھی، ایک دن ان کی سہیلی نے ان سے کہا کہ اس کی ملازمہ اسکول میں اکیلی بیٹھی رہتی ہے، اگر اجازت ہو تو وہ تمہارے گھر آکر اپنی بیٹی (یعنی ملازمہ) کے پاس وقت گزار سکتی ہے جب تک اسکول کی چھٹی نہیں ہو جاتی۔
میزبان کے مطابق انہوں نے فوراً اجازت دے دی کہ کوئی بات نہیں، جس کے بعد جب وہ اسکول جاتیں اور ان کے شوہر یاسر بھی گھر پر موجود نہ ہوتے تو پورے گھر میں صرف ملازمہ اور اس کی ماں موجود ہوتی تھیں اور پورا گھر ان کے حوالے ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران وہ دونوں خواتین گھر کے اسٹور سے ان کا قیمتی سامان چوری کرتی رہیں اور جب تک وہ ملازمہ ان کے گھر میں کام کرتی رہی، گھر سے خاصا سامان چوری ہوتا رہا۔
ندا یاسر نے مزید کہا کہ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملازمہ پر اندھا بھروسہ کیا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی سہیلی کو انکار بھی کر سکتی تھیں۔
ندا یاسر کی جانب سے مسلسل ملازماؤں کی چوری کی کہانیاں سنانے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ایک پروگرام ندا یاسر کو اکیلے کرنا چاہیے، جس میں وہ آرام سے سب کو بتا دیں کہ کتنی بار ان کے گھر پر چوری ہو چکی ہے، کیونکہ ہر بار ان کے پاس ایک نئی کہانی ہوتی ہے۔
کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی چوریاں ندا یاسر کے گھر میں ہوئی ہیں، اتنی شاید پورے کراچی میں بھی نہیں ہوئیں۔
صارفین نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ ندا یاسر کے گھر پیش آنے والی چوری کی کہانیاں سننے کے بعد تو بندہ ملازمہ کو نکال کر خود ہی جھاڑو پونچھا کر لے، لیکن ندا باجی! ہم تو کر لیں گے، آپ کا کیا ہوگا؟
Post Views: 4